قومی اسمبلی: فوجی سربراہان کی مدت ملازمت میں اضافے اور ججز کی تعداد بڑھانے کے بل منظور
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ اور ہائیکوٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے، آرمی، فضائیہ اور نیوی ترمیمی ایکٹ کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
ترمیمی بل میں لکھا گیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت آئینی بینچ کے دئیے گئے فیصلے کے خلاف لارجر آئینی بینچ میں 30 روز میں اپیل ہو سکے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کا اطلاق 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے لاگو ہو گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون میں 7-A اور 7-Bکی شقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، ہر کیس اپیل کو فرسٹ ان فرسٹ آؤٹ کی بنیاد پر سنا جائے گا، قانون میں نئی شق 7-Bکو بھی شامل کیا گیا ہے۔
بل میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہر مقدمے، معاملے یا اپیل کی سماعت ریکارڈ ہو گی اور باضابطہ نقل بھی تیار کی جائے گی، ریکارڈنگ اور نقول عوام کے لیے دستیاب ہوں گی، پچاس روپے فی صفحہ فیس کی رقم ادائیگی پر عدالتی کارروائی کی تصدیق شدہ کاپی عدالتی کارروائی کے لیے استعمال ہو سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سروسز چیفس کی مدت ملازمت اور ججز کی تعداد بڑھانے کا بل سینیٹ سے بھی مںظور
ترمیمی بل میں لکھا گیا ہے کہ آرٹیکل191-Aکے تحت ہر کیس ،اپیل اور نظر ثانی درخواست تین رکنی کمیٹی طے کرے گی، کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان ،سینئر جج سپریم کورٹ کے علاوہ آئینی بینچ کے سینئر ترین جج شامل ہوں گے، آئینی بینچزکے جج نامزدگی نہیں ہونے کی صورت میں کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج پر مشتمل ہو گی۔
بل میں لکھا گیا ہے کہ اگر چیف جسٹس آف پاکستان یا سپریم کورٹ کا سینئرترین جج آئینی بینچز کے لیے نامزد ہو جائیں توآئینی بینچز کے اگلے سینئر جج کمیٹی کے ممبر ہوں گے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کا مسودہ
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کے مطابق آئینی بنچز کی تشکیل سے متعلق کمیٹی میں آئینی بنچ کا رکن شامل ہوگا، اگر کوئی ممبر کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کرے گا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے کسی جج یا آئینی بینچز کے کسی ممبر کو کمیٹی میں بطور رکن شامل کر سکتے ہیں۔
ترمیمی بل میں لکھا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیٹی تین ممبران پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس ،سنیئر جج اور آئینی بنچ کا رکن جج کمیٹی کا ممبر ہوگا۔