معاشی ترقی کا خواب!

آئے دن ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے قومی زندگی کے ہر شعبہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔

دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی سفاکی و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اسکول کے معصوم طلبا کو شہید کر دیا۔ بلوچستان کے شہر مستونگ میں جمعہ کو گرلز ہائی اسکول کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں 6 طلبا، ایک پولیس اہلکار اور دو راہگیر شہید اور 33 افراد زخمی ہو گئے جن میں اکثریت اسکول کے طلبہ کی ہے۔

آئے دن ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے قومی زندگی کے ہر شعبہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حکومت امن و امان کے قیام سے لے کر معاشی بہتری لانے تک جو بھی اقدامات اٹھاتی ہے دہشت گرد عناصر اپنی مذموم کارروائیوں سے اسے سبوتاژکردیتے ہیں جب کہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ملک میں امن و امان کے قیام کے بغیر نہ معاشی ترقی ممکن ہو سکتی ہے، نہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی قومی معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو سکتا ہے۔ سیاسی استحکام بھی امن کے قیام اور معیشت کی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔

 بدقسمتی سے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر جنگ و جدل کا جو بازار گرم ہوا اور افغانستان سے لے کر لیبیا، شام اور عراق تک اس کا دائرہ پھیلتا گیا تو پاکستان بھی اس کے مضر اثرات کی لپیٹ میں آگیا۔ امریکی دباؤ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کا خمیازہ ہمیں اس طرح بھگتنا پڑا کہ خود وطن عزیز دہشت گردوں کے شکنجے میں آگیا، ہماری معیشت تباہ ہو گئی، اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور اسی ہزار سے زائد جانوں کا ضیاع برداشت کرنا پڑا۔

 پاک فوج نے وطن عزیز کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا۔ ملک کے دو اہم صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ جن کا قلع قمع کرنے کے لیے پاک فوج نے ردالفساد اور ضرب عضب جیسے آپریشن کیے۔ سیکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔

شدت پسندوں سے مقابلوں میں پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا کہ ان کا عزم خوارج کی مذموم کارروائیاں متزلزل نہیں کر سکتیں۔ تاہم یہ بات بہرحال تشویش ناک ہے کہ دو دہائیاں گزر گئیں، ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے، اس کے باوجود آج بھی شدت پسند دہشت گرد عناصر کے پی کے اور بلوچستان میں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اب ان کے قدم ایک مرتبہ پھر کراچی تک پہنچنے لگے ہیں، گزشتہ ماہ انھوں نے کراچی ایئرپورٹ پر چینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔

پاکستان کے دشمن اور خوارج بخوبی جانتے ہیں کہ چین پاکستان میں سی پیک جیسے بڑے اور اہم ترین منصوبے پر کام کر رہا ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ پاک دشمن قوتیں خوارج کے ذریعے پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کو نشانہ بنا کر نہ صرف پاک چین آہنی دوستی کو کمزور کرنا چاہتی ہیں بلکہ وہ چینی تعاون سے پاکستان میں جاری منصوبوں بالخصوص سی پیک کو بھی ناکام بنانے کی خواہاں ہیں، جو پاکستان اور چین دونوں کے لیے یقیناً باعث تشویش ہے۔

 اسی پس منظر میں چار روز پیشتر پاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’چائنا ایٹ 75‘‘ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر جیانگ زائی ڈونگ نے پاکستان میں چینی باشندوں پر حملوں اور دہشت گردی کے واقعات پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بجا طور پر کہا کہ چینیوں کی سیکیورٹی کے بغیر سی پیک آگے نہیں چل سکتا۔ چینی باشندوں کی سیکیورٹی سی پیک کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، گزشتہ چھ ماہ میں دو مہلک حملے ناقابل قبول ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی صدر ژی اپنے شہریوں کی سلامتی کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں۔ تقریب میں موجود وزیر خارجہ اور سابق وزیر اعظم اسحاق ڈار نے چینی سفیر کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان چینی شہریوں پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور صدر زرداری اگلے ہفتے اپنے دورہ چین میں اس حوالے سے تفصیلات شیئر کریں گے۔

چینی قیادت کے تحفظات دور کرنے کے پہلو بہ پہلو ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو مزید تیز سے تیز کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں حکومت کے اعلان کردہ آپریشن ’’عزم استحکام‘‘ کو سیاسی مصلحتوں سے پاک کرکے فوری طور پر عمل پذیر کرنا ہوگا۔بلاشبہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ہمارے گہرے مراسم ہیں۔ مشکل وقت میں یہی دوست ہماری معیشت کو سہارا دینے فرنٹ لائن پرکھڑے ہوتے ہیں۔

اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب و امارات کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے دونوں عرب ملکوں کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کر کے پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہیں ہموار کرنے کی قابل قدر کوششیں کی ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

Load Next Story