بانی پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے پارلیمنٹیرینز کو لتاڑا اور پھر اپنا رونا روتے رہے کہ مجھے پنجرے جیسے روم میں بند رکھا گیا، ذہنی اذیت دی گئی وغیرہ وغیرہ۔ وہ پہلے بھی ایسی باتیں کرتے رہے ہیں اور ان کی باتوں پر ان کے حامیوں کے سوا کوئی یقین نہیں کرتا جس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے بانی کی رہائی کے لیے ملک بھر میں احتجاج اور جلسوں کا اعلان کر دیا جو ان کا حق ہے جس کے لیے وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ احتجاج قانون کے دائرے میں نہ ہوا تو حکومت پی ٹی آئی سے اس کے رویے کے مطابق نمٹے گی اور کسی کو ملک میں شرپسندی پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی۔
26 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد بانی پی ٹی آئی نے اس کا تمغہ مولانا فضل الرحمن کے سینے پر سجا دیا ہے کیونکہ جے یو آئی کے تمام ارکان پارلیمنٹ نے مولانا فضل الرحمن کی ہدایت پر پہلے سینیٹ میں اور بعد میں قومی اسمبلی میں کھلے عام ترمیم کے حق میں ووٹ دیے اور کسی منافقت اور دوعملی کا مظاہرہ نہیں کیا جب کہ پی ٹی آئی نے ترمیم کی مخالفت میں صرف دکھاؤے کے لیے ووٹ دیا کیونکہ پارٹی نے چند ارکان کو ہی پارلیمنٹ آنے کے لیے کہا تھا جس پر باقی ایوان میں نہیں آئے۔
مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کو راہ راست پر لانے کی پوری کوشش کی، پی ٹی آئی رہنماؤں کو راضی کر لیا تھا اور بیرسٹر گوہر نے رات گئے مولانا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اگلے دن حتمی جواب دینے کا یقین دلایا تھا جو پی ٹی آئی رہنماؤں کی مولانا کے ساتھ آخری پریس کانفرنس تھی۔
اس سے قبل خورشید شاہ کی قیادت میں بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی میں ارکان نے مسودے سے اتفاق کیا تھا مگر حتمی فیصلے کے لیے دو روز بعد پیر کو بانی پی ٹی آئی سے ملوانے کی شرط رکھی تھی جو حکومت نے قبول نہیں کی تھی کیونکہ پی ٹی آئی منصوبے کے تحت وقت لینا چاہتی تھی مگر حکومتی حلقوں کو پی ٹی آئی کی چال کا پتا تھا۔
اس لیے حکومت راضی نہیں ہوئی اور ایک روز قبل تک پی ٹی آئی کے رہنما بار بار مولانا کے در پر آ رہے تھے اور ان کی بھرپور کوشش تھی کہ مولانا ان کا کہنا مان لیں اور حکومتی ترمیم کے لیے جے یو آئی کے ووٹ نہ دیں مگر مولانا فضل الرحمن کی ہر شرط مان کر بلاول بھٹو نے مولانا اور پی ٹی آئی کو فرار کا موقعہ نہیں دیا تھا اور مولانا نے حکومت کو آدھی ترمیم واپس لینے پر راضی کر لیا تھا جس کے بعد مولانا اصولی طور پر آئینی ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے پر راضی ہوگئے تھے کیونکہ انھوں نے حکومت سے اپنی اور پی ٹی آئی کی شرائط منوا لی تھیں اور مولانا کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں تھا اور انھوں نے پی ٹی آئی کو ترامیم متفقہ طور منظور کرانے پر راضی کر لیا تھا مگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے دل میں کھوٹ اور منافقت تھی اور انھوں نے مولانا کو دھوکا دیا اور مولانا کے پاس آ کر پریس کانفرنس کرنے کے بجائے اپنی پریس کانفرنس کرکے ترمیم کے لیے ووٹ دینے سے صاف انکار کر دیا جس کا مولانا نے برا نہیں منایا تھا اور کہا تھا کہ جو چاہے وہ کریں ان کا حق ہے اور مولانا نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا تھا۔
یہ بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ فروری میں جے یو آئی کو نظرانداز کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں نے مولانا سے ملاقاتیں شروع کر دی تھیں اور وہ مولانا کے حکومت کے خلاف بیانات پر مولانا پر فریفتہ ہوئے جا رہے تھے جب کہ جواب میں مولانا نے بھی بانی پی ٹی آئی کی باتیں بھلا دی تھیں ۔ وہ بھی پی ٹی آئی والوں سے ایسی محبت سے پیش آ رہے تھے کہ سیاسی حلقے مولانا کی مہمان نوازی پر حیران تھے ۔
مولانا بھی پی ٹی آئی کی اپنے لیے والہانہ محبت دیکھ کر ماضی کو بھول گئے اور مولانا کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ احسان ماننا بانی پی ٹی آئی کی کتاب کے کسی باب میں شامل نہیں رہا ہے اور انھوں نے جہانگیر ترین کو بخشا تھا نہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو اور نہ عون چوہدری اور نہ علیم خان کو۔ وہ کسی کا بھی احسان مانتے ہی نہیں ہیں۔
کبھی بانی پی ٹی آئی نواز شریف، جنرل پرویز مشرف پھر افتخار محمد چوہدری کی بھی تعریفیں کیا کرتے تھے۔ عمران خان کی احسان فراموشیوں کے باوجود مولانا نے پی ٹی آئی والوں کو اپنے گھر آنے پر عزت دی۔ کھانے کھلائے، ان کی حمایت میں حکومت کی بہت سی باتیں نہیں مانیں، انھیں فوجی عدالتوں سے بچا کر احسان کیا اور ترمیم کی منظوری کو ایک ہفتہ ہی گزرا کہ خان نے ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے والوں کو ملک کا غدار قرار دے دیا اور مولانا کی محنت پر پانی پھیر کر رکھ دیا۔
مولانا کی محبتوں کا انھیں صلہ دے دیا گیا ہے ، اس پر مولانا کے حامیوں کو بھی مایوسی ہوئی کہ انھیں توقع نہ تھی کہ ایسا اتنی جلد ہوگا۔ پی ٹی آئی کے وہ رہنما جو دن رات مولانا کے گھر کا چکر لگاتے رہے لیکن ترمیم کی منطوری کے بعد وہ بھی مولانا کا گھر بھول گئے جہاں آ کر ان کا واپس جانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ مولانا کی جس دانش کو ملک میں سراہا جا رہا تھا، پی ٹی آئی والوں کے نزدیک نالائق قرار پائی ، مولانا اچھے سیاستدان، مہذب عالم دین اور مہمان نواز ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی اور اس کے ساتھیوں کا باطن وہ بھی پڑھ نہ پائے۔