ہالینڈمغربی دنیا کا حد درجہ خوبصورت ملک ہے۔ ایمسٹرڈیم اس کا دارالحکومت ہے جسے دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ اس امیر ملک میں ایک معمولی سا ایمبولینس ڈرائیور ہے۔جس کا نام Kees Veldboer ہے۔ عام سے ایمبولینس ڈرائیور کی کیا حیثیت ہو گی۔ اس پر بحث کرنی قطعاً مقصد نہیں ہے ۔
اصل نقطہ یہ ہے کہ کییس نے ایک ایسا اچھوتا کام کیا جس سے دنیا میں ایک سماجی اور فکری انقلاب آ گیا ۔ کییس ‘ بیمار ترین افراد کو ‘ اسپتال کی ایمبولینس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا تھا ۔ دیکھا جائے تو پوری دنیا میں کروڑوں ایمبولینس ڈرائیور صبح شام یہی کام کرتے ہیں۔اس میں کوئی بھی خاص بات نہیں ہے۔ نومبر 2006 میں ایک حد درجہ بیمار مریض ‘ Mario Stefanutto کو معمول کے مطابق ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں منتقل کر رہا تھا۔
مریض اسٹریچر پر تھا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ بس یہ چند دنوں کا مہمان ہے ۔ کییس جب ماریو کو لے کر نئے اسپتال پہنچا تو انتظامیہ نے بتایا کہ انھیں تین گھنٹے چاہئیں تاکہ مریض کے لیے تمام انتظام کر سکیں۔ کییس کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے ۔ ماریو سے پوچھا کہ ہمارے پاس تین گھنٹے ہیں۔ بتایئے‘ ہمیں اس میں کیا کرنا چاہیے۔ ماریو بنیادی طور پر ایک ملاح تھا اور اسٹریچر سے اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ بلکہ اسے اسٹریچر پر باندھ دیا گیا تھا تاکہ دوران سفر گر کر زخمی نہ ہو جائے ۔ ماریو نے کہا کہ وہ Rotterdam Harbour جا کر نیلے پانی کو دیکھنا چاہتا ہے ۔ کییس کے پاس چند گھنٹے تھے ۔
ایمبولینس کو لے کر بندرگاہ تک چلا گیا اور اسٹریچر پر لیٹے ماریو کو پانی دکھانے لگا۔ مریض طویل عرصے سے بستر پر پڑا ہوا تھا ۔ پانی دیکھا اور اس کی لہروں کی آواز سنی تو زارو قطار رونے لگ گیا ۔ کییس کے دل میں ایک حد درجہ محترم نیک خیال آیا۔ ماریو سے پوچھا کہ کیا آپ کی کوئی خواہش ہے ۔ جواب ملا کہ راہ عدم پر قدم رکھنے سے پہلے ایک کشتی میں سمندر کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔ بات ختم ہو گئی ۔ ڈرائیور ایمبولینس لے کے نئے اسپتال چلا گیا اور معمول کے مطابق ماریو کو منتقل کر دیا گیا ۔ آفس جا کر کییس نے ایمبولینس کے مالک سے بات کی اور کہا کہ اسے اتوار والے دن ایمبولینس کی ضرورت ہے۔
مالک نے لمحہ بھر سوچا اور اجازت دے دی۔ اسی دورانیہ میں کییس نے ایک کشتی والے سے بھی بات کر لی کہ وہ ایک نازک حالت میں مریض کو کشتی کی سیر کروانا چاہتا ہے۔ کشتی کے مالک نے کہا کہ اس کام کے کوئی پیسے نہیں لے گا اور کییس مریض کو لا سکتا ہے ۔ کییس کی بیوی ایک نرس تھی ۔ اتوار والے دن کییس اور اس کی بیوی ایمبولینس میں بیٹھے اور ماریوکے اسپتال چلے گئے۔مریض کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک اجنبی شخص اس کی آخری خواہش پوری کر دے گا ۔
دونوں نے ‘ مریض کو ایمبولینس میں لٹایا اور اسے بندرگاہ لے گئے۔ وہاں کشتی والا ان کا منتظر تھا ۔ا سٹریچر کو کشتی میں منتقل کیا گیا اور ماریوکے اردگرد کمبل باندھ دیا گیا تاکہ ٹھنڈ سے اسے کوئی مسئلہ نہ ہو ۔ ماریو نے بڑے اطمینان سے تیس پینتیس منٹ کشتی میں سمندر کی سیر کی اور فرط مسرت سے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ کییس نے بڑے اطمینان سے اسے اسپتال چھوڑا ۔ ٹھیک دو ہفتے بعد ماریو اس دنیا سے چلا گیا۔ مرنے سے پہلے کییس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک خط لکھا جس میں اپنی آخری خواہش پوری کرنے پر کییس کی حددرجہ تعریف کی۔
اب کییس اور اس کی بیوی نے ایک اچھوتے خیال پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اپنے گھر کی معمولی سی ٹیبل پر دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب المرگ مریضوں کی آخری خواہش اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں گے۔ یہ Stichting Aambulance Wens کی ابتداء تھی ۔ ہوتا یہ تھا کہ کییس اور اس کی بیوی ایمبولینس میں نازک حالت کے مریضوں کو ان تمام جگہوں پر لے کر جاتے تھے جو ان کی آخری خواہش ہوتی تھی۔ چھوٹی سی ٹیبل پر شروع ہونے والا یہ نیک کام آج ایک بہت بڑے خیراتی ادارے کی شکل لے چکا ہے۔ اس میں 230 رضا کار ‘ چھ ایمبولینسیں اور ایک اولڈ ہوم کا اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ ادارہ اب تک بارہ ہزار لوگوں کی آخری خواہشات کو پوری کر چکا ہے ۔ ان کا سب سے کم عمر مریض محض دس ماہ کا تھا۔ وہ اسپتال سے کبھی اپنے گھر نہیں گیا تھا۔ ننے بچے کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا تھوڑے وقت کے لیے اپنے گھر آئے اور ان کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر وقت گزارے ۔ یہی ہوا۔ کییس مکمل حفاظت سے بچے کو لے کر ماں باپ کے گھر گیا۔ حد درجہ احتیاط سے بچے کو کرسی پر لٹایا اور آدھے گھنٹے کے بعد واپس اسپتال لے گیا۔
بچہ اپنے ماں باپ کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہو گیا ۔ ماں باپ اور اردگرد کے رشتے دار بچے کی خوشی دیکھ کر حد درجہ جذباتی ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو سیلاب کی طرح رواں ہو گئے۔اس خوبصورت لمحے کے بعدبچہ صرف ایک ماہ زندہ رہ سکا ۔ کییس کا سب سے عمر رسیدہ مریض 101 سال کی ایک بوڑھی خاتون تھی جسے فالج ہو چکاتھا ۔ بتایا کہ وہ گھوڑے کی سیر کرنا چاہتی ہے۔ یہ اس کی آخری خواہش تھی۔ کییس اور اس کا عملہ اس بوڑھی خاتون کو ایک مخصوص جگہ پر لے گیا جہاں اسے گھوڑے پر بٹھایا گیا۔ سہارا دینے کے لیے اردگرد لوگ موجود تھے۔
بزرگ خاتون نے دس منٹ تک آہستہ آہستہ گھوڑے کی سواری کی اور اردگرد کے لوگوں کو دیکھ کر ملکہ کی طرح ہاتھ ہلانا شروع کر دیا۔آج‘ یہ ادارہ ہالینڈ میں حد درجہ کامیاب ہے ۔ وہ مریض کو لے جانے سے پہلے ایمبو لینس میں ہر طرح کا طبی سامان رکھتے ہیں ۔ مقامی پولیس اور رضا کاروں کو آگاہ کرتے ہیں اور بڑی کامیابی سے لوگوں کی آخری خواہش پوری کرتے ہیں۔ایک دن میں ‘ تین سے چار مریض کییس کے ساتھ اپنے مزاج کے حساب سے ‘ زندگی کے آخری لمحات حددرجہ خوشی سے گزارتے ہیں ۔
کییس اور اس کی بیوی کے عزم کی یہ سچی داستان انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کسی بھی قریب المرگ انسان کی آخری خواہش کو پورا کرنا ‘ نیکی کا وہ عظیم تحفہ ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے ۔ بحیثیت ڈاکٹر ان گنت لوگوں کو راہ عدم پر قدم رکھتے دیکھا ہے ۔ آخر ی لمحے تک مرتے ہوئے انسان کی آنکھوں میں مزید زندہ رہنے کی حسرت موجود ہوتی ہے لیکن اسے بذات خود اس تلخ حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ یہ اس کا آخری سفر ہے ۔ہمارے اردگرد ہر گھر میں بوڑھے لوگ موجود ہیں ۔ یہ بزرگ لوگ ‘ خوشی سے مکمل مبرا ہوتے ہیں ۔ زندگی کے اس سفر میں وہ صرف موت کا انتظار کرتے ہیں۔ان بوڑھے لوگوں کی اکثریت ‘ اپنے اہل خانہ کی عدم توجہ کا شکار ہوتی ہے ۔
ان کی اپنی اولاد دعا کرتی نظر آتی ہے خدا ہمارے بزرگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ مطلب کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف واپس بلا لے جس سے وہ اپنی جسمانی تکالیف سے آزادی حاصل کر لیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ عمر کے ایک حصے میں ‘ انسان کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جسمانی بیماریاں اسے گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔ان کی آخری امید موت ہوتی ہے ۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ عزیزواقارب اور اولاد ‘ ان سسکتے ہوئے بوڑھوں پر توجہ دیں اور پوچھے ‘ کہ بتائیے ہم آپ کو کیسے خوش رکھ سکتے ہیں۔ ایک مرد یا عورت جو سالہا سال سے فالج جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو ۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس کی کمر پر زخم بن چکے ہوں ۔ کیا اس کی فطری خواہش یہ نہیں ہو گی کہ اسے ویل چیئر پر ایک خوبصورت باغ میں لیجایا جائے۔
جہاں وہ رنگ برنگے پھول ‘ سبز پودے ‘ قالین کی طرح بچھی ہوئی گھاس اور اڑتے ہوئے پرندے دیکھ سکے؟ کیا اس کی یہ خواہش نہیں ہو گی کہ مرنے سے پہلے ‘ اس کے آبائی گھر کی سیر کروائی جائے جہاں کے درو دیوار اس کے بچپن اور جوانی کے راز دان ہوں ؟ کیا اس بزرگ عورت یا مرد کی یہ خواہش نہیں ہوگی کہ اسے کسی دریا کے سامنے وقت گزارنے کی مہلت دی جائے جہاں پانی کا شور اور لہروں کی مدوجزر ان کے ذہن میں طلاطم برپا کر دے؟ یہ بالکل عام سے ذہنی خیالات ہیں۔ مگر مجھے جواب دیجیے کہ کیا ننانوے فیصد لوگ اپنے بزرگوں کے لیے یہ غیر اہم سا نظر آنے والا اہم ترین کام کرتے ہیں؟ جواب مکمل نفی میں ہے ۔
میں لاہور میں رہتا ہوں اور اس کام کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ بزرگ لوگوں کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتا ہوں ۔ مجھے کسی مالی مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھے صرف رضا کار چاہئیں جو اپنا فرصت کا تھوڑا سا وقت اس کام کے لیے مختص کر سکیں۔ آئیے مل جل کر ‘ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ‘ قریب المرگ لوگوں کے چہروں پر آخری مسکراہٹ بکھیریں ۔ شاید ہماری زندگی کی یہ سب سے بڑی کامیابی بن جائے!