پاکستان خصوصاً لاہورمیں سموگ اس وقت آفت کی صورت اختیار کر چکا ہے جس نے شہریوں کی صحت کے لیے خطرات پید ا کر دیے ہیں۔
اس مسئلے کے تدارک کے لیے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے اور ماہرین کی رائے جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’سموگ اور اس کا حل‘‘کے موضوع پرخصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سینئر صوبائی وزیر پنجاب مریم اورنگزیب، سیکرٹری محکمہ تحفظ ماحولیات راجہ جہانگیر انور، ڈی جی ڈاکٹر عمران حامد شیخ اور نمائندہ سول سوسائٹی مبارک علی سرور نے شرکت کی۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مریم اورنگزیب
(سینئر صوبائی وزیر پنجاب)
سموگ کو آفت قرار دیا گیا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں شارٹ، مڈ اور لانگ ٹرم اقدامات شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے منصب سنبھالتے ہی ماحولیاتی مسائل سمیت تمام بڑے چھوٹے مسائل کو دور کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے کا عزم کیا اور سموگ جیسی آفت کے خاتمے کیلئے مجھے ذمہ داری سونپی گئی۔ ہم نے مارچ کے پہلے ہفتے میں سموگ کے حوالے سے میٹنگ بلائی تو کہا گیا کہ یہ تو سردیوں کا مسئلہ ہے۔
اس پر ابھی بات کیوں؟ آلودہ فضاء تو سال بھر کا مسئلہ ہے، سال کے 365میں سے 275 دن لاہوری آلودہ فضاء میں سانس لیتے ہیں، اس پر تو سال بھر کام ہونا چاہیے۔ ہم نے مارچ سے اس پر کام کا آغاز کیا، پہلے مرحلے میں حکومتی اداروں میں اس کی آگاہی دی گئی۔سموگ کا خاتمہ کسی ایک محکمے کا کام نہیں، یہ کثیر الجہتی ہے جس میں آبادی، ٹرانسپورٹ، زراعت، تعلیم، صحت، صنعت، کمیونی کیشن اینڈ ورکس سمیت دیگر شامل ہیں۔ ہمیں اس بات پر فخر اور اطمینان ہے کہ پنجاب نے سموگ کے خاتمے کے معاملے میں لیڈ لی ہے۔ آج سے پہلے صرف سموگ مینجمنٹ ہوتی تھی جبکہ ہم نے وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سموگ مٹی گیشن پلان بنایا ۔ اس میں تمام محکموں کو مکمل پلان بنا کر دیا ہے کہ انہوںنے کیا کرنا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج سے پہلے سموگ کے حوالے سے کبھی بجٹ نہیں رکھا گیا۔ اس کی مینجمنٹ کے اخراجات ادا کیے جاتے تھے لیکن ہم نے پہلی مرتبہ سموگ کیلئے 10 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ ماحولیاتی مسائل کیلئے 100 ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے۔اس بجٹ سے سموگ سمیت دیگر ماحولیاتی مسائل کے تدارک میں مدد ملے گی۔ بدقسمتی سے ہمارے غلط رویوں نے سموگ کے حوالے سے لاہور کو دنیا بھر میں پہلے نمبر پر پہنچادیا ہے جو افسوسناک ہے۔ لاہور کے درجہ حرارت میں 29 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جبکہ بارشوں کے حوالے سے بھی تبدیلی آئی ہے۔ ہم نے سب اپنے ہاتھوں سے خراب کر دیا۔ فصلوں کی باقیات خصوصاََ منجی جلانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سموگ میں اس کا حصہ 10 سے 15 فیصد ہے۔
اس مسئلے کے حل کیلئے وزیراعلیٰ مریم نواز نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسانوں کیلئے سپر سیڈر پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک ہزار سپر سیڈر دیے جارہے ہیں۔ ایک سپر سیڈر کی قیمت 13 لاکھ روپے ہے، اس میں 5 لاکھ کاشتکار جبکہ 8 لاکھ روپے حکومت ادا کر رہی ہے۔ اس طرح زراعت میں جدت کے ذریعے ماحولیاتی مسائل دور اور کسانوں کیلئے آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ اس منصوبے سے سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم تھرمل ڈرون کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ کر رہے ہیں اور جہاں کہیں آلودگی پھیلائی جا رہی ہے،و ہاں کارروائی کی جاتی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سموگ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، ان سے لے کر نیچے ٹیم تک، سب سموگ کے تدارک کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت مارچ سے سموگ سے نمٹنے کی تیاری کررہی ہے۔ ہم نے ماضی کی طرح مکمل لاک ڈاؤن اور سکول بند نہیں کیے بلکہ گرین لاک ڈاؤن لگاکر ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہاٹ سپاٹ علاقوں میں تعمیراتی کاموں پر مکمل پابندی ہے۔ ان علاقوں میں کمرشل جنریٹرز نہیں چلائے جائیں گے، موٹر سائیکل رکشوں کا داخلہ منع ہے، اس کے ساتھ ساتھ رات آٹھ بجے کے بعد اوپن باربی کیو پر پابندی ہے۔ دھواں چھوڑتی گاڑیاں، بھٹے اورفیکٹریاں سموگ کا سبب ہیں۔
لاہور میں 13 لاکھ کاریں ،بسیں اور ویگنیں جبکہ 45 لاکھ موٹر بائیکس ہیں، یہ فضاء کو آلودہ کر رہی ہیں۔ ماحولیاتی مسائل کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت ای ٹرانسپورٹ پر جا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے مارچ میں طلبہ کو الیکٹرک بائیکس دینے کا آغاز کیا۔ اب الیکٹرک بسیں بھی لائی جا رہی ہیں تاکہ ماحول کو آلودگی سے پاک کیا جائے۔ پہلی مرتبہ گاڑیوں کی فٹنس چیکنگ اور سرٹفکیٹ کے اجراء کیلئے نجی ورک شاپس کو لائسنس دینے جا رہے ہیں۔ اس سے گاڑیوں کی فٹنس چیکنگ میںشہریوں کو سہولت ملے گی۔ ہر گاڑی پر کیو آر کوڈ لگے گا، سیف سٹی کیمروں سے گاڑیوں کی مانیٹرنگ کی جائے، کیو آرکوڈ سے گاڑی کی تفصیلات سامنے آئیں گی، دھواں چھوڑے والی بائیکس اور گاڑیاں 3 چالان کے بعد بند کر دی جائیں گی۔
ہم انڈسٹری کو سموگ فری کرنے کیلئے انوائرمینٹل کنٹرول سسٹم لا رہے ہیں جس سے آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ پنجاب میں 11 ہزار بھٹے ہیں۔ صوبے میں فضائی آلودگی پیدا کرنے والے 5 ہزار سے زائد جبکہ لاہور میں 230 سے زائد بھٹے مسمار کر دیے ہیں۔ اس ضمن میں کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جا رہا، جرم کرنے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری ہے۔میرے نزدیک سموگ پر سیاست جرم ہے۔ یہ ہمارے بچوں، بڑوں اور آنے والی نسلوں کی بقاء کا مسئلہ ہے لہٰذا سموگ کے بارے میں بچوں کو آگاہی دینے کیلئے اسے نصاب میں شامل کر نے جا رہے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ میں ہسپتالوں میں سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے 36 فیصد مریض آئے ہیں، گرین پنجاب ایپ پر ایئر کوالٹی و دیگر انفارمیشن دستیاب ہے، ماحولیاتی آلودگی کے خلاف شہری ہیلپ لائن نمبر1371 پر شکایت کریں۔ اگر ہم نے سموگ کا تدارک کرنا ہے تو اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔
مصنوعی بارش کیلئے ہم نے مقامی سطح پر ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے، ضرورت پڑنے پر مصنوعی بارش کی جائے گی۔ سموگ اور فضائی آلودگی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ مشرقی کوریڈورکی ہواؤں کی وجہ سے پاکستان اس سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ بھارت سے ہوا کے ذریعے یہاں آلودگی آرہی ہے۔ ایسے حالات میں ’’کلائمیٹ ڈپلومیسی‘‘ وقت کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس کا آغاز کر دیا ہے۔
ہم وزارت خارجہ کے ذریعے بھارت سے کلائمیٹ ایشو پر ڈائیلاگ کرنے جا رہے ہیں، آئندہ 2 سے 3 ماہ میں ماحول پر کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں دونوں پنجاب کے وزرائے اعلیٰ اور خطے کے دیگر ممالک شرکت کرسکتے ہیں ۔اس کانفرنس میں آئندہ سال کے لیے منصوبہ بندی کی جائے گی اور سموگ سے نمٹنے کا لائحہ عمل بنایا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ول کی ضرورت ہے جو موجودہ حکومت کے پاس ہے۔ ہم نے پلاسٹک بیگز پر پابندی لگائی اور خلاف ورزی کرنے پر وکانداروں کو جرمانے کئے گئے۔ ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کے حوالے سے آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے،ا س حوالے سے میڈیا خصوصاََ ایکسپریس میڈیا گروپ کا شکریہ جس نے ہمیں تشہیری مہم میں سپورٹ کیا ہے۔
مبارک علی سرور
(سی ای او آگاہی)
پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ۔ اس وقت نصف پاکستان سموگ سے متاثر ہے بالخصوص ہمارے ایسے اضلاع جو گنجان آباد ہیں۔ ان میں لاہور، گوجرانولہ، فیصل آباد اور ملتان سمیت دیگر بڑے اضلاع شامل ہیں۔ ہمارے ہاں سموگ ایک دہائی پرانا چیلنج ہے جو ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے دنیا بھر میں لاہور آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر ہے۔لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے مسائل ہوشربا حد تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا محرک ہے۔ زیادہ آبادی ہونے کی وجہ سے لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک بھی زیادہ ہے جس کے باعث شہر کی فضاء آلودہ ہو چکی ہے۔ دھواں چھوڑتی یہ گاڑیاں،انسانی زندگی پر برے اثرات چھوڑ رہی ہیں۔ اگرچہ گاڑیوں کی انسپکشن کے حوالے سے قانون موجود ہے مگر اس پر عملدارآمد میں سقم ہے ، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ بدقسمتی سے سموگ آفت کی شکل اختیار کر چکی ہے، اس حوالے سے الرٹ موجود ہے۔
ہمارے بچے اور بوڑھے، جن کی وقت مدافعت کم ہوتی ہے، وہ اس کی زد میں ہیں۔ سموگ کی آفت کی وجہ سے شہریوں میں سانس کی تکالیف اور جلدی امراض بڑھ رہے ہیں، ہسپتالوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو باعث تشویش ہے کہ حکومت پنجاب نے سب سے پہلے سموگ مٹیگیشن پلان بنایا ہے جس سے یقینا سموگ پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ پنجاب حکومت نے کلائمیٹ چینج پالیسی میں بھی لیڈ لی، سب سے پہلے یہ پالیسی بنائی جس پر سول سوسائٹی اور دیگر طبقات نے حکومت کو سراہا۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب بھی بہترین کام کر رہا ہے، اس میں اب کلائمیٹ چینج کو بھی شامل کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔
حکومت کی سمت درست نظر آرہی ہے، اس وقت ضروری یہ ہے کہ عوام کو ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی دی جائے تاکہ مطلوبہ نتائج مل سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹرانسپورٹ کے متبادل ذرائع لانا ہوگے۔ عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف راغب کرنا ہوگا اور پبلک ٹرانسپورٹ کو گرین کرنا ہوگا۔ ہمیں توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دینا ہوگا، ای ٹرانسپورٹ، سولرائزیشن و دیگر طریقے اپنانا ہوں گے۔ ماحولیاتی آلودگی صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ ہے لہٰذا صوبوں اور وفاق میں مثالی کووارڈینیشن کے ذریعے آگے بڑھنا ہوگا، ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے، اگر تاخیر کی تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ’’سن سی ایس اے‘‘ سول سوسائٹی کے 300 سے زائد اداروں کا الائنس ہے اور اس میں 40 عالمی ادارے بھی شامل ہیں۔
میں اس الائنس کا چیئرپرسن ہوں جو پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے زیر سایہ کام کرتا ہے۔ چاروں صوبوں میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اسے لیڈ کرتا ہے۔ میرے نزدیک سموگ اور ماحول کے مسئلے پر اس وقت سٹریٹیجک پارٹنر شپ کی ضرورت ہے لہٰذا سول سوسائٹی، اکیڈیمیا، میڈیا سمیت معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ سموگ کی آگاہی کیلئے تعلیمی اداروں میں خصوصی سیمینارز منعقدہ کیے جائیں تاکہ نوجوان نسل کو آگاہی دی جاسکے۔
سموگ کسی ایک موسم کا نہیں سال بھر کا مسئلہ ہے۔ ہمیں شارٹ ٹرم اقدامات کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم پالیسی کی طرف جانا ہوگا۔ ہمیں سسٹین ایبل زراعت کی طرف بڑھناہے، زرعی باقیات کو جلانے کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ اسی طرح ماحول کو آلودہ کرنے والی فیکٹریوں کو ختم کرنا ہے، یہ وہ زہر اگل رہی ہیں جسے ہمارے بچے نگل رہے ہیں، ہمارا مستقبل خطرے میں ہے، اسے محفوظ بنانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پلاسٹک بیگز کے حوالے سے قانون موجود ہے مگراس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ حکومت کے ساتھ ساتھ یہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لائے، ماحول کو آلودہ کرنے والی اشیاء کی حوصلہ شکنی کرے۔