کل 5نومبر2024ء کو امریکی صدارتی انتخابات کی ’’جنگ‘‘ ہونے والی ہے۔ ساری معلوم دُنیا کی نگاہیں اِن انتخابات پر ٹکی ہُوئی ہیں ۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جھوٹ ، کردار کی کمزوریاں اور غزہ و فلسطین بارے اُن کے تعصبات انھیں شکست سے دوچار کردیں گے ۔ جب کہ اُن کی حریف ، کملا ہیرس، اپنی مسلسل مسکراہٹوں اور اپنے کھلے کردار سے وائیٹ ہاؤس پہنچ کر امریکی تاریخ کی پہلی منتخب خاتون صدر کا اعزاز حاصل کر لیں گی ۔
اصل نتیجہ تو مگر کل شام تک ہی نکلے گا۔سابق امریکی صدر ،جناب ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی سیاست و انتخابات کی ایک منفرد شخصیت ہیں ۔وہ سرمایہ دار اور سرمایہ کار ہیں ۔ بنیادی طور پر ایک ڈویلپر۔ آسان الفاظ میں پراپرٹی ڈیلر ۔ امریکی اور اسرائیلی یہودیوں سے نہائت قربت رکھتے ہیں۔ اِسی قربت کا شاخسانہ یہ بھی ہے کہ اُن کی ایک صاحبزادی ، ایوانکا ٹرمپ، نے ایک کٹڑ امریکی یہودی سرمایہ دار، جیرڈ کشنر، سے بیاہ رچا رکھا ہے۔
انتخابی مہمات کے دوران ٹرمپ صاحب اپنی مذکورہ بیٹی کے بچوں کو بانہوں میں لے کر اپنے سامعین، ناظرین اور حاضرین کو فخریہ بتاتے رہے ہیں کہ میرے یہ نواسے میرے یہودی داماد کے بچے ہیں ۔ ووٹ حاصل کرنے کے لیے وہ یوں اسرائیل کو بھی خوش کرنا چاہتے ہیں، اسرائیل نواز امریکی میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرتے ہیں اور طاقتور و سرمایہ دار امریکی یہودیوں کو بھی خرسند کرتے ہیں ۔
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں کئی باتیں مشترک ہیں ۔مثلاً: یہ دونوں صاحبان میڈیا میں اپنی مخالف آوازوں کو قطعاً پسند نہیں کرتے ۔ بانی پی ٹی آئی جب تک اقتدار میں رہے، اپنے ہاں کم کم مخالف رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کو مدعو کیا۔ اپنے من پسند اخبار نویسوں، تجزیہ کاروں ، اینکروں اور سوشل میڈیاورکرز میں وہ بے حد خوش رہتے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی یہی وطیرہ ہے ۔ انھوں نے دورانِ صدارت وائیٹ ہاؤس میں مدعو امریکی میڈیا کے نامور مگر اپنے مخالف صحافیوں کی متعدد بار توہین و تحقیر کی ۔اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں ۔ کوئی صحافی مشکل یا ناپسندیدہ سوال ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھ لے تو وہ پکّا سا منہ بنا کر کہہ ڈالتے ہیں:’’ تمہیں یہاں کس نے بلایا تھا۔‘‘ یا مخالف صحافی کے لیے اُن کا مشہور فقرہ یوں ہوتا ہے : ’’تمہارے اِنہی سوالات کے کارن تمہاری اور تمہارے اخبار (یا ٹی وی) کی ریٹنگ ڈاؤن جا رہی ہے۔‘‘ ناپسندیدہ صحافیوں کی تذلیل و تخفیف کرتے ہُوئے ڈونلڈ ٹرمپ خاتون یا مرد صحافی میں تمیز و امتیاز بھی کم کم ہی کرتے ہیں ۔
ہمارے خان صاحب کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بھی زبان سے کسی غیر واقعی بات کے سرزد ہونے پر معذرت کرنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں ۔ دونوں صاحبان یکساں طور پر اپنی کہی بات پر ڈٹ اور اَڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ ہمارے طرحدار شاعر، جناب ظفر اقبال ، کے ایک شعر کی عملی تصویر بن جاتے ہیں:’’جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اِس پر ظفر/ آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے‘‘ ۔ صدارتی انتخابی مہمات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیا جھوٹ تو بول دیا مگر اِس کی انھیں بھاری سیاسی و انتخابی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔
امریکا میں لاتعداد ایسے ووٹرز ہیں جو غزہ، لبنان اور فلسطین کے بقیہ علاقوں میں اسرائیل کے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آوازیں بلند کررہے ہیں ۔ ٹرمپ صاحب غزہ اور فلسطین کے مخالف ہونے کے باوجود اپنے اِن امریکی ووٹروں کی آوازوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ؛ چنانچہ انھوں نے غزہ ، اہلِ غزہ ، غزہ کی سرزمین، غزہ کی فضاؤں اور غزہ کے سمندر بارے نیا جھوٹ بولا ہے ۔
اکتوبر2024کے دوسرے ہفتے ایک معروف امریکی ریڈیو کے میزبان (Hugh Hewitt) نے ڈونلڈ ٹرمپ سے انٹرویو کرتے ہُوئے جب یہ پوچھا کہ ’’غزہ ، جسے اسرائیل نے پچھلے ایک سال کے دوران شدید بمباری سے تباہ کر ڈالا ہے ، کی تعمیرِ نَو کی جائے تو کیا یہ ایک نیا’’ مناکو‘‘ بن سکتا ہے ؟۔‘‘(Monaco، بحیرۂ روم کنارے واقع ایک نہائت چھوٹا سا ملک مگر نہائت امیر ، سیاحوں کی جنت سمجھا جاتا ہے ۔
آبادی صرف 40ہزار نفوس پر مشتمل )جواب میں ٹرمپ نے کہا: ’’جی ہاں ۔ میں خود غزہ جا چکا ہُوں ۔ غزہ مشرقِ وسطیٰ کے ایک بہترین مقام پر واقع ہے۔ یہاں بہترین پانی میسر ہے ۔ اِسے ایک شاندار سمندر لگتا ہے۔ یہاں کی ہوائیں اور فضائیں دلکش ہیں ۔ افسوس انھوں (اہلِ غزہ اور فلسطینی عوام ) نے اِس کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی ۔ اگر اِس کی مناسب تعمیرِ نَو کی جائے تویہ Monaco سے زیادہ شاندار ثابت ہو سکتا ہے ۔ ایک عالمی شہرت یافتہ ڈویلپر کی حیثیت میں بھی مَیں یہ بات کہہ رہا ہُوں ۔‘‘
اور جب امریکی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے ٹرمپ کی گوشمالی کرتے ہُوئے پوچھا:جناب ،جھوٹ نہ بولیں ۔ یہ بتائیں کہ آپ کب اور کس سن میں غزہ گئے تھے ؟ تو ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی ترجمان نے صرف ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کو جواب دیتے ہُوئے کہا کہ ’’غزہ ، اسرائیل میں واقع ہے ۔ ٹرمپ غزہ گئے تھے ۔‘‘ ٹرمپ کے ترجمان نے ایک بار پھر جھوٹ بولا ۔ غزہ کبھی اسرائیل میں شامل نہیں رہا ۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ نے بطورِ صدرِ امریکا 2017میں اسرائیل کا دَورہ کیا تھا۔ وہیں سے انھوں نے فلسطینی علاقے، مغربی کنارے (West Bank) کا دَورہ بھی کیا تھا اور مغربی کنارے کے صدر ، محمود عباس، سے بھی ملے تھے ۔
اِس پس منظر میں ٹرمپ کے ترجمان نے چار دن گزرنے کے بعد امریکی ٹی وی CBSکو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا: ’’بات تو وہی ہوگئی ناں۔ مغربی کنارہ اسرائیل کا حصہ ہے ۔ مغربی کنارے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ نے غزہ کا دَورہ بھی کیا۔‘‘ ٹرمپ نے تو جھوٹ بولا ہی تھا، اسے سچ ثابت کرنے کے لیے اُن کے ترجمان اُن سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ۔
افسوس تو یہ ہے کہ CBSکے میزبان نے بھی انھیں نہیں ٹوکا۔ اِس کے برعکس امریکی اخبار ’’نیویارک پوسٹ‘‘ نے اداریہ لکھتے ہُوئے کہا: ’’ غزہ بارے ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے ترجمان دانستہ جھوٹ بول رہے ہیں یا انھیں غزہ ، مغربی کنارے اور اسرائیل کے جغرافئے بارے کچھ علم نہیں ؟ غزہ اور مغربی کنارہ دو جدا جدا تشخص ہیں ۔ مغربی کنارے سے غزہ پہنچنے کے لیے بھی اسرائیلی (زیر قبضہ) علاقے سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اور مغربی کنارے کا ہر باسی آزادانہ طور پر ، ہر وقت غزہ جا بھی نہیں سکتا ۔‘‘
مگر اِن تصحیات کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے ترجمانوں نے جھوٹ ماننے سے انکار کر دیا ۔ گویا شاعر ظفر اقبال کے بقول ، انھوں نے ’’صاحبِ کردار‘‘ ہونے کا عملی مظاہرہ کیا ہے ۔ غزہ بارے یہ دانستہ جھوٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے اکیلے نہیں بولا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ، ہیلری کلنٹن ، نے بھی گزشتہ روز جرمنی کی ایک کانفرنس میں یہ جھوٹ بولا کہ’’ غزہ میں اتنی زیادہ ہلاکتیں اور شہادتیں نہیں ہُوئی ہیں جتنا ’’پروپیگنڈہ‘‘ کیا جارہا ہے۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے جھوٹوں پر تو مگر ایک دُنیا ہنس رہی ہے ۔
مثال کے طور پر ٹرمپ اور کملاہیرس نے گزشتہ روز ایک امریکی نجی ٹی وی کو ساٹھ ساٹھ منٹ کا انٹرویو دیا۔ اِس پر ممتاز امریکی جریدے،نیویارک پوسٹ،نے لکھا:’’ ساٹھ منٹ میں ٹرمپ نے 64مرتبہ جھوٹ بولے اور کملا ہیرس نے چار مرتبہ۔‘‘ امریکی صدارت کے یہ دونوں اُمیدوار غزہ ، فلسطین اور لبنان بارے مسلسل جھوٹ بول کر اسرائیل نوازی کررہے ہیں کہ دونوں ہی اسرائیل و عالمی صہیونیت کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔دونوں ہی اِس بات سے انکاری ہیں کہ اسرائیل غزہ میں43ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے ۔ عرب نژاد امریکی مسلمان شش و پنج میں ہیں کہ دونوں میں سے کسے ووٹ دیں؟