افغانستان …ٹیلی وژن پر پابندی
افغانستان پر قابض طالبان نے ٹیلی وژن پر انسانوں اور دیگر زندہ سپیشیز کے حوالے سے جاری کی گئی پالیسی پر مکمل عملدرآمد کرانے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ سعودی عرب کے میڈیا سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے سخت قوانین کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغانستان میں کئی صوبوں میں طالبان نے مقامی ٹیلی وژن چینلز کی انتظامیہ سے کہا کہ وہ اپنی نشریات کو صرف آواز کی حد تک محدود رکھیں۔اور کسی قسم کی وڈیو اسکرین پر نشر نہیں ہونی چاہیے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے کابل میں مقیم نمایندے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی اخلاقی امور کی وزارت بتدریج انسانوں اور جانوروں کی تصاویر اور امیجز پر پابندی عائد کر رہی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد صوبائی حکومتوں کے صحافیوں کو تصاویر کھینچنے پر پابندی کے احکامات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزارت کے حکام نے اکتوبر کے مہینہ میں Propagation of Virtue and the prevention of Vice (PVPV) کے احکامات پر عملدرآمد شروع کیا تھا۔ پہلے ایک صوبے میں یہ پابندی عائد کی گئی۔ دوسرے صوبے میں اس پابندی کا اعلان کیا گیا۔ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی احکامات پر مکمل طور پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔
افغانستان میں میڈیا کے بارے میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال تک سرکاری و نجی شعبے میں 70 ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں۔ طالبان کے اقتدار سے پہلے 200 کے قریب مقامی اور غیر ملکی ٹیلی وژن چینلز کام کر رہے تھے، جن میں 96 چینل صرف کابل میں کام کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ افغانستان کے بڑے ٹی وی چینل ایرینا نیوز، شمشاد ٹی وی اور سرکاری شعبہ میں افغانستان نیشنل ٹیلی وژن کام کر رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری علاقوں میں 90 فیصد افراد اور دیہی علاقوں میں 55 فیصد افراد کے پاس ٹی وی سیٹ ہیں اور عمومی طور پر لوگ Terrestrial Antinas کے ذریعے نشریات دیکھتے ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں سیٹلائٹ ڈش نشریات دیکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
تین برس قبل طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت تھی، اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے طالبان کے کابل پر قبضہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب افغانستان میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔
بعض مذہبی حلقے یہ کہتے تھے کہ اب طالبان کی قیادت مغرب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ طالبان کے رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہے اور طالبان کی قیادت اتحادیوں کے حملے کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کے اقتدار کے خلاف مزاحمتی تحریک میں بہت کچھ سیکھا ہے اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ نئی طالبان حکومت ماضی کے طالبان کے اقتدار سے مختلف ہوگی مگر طالبان حکومت کے تین سالہ اقتدار اور ان کے دورِ حکومت کی رجعت پسندانہ پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی قیادت تاریخ سے سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔
جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت ایک لبرل پالیسی اختیار کی تھی۔ اس پالیسی کے تحت ریڈیو اور ٹیلی وژن دفاتر کام کر رہے تھے اور ٹی وی چینلز پر خواتین اینکر پرسن بھی نظر آتی تھیں۔ ان دنوں ایک طالبان لیڈر نے تو ایک خاتون اینکر پرسن کو انٹرویو بھی دیا تھا۔ اس وقت طالبان حکومت کے خوف کی بناء پر ہزاروں افراد جن میں تعلیم یافتہ خواتین اور پروفیشنلز شامل تھے، افغانستان چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
طالبان کے اس وقت کے ترجمان نے بار بار افغانستان چھوڑنے والے پروفیشنلز کو جن میں ڈاکٹر، انجنیئر، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل تھے کو روکنے کی کوشش کی تھی مگر پھر طالبان کی حقیقی پالیسیاں ظاہر ہونے لگیں۔ پہلے خواتین کے ملازمت کرنے، بغیر محرم کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کردی ۔
پہلے مرحلے میں یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم پر پابندی عائد کردی گئی، پھر اس پابندی کا دائرہ کار بڑھتا چلا گیا۔ جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے خواتین کی تعلیم کے حق کے حوالے احتجاج کیا تو اس وقت بانی پی ٹی آئی نے بطور وزیر اعظم پاکستان، اسلام آباد میں ہونے والے اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کی کانفرنس کے موقع پر کہا کہ افغانستان کا ایک مخصوص کلچر ہے، اس میں باہر سے مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
اب طالبان اپنے ملک میں میڈیا خصوصا ٹیلی میڈیا کے حوالے جو پالیسی نافذ کرنے کے لیے جو اقدامات کررہے ہیں، اس کی وجہ سے ٹیلی وژن انڈسٹری کو مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ وقت دور نہیں جب افغانستان میں طالبان کمانڈرز طاقت کے بل بوتے پر پورے ملک میں ریڈیو پر بھی ہر قسم کی موسیقی نشر کرنے پر پابندی عائد کردیں گے۔
طالبان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان میں مختلف گروہوں میں ایک شدید کشمکش جاری ہے۔ کابل میں موجود طالبان رہنماؤں کا رویہ کسی حد تک متوازن سمجھا جاتا ہے مگر ملا عمر کے آبائی شہر قندھار کی شوریٰ سخت گیروں پر مشتمل ہے ۔ افغانستان معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت، ازبک اور تاجک دھڑے پشتون کہلانے والے گروہوں کی غالبیت اور امتیازی سلوک کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔
اس طرح قندھاری اور حقانی دھڑوں کے درمیان طاقت کے توازن پر اختلافات ہیں۔ قندھاری دھڑوں کا خیال ہے کہ قطر میں ملا برادری کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں 2020میں دوحہ معاہدے سے افغانستان سے امریکی انخلاء کو آسان کر کے فتح کی راہ ہموار کی تھی۔ اس کے برعکس حقانی دعویٰ کرتے ہیں کہ میدان جنگ کے دباؤ سے امریکا کو افغانستان چھوڑنا پڑا مگر یہ گروہ مجموعی طور پر رجعت پسندی کی بنیادوں پر نیا سماج تیار کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔
افغان حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر گھریلو پیداوار کا تقریباً 26 فیصد کھو دیا ہے جس کے نتیجے میں معیشت سکڑ گئی اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھی۔ اس لیے افغانستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کی امداد پر ہے، اگر یہ امداد بند ہوجائے تو افغانستان میں ہر طرف بھوک اور موت نظر آئے گی۔ ایک طرف افغانستان میں رجعت پسندی بڑھنے کے اثرات سے دیگر ممالک سے تعلقات خراب ہورہے ہیں۔ گزشتہ ماہ پشاور میں ہونے والی ایک تقریب میں افغان قونصلیٹ کے دو صاحبان پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہیں ہوئے تھے۔
انھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کی توہین کی تھی۔ ایسا ہی واقعہ ایران میں رونما ہوا۔ ایران کی حکومت نے اپنے ترانے کی توہین پر سخت احتجاج کیا تھا۔ دوسری طرف طالبان کے رجعت پسند نظریات خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں فساد برپا کر رہے ہیں۔ طالبان کی حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے لیے تحریک طالبان پاکستان کی سہولت کاری کر رہی ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم سابقہ قبائلی علاقوں میں سرگرم ہے۔
افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان ان رجعت پسند اقدامات سے عالمی برادری کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر کچھ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ طالبان جدید دور کے تقاضوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ طالبان کا نیا چہرہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ ہر باشعور مسلمان کو اس رجعت پسندی کی مذمت کرنی چاہیے۔