ہماری قومی ایئرلائن دنیا کی واحد ایئرلائن ہے جس کے پاس ورکنگ کنڈیشن میں صرف 19 طیارے ہیں اور جنھیں چلانے کے لیے پائلٹس کی تعداد700 کے قریب ہے۔ ہماری یہ ایئرلائن آزادی سے کچھ دنوں قبل اورینٹ ایئرلائن کے نام سے معرض وجود میں لائی گئی تھی جسے بعد میں 1955 میں PIA کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ اپنے قیام سے ہی یہ ایئرلائن تیزی کے ساتھ ترقی کرنے لگی اور ساری دنیا میں ایک اچھی ایئرلائن کے طور پر جانی پہچانی لگی۔
یہ دنیا کی پہلی نان کمیونسٹ ایئر لائن تھی جس نے چائناکے لیے پروازیں شروع کی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ براستہ قاہرہ، لندن اور روم بھی جانے لگی۔ اپنی بہتر سروس کی وجہ سے بہت جلد ساری دنیا میں مقبول ہونے لگی۔ یہ دنیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے BOEING 707 طیاروں کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا۔ اسی وجہ سے لوگ اس میں سفرکرنے کو ترجیح دینے لگے، ویسے تو اس کے پاس آج بھی 34 طیارے اپنے فلیٹ میں شامل ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تقریباً نصف کے قریب خراب اور ناکارہ ہوکر ہینگرز میں کھڑے ہیں۔ اس قومی ایئرلائن کا مالی نقصان روزانہ کی بنیاد پر اس تیزی کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس کا خسارہ اب اس کے اثاثوں کی کل مالیت سے بھی بڑھ چکا ہے۔ یہ اس حال میں کیسے اورکیونکر پہنچی، یہ ایک بہت ہی تلخ سوال اور حقیقت ہے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی ادارہ یا کمپنی اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کرنے لگے گی تو پھر اس کا زوال اور تباہی یقینی ہے۔PIA کو اس کے اپنے لوگوں نے نقصان پہنچایا۔ ضرورت سے زیادہ ملازمین نے اسے ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر لوٹا ۔ اول تو ضرورت سے زیادہ ملازمین کی بھرتی ہی کسی ادارے کے لیے زہر قاتل ہوا کرتی ہے، اس پر نااہل افراد زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے تھے اور اس میں سب سے زیادہ بھرتی پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگوں نے کی۔ ضیاء الحق دور کی زیادتیوں کا بدلہ اس پارٹی نے 1988 میں سرکاری طور پر پیپلز پلیسمنٹ بیورو قائم کر کے لیا۔
اس بیورو کے قیام کا مقصد ہی افراد کو قومی اداروں میں بھرتی کر کے اپنے لیے ایک بڑا ووٹ بینک قائم کرنا تھا اور اپنے لیے مزدور دوست پارٹی کی شناخت بنانی تھی۔ وہ آج بھی اس کا کریڈٹ اپنے نام کرتی ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی طرح PIA کو بھی ضرورت سے زیادہ افراد کی بھرتی کر کے دل کھول کر تباہ وبرباد کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ کرپٹ مافیا جس میں وہاں کے افسران اور مزدور یونین کے اہلکار شامل تھے، اسے کنگال کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی اور پھر نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
ماضی قریب میں PIA کی بے شمار پروازیں محض اس وجہ سے کینسل ہوئیں کہ اس کے پاس فیول خریدنے کے لیے پیسہ نہیں تھا۔ وہ PSO کی اتنی مقروض ہوچکی تھی کہ عدم ادائیگی کی وجہ سے اس نے بھی ادھار فیول دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لازمی بات ہے جب قرضہ اربوں میں بڑھتا چلا جائے اور قرضہ لینے والے کی مالی حالت بھی اتنی دگرگوں ہو تو ایسے میں اسے کون ادھار فیول دے گا۔اس ادارے کو بہت سی حکومتوں نے بیچنا اور نجی تحویل میں دینا چاہا مگر ہمیشہ کچھ سیاسی عناصر اس تجویزکی مخالفت میں سامنے آگئے اور جنھوں نے مزدور دوستی کا نعرہ لگا کے اس کے ملازمین کو بھڑکایا اور اکسایا کہ اس طرح تم لوگ بیکار اور بے روزگار ہوجاؤ گے۔ مسلم لیگ نون نے اپنے پچھلے ادوار میں بھی اسے بیچنے اور فروخت کرنے کی کوششیں کیں مگر پاکستان پیپلزپارٹی اس کی راہ میں حائل ہوکر ایک بڑی رکاوٹ بن گئی۔
حالانکہ دیکھا جائے تو نجی تحویل میں دینے سے کوئی ادارہ مکمل تباہ نہیں ہو جاتا ہے بلکہ اس کے جینے اور قائم رہنے کے اسباب اور امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ڈر صرف اُن ملازمین کو رہتا ہے جو کام چور اور نااہل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی پرائیویٹ خریدار ادارے کو اس طرح ہرگز نہیں چلاسکتا ہے جیسے PIA آج چل رہی ہے۔ وہ یقیناً اسے منافع بخش بنانے کے لیے اپنے فلیٹ میں مزید طیارے شامل کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ زیادہ طیاروں اور زیادہ فلائٹس کی وجہ سے اسے کسی ملازم کو فارغ بھی نہ کرنا پڑے۔ موجودہ حالت میں تو اسے ہرگز نہیں چلایا جاسکتا ہے۔
یہی حال پاکستان اسٹیل ملز کا بھی ہے جس کے ملازمین کی حالیہ تعداد تقریباً 9350 ہے اور ہماری ہر حکومت اسٹیل مل بند ہوجانے کے باوجود اِن ملازمین کو مسلسل تنخواہیں دے رہی ہے۔ وہاں ایک دھیلے کا بھی کام نہیں ہو رہا ہے مگر عوام کے ٹیکسوں سے اس سفید ہاتھی کو کئی سالوں سے پالا جا رہا ہے۔ یہاں بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی وہ جماعت ہے جو اسے نجی تحویل میں دیے جانے کی ہر تجویز کے خلاف مزاحمت کرتی نظر آتی ہے، وہ نہ اسے بیچنے دیتی ہے اور نہ اسے چلانے میں مدد دیتی ہے۔ خود اپنے دور اقتدار میں بھی اس نے اس کا کوئی مناسب حل تلاش نہیں کیا۔ نیتجہ اس کا یہ نکلا کہ اب اسے کوئی بھی خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کی تمام مشینیں زنگ آلود ہوکر ناکارہ ہوچکی ہیں اور یہ کسی کام کے قابل بھی اب نہیں رہیں۔ یہاں 2015 سے کام مکمل طور پر بند ہے لیکن اس کے ملازمین کو قوم کے جائز پیسوں سے 14 سو بلین روپے ہرسال ادا کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح PIA بھی رفتہ رفتہ اس درجے پر پہنچ چکا ہے کہ اس کا مالی خسارہ اس کے اثاثوں کی مالیت سے بہت بڑھ چکا ہے،لہٰذا اسے بھی خریدنے والا اب کوئی بچا ہی نہیں۔ نجی تحویل میں دینے کا جو کام موجودہ حکومت نے شروع کیا وہ اگر پہلے کردیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی کہ کوئی بولی دینے والا ہی باقی نہ رہا، جس ایک بڈر نے بولی دی وہ بھی اتنی کم کہ فروخت کرنا ناممکن ہوجائے۔ اتنی کم قیمت پر فروخت کرنے والی حکومت خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
دوسری طرف IMF مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ جلد از جلد اس خسارے والے ادارے سے حکومت اپنی جان چھڑائے۔ حکومت نے اگر کوشش کر کے اسے بیچ بھی ڈالا تو اس پراپوزیشن کی جانب سے زبردست تنقید کا سامنا یقینی ہے۔ ڈر یہی ہے کہ جو بھی حکومت یہ کام بلاشبہ نیک نیتی سے بھی کرے لیکن اس پر الزام یہی آئے گا کہ اس نے اسے اونے پونے میں دیکر خوب مال کمایا ہے۔ ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ یہاں کوئی تجویز بھی خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے دی جائے لیکن اس پر شکوک اور شبہات پیدا کر کے اسے ناقابل عمل بنا دیا جاتا ہے۔ کچھ کام سیاسی لوگ کر جاتے ہیں اور کچھ ہماری عدالتیں۔ ریکوڈیک معاملے میں عدالتی فیصلہ جس کا خمیازہ آج بھی ہماری قوم ادا کر رہی ہے ایک واضح مثال ہے۔
اسی طرح کے بہت سے سیاسی اور عدالتی فیصلے ہیں جن کی وجہ سے ہم کئی اہم اور ضروری پروجیکٹس پر آج تک عمل نہیں کر پائے۔ کہیں سیاسی مخالفت اور کہیں بظاہر انصاف پر مبنی عدالتی فیصلے اور کہیں بلاوجہ کے اسٹے آڈرز۔ پی آئی اے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اِسے اس وقت بیچنے نہیں دیا گیا جب اس کی بولی دینے والے بھی موجود تھے اور جب آج وہ بہت کمزور حالت میں ہے تو کوئی اسے خریدنے والا ہی نہیں ہے۔ سیاست اپنی جگہ لیکن قومی معاملات میں مخالفت برائے مخالفت اسی طرح کے شاخسانے جنم دیتی ہے۔ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ قوم ہر سال اپنی جیب سے ان کے خسارے پورے کررہی ہے اور اسے اس حال میں پہنچانے والوں کی دولت میں ایک پیسے کی بھی کمی نہ ہوئی۔