نئے زمانے کے ڈھنگ بھی ساتھ رکھیے مگر...!

روایات سے جڑی عادات سے انصاف کرتے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں


شاہدہ خان November 05, 2024
روایات سے جڑی عادات سے انصاف کرتے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ فوٹو : فائل

زمانہ تو بدلتا ہی رہتا ہے۔۔۔ ’ثبات ایک تغیر زمانے کو ہے!‘ آج جو زمانہ ہے، وہ کل نہیں تھا اور جو آج ہے، وہ بھی کل نہیں ہوگا، وقت اپنے رنگ ڈھنگ اور طور طریقوں کو تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ہماری مائیں لڑکیوں کو امور خانہ داری سے لازماً روشناس کراتی تھیں، انھیں گھرداری، سینا پرونا، کھانا پکانا اور صفائی ستھرائی میں ماہر کر دیا کرتی تھیں۔

یہی نہیں اس دور کی لڑکیاں اپنے گھریلو فرائض خوش اسلوبی سے پورے کرتیں اور پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھتیں، بلکہ کچھ لڑکیاں اپنے شوق سے بہت سے ہنر اور مختلف چیزیں بنانا بھی سیکھ لیتی تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر مشاغل میں ملنا جلنا، بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا، کتابیں اور رسائل پڑھنا یا محدود پیمانے پر ریڈیو یا ٹی وی سے شغل کرنا بھی شامل تھا، پھر وقت نے کروٹ لی اور رفتہ رفتہ یہ سب چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوئیں۔

نئے دور کا آغاز ہوا، اور کچھ والدین نے بھی لڑکیوں کو گھریلو ذمے داریوں سے دور کرنا شروع کر دیا۔ مشینوں کا استعمال بھی عام ہوا تو بہت سے گھروں میں آسودگی کے سبب مددگار ملازمین اور ماسیوں کو رکھے جانے کا سلسلہ بھی ہوگیا۔ دوسری طرف مختلف کام باہر سے کرانے کا رجحان بھی بڑھ گیا، یہاں تک کہ گھر میں کھانا پکانا اور کھانا بھی پرانی بات ہوگئی، اسی طرح سلائی کڑھائی اور دست کاری بھی باہر سے مستعار لی جانے لگی۔

ایسے ہی ہمارے روز وشب بھی بدلتے چلے گئے، میل جول کے ڈھنگ بھی متغیر ہوگئے، صبح وشام کے انداز بھی جداگانہ ہوگئے۔ پہلے فارغ وقت میں کیا کچھ نہ ہوتا تھا، آج تو فرصت ملتی ہی کب ہے، کیوں کہ ہم پہلے ہی اپنے کاموں کا وقت موبائل کی اسکرین کی نذر کردیتے ہیں، پہلے کی طرح تو نہیں کہ وقت نکال کر کہیں گھومنے جائیں، کتابیں پڑھیں، ملیں جلیں یا ٹی وی دیکھنے کا اہتمام۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہمیں خود کو بھی بدلنا پڑتا ہے، ورنہ زمانہ آگے چلا جاتا ہے اور ہم پیچھے رہ جاتے ہیں۔

آج موبائل فون اور انٹرنیٹ ایک اہم ضرورت بن گئے ہیں، لیکن کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ جیسے ان ضروریات کو ہم نے ضرورت سے زیادہ خود پر مسلط کر لیا ہے۔ آج ہمیں اپنے ساتھ گھر میں بیٹھے فرد کی کسی بات کا جواب دینا خاصا گراں گزرتا ہے، کیوں کہ ہم موبائل میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں، یا پھر سماجی روابط کی کسی ویب سائٹ پر تبصروں اور گفتگو میں مصروف ہوتے ہیں۔ پہلے ہم جو احساسات اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو بتاتے تھے، آج اس سے پہلے اسے فیس بک اور ٹوئٹر پر لگانا چاہتے ہیں، پھر اس پر ’’اجنبی‘‘ لوگوں کے تبصرے پڑھ کر خوش ہوتے ہیں۔

بدلتی ہوئی رُتوں کے ذریعے صرف ہمارے اردگرد لوگوں کے روابط ہی متاثر نہیں ہوئے، بلکہ اس نے ہمارے معمولات پر بھی خاصا گہرا اثر ڈالا ہے۔ ہم امور خانہ داری کی انجام دہی کے دوران بھی ان سے باز نہیں رہتے، نتیجتاً کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے کبھی ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہنڈیا چولھے پر ہے یا ہمیں ابھی سبزی بھی بنانی ہے۔ کبھی باورچی خانے میں موبائل پر پیغام لکھتے وقت دودھ چولھے پر گر جاتا ہے۔ یہاں تک کے کپڑے استری کرتے ہوئے بھی موبائل ہاتھ سے نہیں رکھا جاتا، جس کی بہت بھاری قیمت بھی چُکانی پڑتی ہے، جب کہ ماضی میں  نہ صرف یہ سارے جدید ذرایع موجود نہ تھے، بلکہ ہماری زندگیوں میں ان مشینوں کا عمل دخل نہ ہونے کی وجہ سے گھر کے کام خاصے محنت طلب ہوتے تھے۔

اب آج کے اس دور میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جدید اور باسہولت مشینوں کو چھوڑ کر پھر پرانے روایتی آلات لے آئے جائیں، البتہ یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ اپنی سماجی زندگی اور معمولات کو متاثر کرنے اور بگاڑنے  والی چیزوں سے گریز کیا جائے۔ مثلاً کیا ضروری ہے کہ ہم ہر وقت موبائل اور انٹرنیٹ سے جڑے رہیں، یہاں تک کہ رات کو چیٹ کرتے سوئیں اور صبح نیند سے اچھی طرح جاگنے سے پہلے سرہانے پڑے موبائل کو ٹٹولیں۔ اس طرح کے طرز عمل سے ہم دوسروں سے زیادہ اپنی صحت اور زندگی بھی خراب کر رہی ہوتی ہیں۔ بالخصوص شادی کے بعد جب سسرال میں لڑکی ایسا کرتی ہے تو اس کا بہت برا منایا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہاں تک کہ اس کی وجہ سے بہت سے گھر بھی اجڑ جاتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ پہلی ترجیح اپنے روزمرہ امور کو دیتے ہوئے ان چیزوں کو سختی سے محدود کر دیا جائے، تاکہ آپ اپنی گھریلو زندگی بھی بہتر گزار سکیں اور اس کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے  منسلک بھی رہیں۔ اگر آپ ایک ماں ہیں تو پھر یہ ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ بچوں کی بہتر تربیت ہمارے سارا دن ان بکھیڑوں میں الجھے رہنے کی اجازت قطعی نہیں دیتی۔ اپنی فرصت کے لمحات  میں سے کچھ وقت ضرور بالضرور ملنے جلنے اور دیگر جسمانی مشاغل میں بھی صرف کریں، ناکہ اپنے تمام شوقکمپیوٹر سے شروع  کر کے اسمارٹ فون پر ختم کر دیں۔

جدید ذرایع سے اپنی دوستوں سے رابطہ رکھیں، لیکن موقع ملے تو کبھی انھیں اپنے گھر پر بلا لیجیے یا پھر ان سے ملنے چلی جائیں۔ بہ ظاہر تو یہ معمولی سی باتیں ہیں، لیکن ان کی اہمت کا اندازہ انہیں اپنانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ یہ چیزیں دراصل ہمیں زندگی سے قریب رکھتی ہیں۔ ہمیں چاہیے مادیت پرستی کے ا س دور میں کم سے کم ہم اپنے مشاغل کو صحت مندانہ رکھنے کی کوشش کریں، یقیناً ہمارے جذبات کو احساس کی ایک نئی منزل ملے گی۔ یہ ہمارے زمانے کے ساتھ چلنے کا درست طریقہ اور ڈھب بھی ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں