شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دبئی ڈویلپ کرنا شروع کیا تو ان کے دوستوں اور شاہی فیملی نے مشورہ دیا ’’آپ عرب ممالک کے شاہی خاندانوں اور بزنس مینوں کو دبئی میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دیں‘ یہ لوگ اگر اپنی دولت کا ایک فیصد بھی دبئی میں لگا دیں گے تو یہ اسٹیٹ (ریاست) دنوں میں ڈویلپ ہو جائے گی‘‘ شیخ راشد یہ سن کر مسکرائے اور پھر بولے ’’آپ لوگ فکر نہ کریں‘ میں اس ملک میں ایک ایسا کنواں کھود رہا ہوں جس کا پانی پینے پوری دنیا کے رئیس اور بادشاہ یہاں آئیں گے‘‘ ان کا خاندان ہنس پڑا‘ ان کا خیال تھا ریت میں کیا کنواں کھودا جا سکے گا‘ شیخ کا دماغ چل گیا ہے۔
یہ اپنا تمام سرمایہ برباد کر دیں گے لیکن وقت نے شیخ کو سچا ثابت کر دیا اور پھر دبئی پر ایک ایسا وقت آگیا جب پوری دنیا کے سرمایہ کار اپنی ساری دولت کے ساتھ یہاں پہنچ گئے اور آج چار ہزار مربع کلومیٹر کی یہ چھوٹی سی سٹی اسٹیٹ دنیا کی چند امیر ترین ریاستوں میں شمار ہوتی ہے‘ آپ اگر کروڑپتی ہیں اور دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ سرمایہ کاری یا رہائش کے لیے کبھی نہ کبھی دبئی ضرور آئیں گے اور آپ اگر سرمایہ کاری نہ بھی کریں تو بھی آپ سیاحت کی شکل میں دبئی میں انویسٹمنٹ ضرور کریں گے۔
مجھے اس ہفتے کے آخری تین دن دبئی میں گزارنے کا موقع ملا‘ میں پہلے بھی دبئی کا فین تھا لیکن ان تین دنوں نے مجھے اس کا مزید فین بنا دیا‘ گوادر جتنی چھوٹی سی سٹی اسٹیٹ میں 800 ہوٹلز ہیں اور ان میں سو ہوٹل فائیو اسٹار ہیں اور دنیا کا واحد سیون اسٹار ہوٹل بھی ان میں شامل ہے‘ ان ہوٹلز میں ڈیڑھ لاکھ کمرے ہیں‘ کرائے پر دستیاب 50 ہزار فلیٹ ان کے علاوہ ہیں‘ شہر میں 96 وسیع وعریض مالز ہیں‘ ان میں دنیا کا سب سے بڑا مال بھی شامل ہے‘ 7 لاکھ چالیس ہزار مکان ہیں اور 50 ہزار زیر تعمیر ہیں‘ دنیا کا مہنگا ترین گھر بھی دبئی میں بکا‘ یہ 750 ملین درہم میں فروخت ہوا اور یہ عالمی خبر بنا‘ چھوٹے سے شہر میں 6لاکھ 52 ہزار 805 کمپنیاں ہیں اور یہ کمپنیاں 1000 ارب ڈالر کا بزنس کرتی ہیں۔
اس کی دو آبادیوں ایمریٹس ہلز اور پام جمیرہ میں دنیا کے امیر ترین اور بااثر ترین لوگ رہتے ہیں‘ شہر میں 13 ہزار ریستوران ہیں‘ دنیا میں سب سے زیادہ ریستوران پیرس میں ہیں‘ ان کی کل تعداد 17 ہزار ہے‘ یہ روزانہ10 ملین یوروز کا بزنس کرتے ہیں‘ دبئی میں ان کی تعداد 13 ہزار ہے اور یہ سات ملین ڈالر کا بزنس کرتے ہیں‘ دبئی ائیرپورٹ پر روزانہ 1200فلائیٹس اترتی ہیں‘ ان کے ذریعے روزانہ لاکھ مسافر شہر میں آتے ہیں‘ اس کی بزنس ڈسٹرکٹ (جے ایل ٹی) میںدفاتر کی 26 بلندوبالا بلڈنگز ہیں اور اس کا کل رقبہ 79 لاکھ فٹ ہے‘ اس شہر کو شاپنگ پیراڈائز بھی کہا جاتا ہے۔
حکومت نے تمام چھوٹے بڑے مالز کو میٹروز کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا ہے‘ آپ مال کے اندر سے میٹرو پر بیٹھیں اور دوسرے مال میں چلے جائیں اور دوسرے سے تیسرے مال میں اور یوں سارا دن شاپنگ کرتے رہیں‘ مالز کے اندر ہوٹلز بھی ہیں‘ لوگ ان ہوٹلز میں رہتے ہیں اور سارا دن مال میں گزار دیتے ہیں‘ تفریح کی تمام سہولتیں بھی یہاں موجود ہیں‘ ان میں گھوڑوں کی ریس سے لے کر بحری جہازوں تک اور واٹر پارک سے لے کر جواء خانوں تک اور کھیل کے میدانوں سے لے کر شراب خانوں تک ہر سرگرمی یہاں موجود ہے اور سیاح دن رات ان میں مصروف رہتے ہیں‘ پوری دنیا سے خاندان کے خاندان آتے ہیں اور مزے سے چھٹیاں گزار کر چلے جاتے ہیں‘ یہ ملک کتنا بزنس فرینڈلی ہے یہ آپ پراپرٹی لیکس کے اعدادو شمار سے لگا لیجیے‘ دبئی میں برطانیہ کے بزنس مینوں نے 10 ارب ڈالرز‘ انڈیا نے 17 ارب ڈالرز اور پاکستانی سرمایہ کاروں نے 11ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے سیاست دان‘ بیوروکریٹس‘ بزنس مینوں اور صنعت کاروں کے خاندان یہاں رہتے ہیں‘ ایمریٹس ہلز اور پام جمیرہ میں پاکستان کے تمام اہم لوگوں کے گھر ہیں‘ صدر آصف علی زرداری بھی یہاں رہتے ہیں‘ ان کی یہاں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی ہے‘ سندھ‘ پنجاب‘ بلوچستان اور کے پی حکومت کے اہم وزراء کے خاندان بھی یہاں آباد ہیں‘ روس‘ انڈیا‘ یورپ‘ برطانیہ اور امریکا کے بڑے بزنس مین اور ایکٹرز بھی دبئی میں رہتے ہیں یا ان کے گھر یہاں موجود ہیں لہٰذا شیخ محمد کی بات درست ثابت ہوگئی‘ دبئی ایک ایسا کنواں بن گیا جس کے کنارے دنیا بھر کے پیاسے پہنچ گئے۔
ہمارا سوال اب بہت سادہ اور عام فہم ہے جب دنیا بھر کے ارب پتیوں کے اپنے ملک موجود ہیں تو پھر یہ ایک چھوٹے سے صحرائی مسلمان ملک میں کیوں رہ رہے ہیں؟ آپ اگر دبئی سے ذرا سا باہر نکلیں تو آپ کو لق ودق صحرا کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا‘ موسم گرما میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اور اگر بارش ہو جائے تو آدھا ملک پانی میں ڈوب جاتا ہے لہٰذا پھر سوال یہ ہے لوگ اپنا ہرا بھرا اور شان دار ملک چھوڑ کر یہاں کیوں رہتے ہیں؟ اس کا بہت ہی سیدھا اور آسان جواب ہے‘ دبئی کے حکمرانوں نے اپنے ملک کو اتنا آسان‘ مستحکم اور بزنس فرینڈلی بنا دیا ہے کہ دنیا بھر کے ارب پتی اور بااثر لوگ اپنے ملک چھوڑ کر یہاں آباد ہو رہے ہیں۔
صدر زرداری خود کو پاکستان میں اتنا محفوظ محسوس نہیں کرتے جتنا یہ دبئی میں محسوس کرتے ہیں چناں چہ یہ پاکستان چھوڑ کر دبئی میں بیٹھ جاتے ہیں‘ پاکستانی بزنس مین بھی اپنے خاندانوں کو دبئی میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ سیف سمجھتے ہیں لہٰذا یہ خود پاکستان اور ان کے خاندان دبئی میں رہتے ہیں‘ آپ خود اندازہ کیجیے جب ملک میں کوئی احتجاج نہیں ہو گا‘ سڑکیں ہر وقت کھلی رہیں گی‘ آپ کی رقم بینک اور گھر پر محفوظ ہو گی‘ کوئی آپ کو اغواء کرے گا اور نہ لوٹے گا ‘ آپ کاروبار کر کے خواہ کھربوں روپے کما لیں حکومت آپ کو نہیں پوچھے گی‘ آپ سارا دن شراب پیتے رہیں یا مسجد میں بیٹھے رہیں کسی کو آپ سے کوئی غرض نہیں ہو گی‘ آپ عیسائی ہیں‘ یہودی ہیں‘ ہندو ہیں یا مسلمان ہیں کوئی شخص عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر آپ کو تنگ نہیں کرے گا‘ حکومت ایک دن میں ٹیکس پالیسی بدل کر آپ کو ارب پتی سے ککھ پتی نہیں بنائے گی۔
حکومت کی ٹیکس پالیسی 30 سال سے مستحکم ہو گی‘ ملک ٹیکس فری ہو گا‘ آپ کی تنخواہ اور مصنوعات پر غیر ضروری ٹیکس نہیں ہوں گے اور آپ کو دنیا جہاں کی تمام مصنوعات آسانی سے مل جائیں گی‘ آپ کو علاج بہترین ملے گا‘ تعلیم اعلیٰ ترین ہو گی اور کاروبار کے مواقع پوری دنیا سے زیادہ ہوں گے تو پھر آپ ایسے ملک میں کیوں نہیں رہیں گے اور یہ وہ کنواں تھا جو شیخ محمد بن راشد المختوم نے آج سے چالیس سال قبل کھودا تھا اور اس کی برکت سے دنیا جہاں کا سرمایہ دبئی آ گیا‘ لوگ اپنے ملک‘ بزنس اور جاگیریں چھوڑ کر یہاں آباد ہو گئے اور دبئی نے اس کام کے لیے کوئی ایس آئی ایف سی بنائی اور نہ ان کے وزیراعظم یا شیخ سرمایہ کاروں کے تعاقب میں دوسرے ملکوں میں مارے مارے پھرتے رہے‘ انھوں نے کسی برادر اسلامی ملک سے سرمایہ کاری اور بھائی چارے کی درخواست نہیں کی‘ انھوں نے ملک میں صرف سرمایہ کاری کا ماحول پیدا کیا اور دنیا جہاں کا سرمایہ پانی کی طرح ڈھلوان کی طرف بہتاہوا دبئی پہنچ گیا۔
ہمیں بھی دبئی سے سیکھنا چاہیے‘ ہم کچھ نہ کریں نہ چین سے اپیل کریں نہ سعودی عرب‘ قطر اور امریکا کے پیچھے مارے مارے پھریں ہم صرف ملک کے 5شہروں کو دبئی بنا دیں‘ ان شہروں میں امن قائم کر دیں‘ لاء اینڈ آرڈر مستقل کر دیں‘ انصاف قائم کر دیں‘ معاشی پالیسی مستحکم کر دیں اور لوگوں کو کھل کر کمانے دیں اور اس کے بعد پھر آپ کمال دیکھیں‘پاکستان کو کسی کی منت نہیں کرنی پڑے گی‘ آپ ہماری بے وقوفی دیکھیں‘ ہم پوری دنیا کو سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں لیکن ہمارے اپنے سرمایہ کار دبئی میں بیٹھے ہیں‘ ہمارے اپنے سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس اور حکمرانوں نے اپنے گھر اور اپنے بچے دبئی میں رکھے ہوئے ہیں۔
یہ حکمرانی پاکستان پر کرتے ہیں لیکن رہتے دبئی میں ہیں لہٰذا پھر ایسے ملک میں جس پر اپنے لوگوں کو اعتبار نہ ہو اس پر غیراعتبار کیوں کریں گے‘جس ملک کا صدر پاؤں کی موچ کا علاج بھی دبئی میں کراتا ہو‘ جس کی پراپرٹی اور بزنس دبئی میں ہو اور وہ وہاں اپنے ملک کے بجائے بغیر پروٹوکول اور سیکیورٹی کے گھوم پھر سکتا ہو‘ جس میں جنرل مشرف نے بھی اپنی زندگی کا آخری حصہ گزارہ ہو‘ جس میں ڈپٹی پرائم منسٹر اسحاق ڈار کا خاندان اور سرمایہ رہائش پذیر ہو‘ جس میں وزیرخزانہ بھی اپنا سرمایہ محفوظ سمجھتا ہو اور جس میں پاکستان کے تمام صنعت کاروں اور بزنس مینوں کے پیسے جمع ہوں اس ملک کی سرمایہ کاری کی اپیل پر سرمایہ کار اپنا پیسہ وہاں کیوں لگائیں گے؟
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں اگر آپ کے پاس کروڑ ڈالر ہوں اور آپ پاکستانی ہوں اور آپ کے پاس دبئی یا پاکستان کا آپشن ہو تو آپ یہ کروڑ ڈالر کہاں لگائیں گے؟ آپ کے جواب میں سب کچھ پنہاں ہے لہٰذا ہماری حکومت کو چاہیے یہ منتوں کے بجائے پاکستان میں صرف سرمایہ کاری کا ماحول بنا دے‘ پوری دنیا کے سرمایہ کار دبئی کی طرح یہاں آ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں حضرت داتا گنج بخشؒکے چندے کا باکس بھی دبئی چلا جائے گا‘ یہ بھی وہاں انویسٹ ہو جائے گا اور یہ دبئی کا پاکستان کے نام تازہ ترین پیغام ہے۔