کراچی:
سندھ ہائیکورٹ نے مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب کے براہ راست انتخاب کیخلاف امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن و دیگر کی درخواستیں مسترد کردیں۔ عدالت عالیہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ وجوہات بعد میں جاری کریں گے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب کے براہ راست انتخاب کیخلاف درخواستواں پر سماعت ہوئی، جس میں درخواستگزار کے وکیل طارق منصور ایڈووکیٹ نے جوابی دلائل دیے۔
طارق منصور ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فریق وکلا نے جو دلائل دیے تھے ٹائم لائن کے حوالے سے وہ سال 2022 سے شروع ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جوابی دلائل میں جو آپ ریفرنس دے رہے ہیں وہ آپ کے حق میں نہیں جاتے۔ مئیر کے الیکشن کے لیے پہلے پول بنایا گیا اس کے بعد الیکشن کروائے گئے ہیں۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ سندھ میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن 2 حصوں میں کروائے گئے ہیں۔ الیکشن منعقد کرنے کے لیے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں ترمیم بھی کی گئی تھی۔ ایک سال تک پولنگ ڈے آگے بڑھتا رہا ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے سامنے الیکشن منعقد کروانے کے حوالے سے درخواست آتی ہے جس پر آرڈر ہوتا ہے۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ 3 ماہ کے اندر اندر انتخابات کروائے جائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس الیکشن کی آپ بات کررہے ہیں اس کا مئیر کے انتخاب سے تعلق نہیں بنتا۔ آپ کا جو مطلب سمجھ آرہا ہے وہ یہ ہے کہ کیونکہ الیکشن کا پروسیس 2020 میں شروع ہوا تو ترمیم کا اس پر اثر نہیں ہونا چاہیے۔
طارق منصور ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ مئیر اور ڈپٹی مئیر کے انتخاب کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ الیکٹڈ ممبرز میں سے انتخاب کیا جائے۔ چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان الیکٹڈ ممبرز میں وہ ممبرز شامل ہوتے ہیں جو الیکٹ ہوکر نہیں آتے جس میں مائینارٹیز اور دیگر ہیں۔ جب کسی مخصوص نشستوں والے ممبرز میں سے کسی کو مئیر بنایا جاسکتا ہے تو نان الیکٹڈ شخص کو کیوں مئیر نہیں بنایا جاسکتا۔ آپ کے دلائل اس جگہ پر دم توڑ جاتے ہیں کیونکہ ایک نان الیکٹڈ ممبر بھی مئیر یا ڈپٹی مئیر بن سکتا ہے۔ ہمیں فلسفہ نہ پڑھائیں بلکہ یہ سمجھائیں کہ اس ترمیم کے آنے کے بعد اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاسکتا۔
طارق منصور ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ اس حوالے سے ججمنٹ موجود ہیں جس پر بتایا گیا ہے کہ ترمیم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جب الیکشن کی تاریخ اناؤنس ہو جاتی ہے تو بہت سی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں جیسا کہ ٹرانسفر پوسٹنگ وغیرہ وغیرہ۔ سپریم کورٹ کی ججمنٹ میں لکھا ہوا ہے کہ اگر بنیادی قانون میں تبدیلی کی جائے تو پھر عدالت اس معاملے میں مداخلت کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس ججمنٹ کی آپ بات کررہے ہیں وہ صوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے دیا گیا تھا۔ آپ اپنی مرضی کے جملے بنا کر ہمیں پڑھانا چاہ رہے ہیں۔ فیکٹس کیخلاف تو بات کی جاسکتی ہے لیکن قانون کیخلاف نہیں کی جاسکتی۔ ہم آپ کو ایک گھنٹے سے موقع دے رہے ہیں لیکن ابھی تک آپ ہمیں قائل نہیں کر پائے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن سمیت دیگر کی درخواستیں مسترد کردیں۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا ہے کہ وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔