پولیو اس وقت پاکستانی بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جدید دنیا نے اس موذی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنا لیا ہے۔ بدقسمتی سے اقوام عالم میں صرف پاکستان اور افغانستان ایسے دو ممالک ہیں جہاں پولیو کے کیس تسلسل سے نمودار ہو رہے ہیں جبکہ المیہ یہ ہے کہ ایٹمی پاکستان پولیو کے مرض/کیسوں میں سرفہرست ہے۔
پولیو مائیلائٹس (Polio Myelitis) یونانی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ’سرمئی گودے کی سوزش‘ کے ہیں۔ 1874ء میں جرمن معالج ایڈولف نے پہلی بار اسے استعمال کیا، کیو ں کہ یہ اعصابی ٹشوز کے سرمئی رنگ والے حصے پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس میں سوزش کردیتا ہے جو کہ فالج کا باعث بنتا ہے۔ اس کا پہلا نام انفنٹائل فالج (Infantile Paralysis) تھا۔ اس مرض کی ابتدائی تاریخ معلوم نہیں، ایسا لگتا ہے کہ پولیو ہزاروں سال کی لمبی تاریخ رکھتا ہے۔
جیسا کہ مصری تہذیب سے دریافت ہونے والی مصری اسٹیل (Egyptian Stele)پتھر کی نقش و نگاری سے پتہ چلتا ہے، جس میں ایک شخص کو چھڑی کے ذریعے چلتادیکھا جا سکتا ہے جس کی ٹانگ اور پیرمفلوج ہیں، جو کہ پولیو کی خصوصیت ہے۔ اس بیماری کی پہلی طبی تفصیل 1789ء میں برطانوی معالج مائیکل انڈر ووڈ نے دی تھی، اور اسے 1840 ء میں جاکوب ہائن نے ایک مخصوص جسمانی حالت کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ پولیو کی پہلی جدید وبائی بیماری صنعتی انقلاب کے بعد شہروں کے پھیلاو کے نتیجے میں سامنے آئی تھی اور یہ ایک غیر معمولی بیماری ثابت ہوئی۔
1900 ء کے اوائل میں پولیو اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب دیگر جان لیوا امراض مثلاً خناق، ٹائیفائیڈ اور تپ دق بین الاقوامی افق پر کم ہورہے تھے۔ 1905 ء کے لگ بھگ ناروے اور سوئیڈن میںاس کی بڑی وباء سامنے آئی۔ 1916ء میں نیو یارک کواس پہلی بڑی وبا ء کا سامنا کرنا پڑا جس میں 9000 سے زائد واقعات میں 3432 اموات ہوئیں۔ اس صدی کے دوران بڑے پیمانے پر وباء پھیلی۔ 1952ء میں امریکہ میں ریکارڈ 62857 واقعات ہوئے۔ امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کو 39 سال کی عمر میں پولیو کی تشخیص ہوئی، اس کے بعداس نے پوری زندگی وہیل چیئر پر گزاری اور اپنی کمزوری کو اپنے معاملات پر حاوی نہ ہونے دیا جو کہ پولیو متاثرین کے لیے ایک بہت بڑی حوصلہ افزاء بات ہے۔
پولیو ایک انتہائی متعدی بیماری ہے جس کی وجہ پولیو وائرس ہے۔ یہ بنیادی طور پر دس سال سے کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے جو جسم کے مختلف حصوں خصوصاً نچلے اعضاء کے مستقل مفلوج ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔ پولیو وائرس ہر فرد کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس خاص طور پر ناقص حفظان صحت اور گندگی میں پھیلتا ہے جو کہ پاخانے/ انسانی فضلہ سے متاثرہ پانی یا خوراک سے جسم میں داخل ہوتا ہے۔
اس کے بعد یہ آنتوں میں پھیل جاتا ہے، جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ کر سکتا ہے اور فالج کا سبب بنتاہے جو اکثر مستقل رہتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگرچہ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے تاہم بچوں کو اس اپاہج کرنے والی بیماری سے بچانے کے لئے ویکسینیشن ایک مؤثر طریقہ ہے۔ ہر بار جب پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں، تو ان کے وائرس سے تحفظ میں اضافہ ہوتا ہے۔
پولیو وائرس دو قسم کا ہے: جنگلی پولیو وائرس (WPV) اور ویکسین سے حاصل ہونے والا وائرس (VDPV)
ان دونوں اقسام کی مزید تین تین ذیلی اقسام ہیں۔ اس وقت پاکستان جنگلی پولیو وائرس ٹائپ 1 اور گردشی ویکسین سے اخذ پولیو وائرس ٹائپ 2 سے متاثر ہے۔ یہ وائرس ناک اور منہ کے ذریعے متا ثرہ پانی اور خورا ک کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ہاضمے کے راستے میں وائرس میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے، جہاں سے یہ خون میں شامل ہو کر اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے۔ پولیو وائرس کا شکار ہونے والوں میں سے ایک سے دو فیصد افراد مفلوج ہو سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیو وائرس صرف انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ جنگلی پولیو وائرس ٹائپ 1اور ٹائپ 2کو دنیا سے بالترتیب سال 1999 ء اور 1912 ء میں مٹا دیا گیا۔ پولیو کا انکیوبیشن پیریڈ (وائرس کے جسم میں داخل ہونے اور پہلی علامات ظاہر ہونے کی مدت) 10 دن تک ہوتا ہے اور انفیکشن کے تین چوتھائی مریضوں میں فوراًکوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
پولیو کی ویکسین سے پیدا ہونے والا پولیو کا مرض (VDPV) متعدی نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پولیو کی ویکسینیشن (او پی وی) کی 2.7 ملین خوراک میں صرف ایک بچہ پولیو سے متاثر ہوسکتا ہے جو کہ پولیو سے تحفظ کے مقابلے میں بہت ہی کم تناسب ہے ۔ پولیو کا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو کر تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ تبدیل شدہ وائرس 12 سے 18 ماہ کے دوران جسم سے بذریعہ فضلہ خارج ہوتا ہے اوران بچوں میں بیماری پیدا کرسکتا ہے جن کو پہلے سے حفاظتی قطرے / ٹیکہ جات نہیں ملے۔
پولیو کے مرض میں درج ذیل اقسام ہوتی ہیں
٭ مفلوج نہ کرنے والا پولیو(Non Paralytic Polio) : کچھ لوگوں میں پولیو کے وائرس سے ظاہر ہونے والی علامات معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ان سے جسمانی معذوری نہیں ہوتی۔ یہ علامات 10 دن تک جاری رہ سکتی ہیں: بخار، گلے کی سوزش، سر درد، متلی / قے کا ہونا، تھکاوٹ، کمر میں درد یا کھچاؤ، گردن میں درد یا کھچاؤ، بازؤوں یا پیروں میں درد یا کھچاؤ، پٹھوں کی کمزوری وغیرہ۔
٭ مفلوج کرنے والا پولیو(Paralytic Polio) : بیماری کی یہ انتہائی سنگین شکل شاذ و نادر ہی ہے۔ فالج پولیو کی ابتدائی علامات میں شامل ہے دیگرعلامات مثلاً بخار، سر درد وغیرہ پہلی قسم سے مماثلت رکھتی ہیں۔ تاہم ایک ہفتہ کے اندران علامات کے علاوہ دیگر علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں مثلاً: بے چینی واضطراب، پٹھوں میں شدید درد یا کمزوری، پٹھوں کا ڈھیلا پن / طاقت میں کمی۔
٭ پولیو کے بعد ہونے والی حالت (Post Polio Syndrome) : یہ پولیو وائرس کے حملے کے بعد ہونے والی صورت حال ہے جو کہ مختلف علامات کا مجموعہ ہوتی ہے، جو کہ پولیو کے حملے کے بعد برسوں تک کچھ لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ان میں درج ذیل علامات شامل ہوسکتی ہیں: پٹھوں یا جوڑوں کا بتدریج کمزورہونا / سوکھنا، تھکاوٹ، پٹھوں کا سکڑ جانا (Atrophy) ، سانس لینے یا نگلنے میں دشواری، دوران نیند سانس لینے میں دشواری ، جسمانی درد ودرجہ حرارت میں کمی۔
تشخیص: ڈاکٹر اکثر پولیو کو علامات سے تشخیص کرتے ہیں، جیسے گردن اور کمر میں کمزوری و کھچاؤ، غیر معمولی اضطراب، نگلنے اور سانس لینے میں دشواری۔ اسکے علاوہ مرض کی تصدیق کے لیے کچھ ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں مثلاً ناک ،گلے کے مواد کا معائنہ، پاخانے کا معائنہ، ریڑھ کی ہڈی کے پانی / دماغی سیال کا معائنہ جو کہ تشخیص کرنے میں حتمی ہوتا ہے۔ یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ پولیو کی تشخیص کیلئے پاخانے کا نمونہ لازمی بھجوانا چاہیے۔
علاج: چونکہ پولیو کا کوئی علاج موجود نہیں، لہذاجسمانی و ذہنی سکون میں اضافہ کے ذریعے اس مرض کی پیچیدگی سے بچاؤ میں معاونت کی جاسکتی ہے، مستند معالج سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ شدید انفیکشن کی صورت میں سانس لینے والے پٹھے متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریض سانس نہیں لے سکتا۔ ایسی صورت حال میں مریض کیلئے مصنوعی سانس دینے والی مشین وینٹی لیٹرکا ہونا مریض کی زندگی بچاسکتا ہے ۔ ایسے تمام پولیو سے متاثرہ مریضوں کی جسمانی ورزش ، مساج، فزیو تھراپی جلد از جلد شروع کرادینی چاہیے تاکہ پٹھوںکو فعال بنایا جاسکے اور انکو مزید کمزور ہونے سے بچایا جاسکے۔ بخار، درد اور دیگر انفیکشن کیلئے ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ اس وقت پولیو سے بچاؤ کا سب سے مؤثر طریقہ ویکسی نیشن ہے۔ پولیو ویکسین کی دو قسمیں ہیں: منہ کے ذریعے پلائے جانے والے قطرے (OPV) ، گوشت میں لگائے جانے والے ٹیکے (IPV)
منہ کے ذریعے پلائے جانے والے قطرے(OPV)
یہ ویکسی نیشن سستی، محفوظ اور موثر ہونے کے ساتھ ساتھ پولیو کے خلاف دیرپا تحفظ مہیا کرتی ہے۔ اس ویکسین میں پولیو کا وائرس زندہ ہوتا ہے لیکن اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ دنیا بھر میں زیادہ استعمال ہونے والی ویکسین ہے، اس کا استعمال بہت آسان ہے جس کیلئے خاص تربیت درکارنہیں ہوتی۔ یہ دفاعی نظام کو بڑی تیزی سے متحرک کرتی اور مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ویکسی نیشن کے بعد کئی ہفتوں تک وائرس آنت میں موجود رہتا ہے اور جسم سے خارج ہوتا رہتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ناقص حفظان صحت اور گندگی والے علاقوںاورغیر ویکسین شدہ بچوں میں یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔
گوشت میں لگائے جانے والے ٹیکے (IPV)
یہ حفاظتی ٹیکہ ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً امریکہ میں OPV کی بجائے IPV استعمال ہوتی ہے ۔ اس میں زندہ جراثیم موجود نہیں ہوتا لہذا اس ویکسی نیشن کے نتیجہ میں بچوں میں حفاظتی ٹیکے سے پولیو پیدا نہیں ہوتا۔ IPV کچھ لوگوں میں الرجک ردعمل کا سبب بن سکتا ہے۔ الرجک رد عمل کی علامات عام طور پرٹیکہ لگانے کے چند گھنٹوں کے اندر ظاہر ہو سکتی ہیں مثلاً: سانس لینے میں دشواری، جسمانی کمزوری ، گھبراہٹ و بے چینی، دل کی دھڑکن کا بڑھنا، چکر آنا ۔
زیادہ تر بالغ افراد کو پولیو ویکسین کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ عام طور پر بچپن میں ویکسین لیتے ہیں۔ تاہم کچھ بالغ حضرات کو ویکسی نیشن کی ضرورت رہتی ہے، مثلاً : اگرآپ کسی ایسے ملک کا سفر کررہے ہیں جہاں پولیو کا خطرہ زیادہ ہو، آپ کسی لیبارٹری میں کام کر رہے ہیں اور پولیو کے نمونوں کو سنبھال رہے ہیں جس میں پولیو وائرس ہوسکتے ہیں۔ یاآپ طب کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں جو ان مریضوں کا علاج کر رہے ہیں جنھیں پولیو ہوسکتا ہے۔ ان تینوں گروپوں میں شامل بالغ افراد نے اگر کبھی پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پئے تو انہیں تین خوراکیں IPV ملنی چاہئیں،جس کا شیڈول درج ذیل ہے: پہلی خوراک کسی بھی وقت ، دوسری خوراک 1 سے 2 ماہ بعد، تیسری خوراک 6 سے 12 ماہ بعد۔ وہ بالغ افراد جن کو پولیو وائرس کا خطرہ ہوسکتا ہے اور جنہوں نے پہلے پولیو ویکسین (آئی ۔پی ۔وی یا او۔ پی ۔وی) کی معمول کی سیریز مکمل کرلی ہے، وہ آئی۔ پی ۔وی کی ایک اضافی خوراک لے سکتے ہیں جو کہ ان کو زندگی بھر کیلئے تحفظ مہیاکرے گی۔
پولیو کے خاتمے کے لئے عالمی اقدامات:
عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پرایک قرار داد منظور کی، جس میں مختلف ممالک، ڈبلیو ایچ او، روٹری انٹرنیشنل، یو۔ایس مرکز برائے امراض روک تھام ، یونیسف ، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن شامل ہیں ۔ 1988ء میں عالمی ادارہ صحت کی گورننگ باڈی نے عالمی پولیو خاتمہ اقدام (جی ۔پی ۔ای۔ آئی) کا آغاز کیا جس کو عالمی سطح پراس مرض کے خاتمے کا کام سونپا گیا تھا۔ سال 1988 ء میں دنیا بھر میں350000 کے قریب پولیو کے مریض موجود تھے اور اس سے دنیا کے تقریبا 125 ممالک متاثر تھے۔ ان عالمی اقدامات کے نتیجے میں سال 2018 ء تک پولیو کے مرض میں 99 فیصدنمایاں کمی آئی جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
1994 ء میں عالمی ادارہ صحت نے امریکہ کی پولیو سے پاک ہونے کی تصدیق کی۔ اس کے بعد 2000 ء میں WHO نے مغربی بحرالکاہل خطے اور جون 2002 ء میں یورپ سے پولیوکے خاتمے کا اعلان کیا۔ جنوری 2011ء میںہندوستان نے اپنے ملک کو پولیو فری قرار دیا ۔27 مارچ 2014ء کوWHOنے جنوب مشرقی ایشیائی خطے کو پولیو سے پاک ہونے کی تصدیق کی ۔ 25 اگست 2020 ء میں عالمی ادارہ صحت نے افریقہ کو بھی پولیو سے پاک قرار دیا ہے جو کہ نائجیریا میں پولیو کے خاتمے سے ممکن ہوا۔ اس وقت دنیا کی 80 فیصد آبادی پولیو سے مصدقہ طور پر پاک علاقوں میں رہ رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت انفرادی ممالک کے بجائے دنیا کے خطو ں کو پولیو سے پاک ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو چھے خطوں میں منقسم کیا ہے جن میں افریقہ، امریکہ، مشرقی بحیرہ روم، یورپ، جنوب مشرقی ایشیاء اور مغربی بحر الکاہل شامل ہیں۔ پاکستان مشرقی بحیرہ روم میں شامل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی خطے کو مصدقہ طور پر پولیو سے پاک قرار دیے جانے کے لیے درج ذیل معیار پر پورا اترنا لازمی ہے:
i) اس خطے میں کم از کم تین سال تک کوئی بھی مقامی پولیو کا واقعہ ریکارڈ نہ ہو۔
(ii نگرانی کا قابل اعتماد نظام موجود ہو۔
(iii خطے میں پولیو کے درآمد کیسوں کا پتہ لگانے اور ان کی وجوہات جاننے کی صلاحیت موجود ہو۔
پاکستان 1994ء سے پولیو خاتمہ پروگرام کے ذریعے ملک سے پولیو وائرس کو ختم کرنے کیلئے کاوشیں کررہا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت تقریباً دو لاکھ 70 ہزار تربیت یافتہ عملہ پولیو سے بچاؤ کے ویکسی نیشن پر مامور ہے جو کہ اس وقت پولیو کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا نگرانی، کوائف جمع کرنے والا نیٹ ورک ہے۔ پاکستان میں 2011ء میں دنیا میں سب سے زیادہ پولیو کیس (198) رپورٹ ہوئے۔ پاکستان نے Covid-19 کی عالمی وباء کے پیش نظر پولیو کمپین عارضی طورپر روک دی تھی لیکن جولائی 2020 ء سے پولیو ویکسی نیشن کی تمام سرگرمیوں کو چار ماہ کی معطلی کے بعدشروع کردیا گیا۔ اگست اور ستمبر2020 ء میں ملک بھر کے 100 سے زائد اضلاع میں تقریبا ً34 لاکھ بچوں کی پولیو ویکسی نیشن کی گئی۔
دنیا میں اب تین میں سے دو جنگلی پولیو وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے اور دنیا پولیووائرس کے مکمل خاتمے کے حصول کے لئے صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔ پاکستان اور افغانستان دنیا میں دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس بچوں کی صحت اور تندرستی کے لئے ابھی تک خطرہ بنا ہوا ہے۔
صحت کے بین الاقوامی ضوابط: انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کے ذریعہ پاکستان کو پولیو وائرس سے متاثرہ خطہ قرار دیا گیا ہے ، جہاں سے اس مرض کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کے امکانات موجودہیں۔
سفری سفارشات: بین الاقوامی سفر اور صحت کی تنظیموں نے سفارش کی ہے کہ پولیو سے متاثرہ علاقوں میں جانے والے تمام مسافروں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں۔ متاثرہ علاقوں کے رہائشی، چار ہفتوں سے زیادہ عرصہ قیام کرنے والے افراد کو OPV یا IPV کی اضافی خوراک سفر کے چار ہفتوں سے 12 ماہ کے اندر لازمی ملنی چاہیے۔
وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ 2 (ڈبلیو پی وی 2) کا آخری بار 1999 میں شمالی ہندوستان کے علی گڑھ میں پتہ چلا تھا۔ پولیو خاتمہ کے عالمی کمیشن (GCC )نے باضابطہ اعلان کیا کہ پولیو وائرس ٹائپ- 2 کاخاتمہ 20 ستمبر 2015 ء کو کردیا گیا ہے۔ جبکہ پولیو وائرس ٹائپ 3-کا آخری مریض 10 نومبر 2012 ء کو نائیجیریامیں پایا گیا تھا اور چھے سال سے زیادہ عرصے سے کسی بھی ملک میں ڈبلیو پی وی 3 کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ لہذا 17 اکتوبر2019ء کوGCC نے ڈبلیو پی وی 3 کے خاتمہ کا حسب ضابطہ اعلان کیا۔ ڈبلیو پی وی 3 کا خاتمہ پولیو سے پاک دنیا کی طرف ایک پُرجوش قدم ہے اور ڈبلیو پی وی 3 ، چیچک اور ڈبلیو پی وی 2 کے بعدانسانی تاریخ میں تیسری متعدی بیماری پیدا کرنے والاجراثیم ہے جس کا وجود ختم کر دیاگیا۔ تاہم جب تک ایک بھی بچہ پولیو انفیکشن میں مبتلا رہتا ہے، پوری دنیا میں بچوں کو پولیو منتقل ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔
پولیو کا عالمی دن ہر سال 24 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کے لیے حفاظتی قطروں اور ٹیکوں کے کورس کا شیڈول کچھ یوں ہے: (پولیو کے قطرے) پہلی خوراک : پیدائش کے فوراً بعد، دوسری خوراک : 6 ہفتے بعد، تیسر ی خوراک : 10 ہفتے بعد، چوتھی خوراک : 14 ہفتے بعد۔IPV ٹیکہ: 14 ہفتو ں پرOPVکی چوتھی خوراک کے ساتھ۔
اس شیڈول کے علاوہ پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کی ملکی یا علاقائی سطح پر مخصوص پولیو مہم میں حفاظفی ویکسینیشن لازمی کرانی چاہیے۔ چاہے انہوںنے پہلے سے کورس مکمل کیا ہوا ہو، یا ان کی شیڈول کے مطابق ویکسین جاری ہو۔ یہاں اس بات کا اظہار کرنا ضروری ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی معاشرے میں پولیو کی حفاظتی ویکسین کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو کہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ پولیو ویکسین ایک محفوظ ویکسین ہے یہ کسی غیر ملکی، غیر اسلامی، استحصالی اور سامراجی طاقتوں کا ایجنڈہ نہیں۔ یہ سراسر بے بنیاد بات ہے کہ ویکسین کے ذریعے پاکستان کی آبادی کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ شرپسند عناصر پولیو ورکرز کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں، ان واقعات میں پولیو ورکرز خصوصاً شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر چکے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ پولیو کے محاذ پر کامیابی کیلئے ان توہمات اور افواہ سازی کو یکسر نظرانداز کر دینا چاہیے اور اپنے ٹارگٹ کے حصول کیلئے سفر جاری رکھنا چاہیے۔
موجودہ دور میںجدید ٹیکنالوجی، سہولیات اوردنیا بھر میں سب سے زیادہ پولیو کی نگرانی کرنے والے سٹاف/ نظام کے باوجود پولیو کی عالمی درجہ بندی میںپہلے نمبر پر آنا ایک ایٹمی مسلمان ریاست کیلئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ سب اس موذی مرض کے خلاف نہ صرف متحد ہوں بلکہ اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اس جدوجہد میں میں بھرپور شرکت کریں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاشرے میں موجود پانچ سال سے کم عمرکوئی بچہ اس ویکسینیشن سے محروم نہ رہے اور اس ملک سے اس موذی مرض کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ممکن ہو سکے۔
پاکستان اور افغانستان میں 2024 کے دوران پولیو کی صورتحال نے عالمی اور علاقائی سطح پر صحت کے ماہرین کے لیے تشویش پیدا کر دی ہے۔ دونوں ممالک تاریخی طور پر پولیو سے متاثر رہے ہیں، لیکن حالیہ اعداد و شمار ایک دلچسپ اور افسوسناک تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ افغانستان، جو کہ دہائیوں سے جنگ اور بدترین سماجی و اقتصادی حالات کا شکار ہے، اس نے 2024 میں (جنوری تا اکتوبر) صرف پانچ فعال پولیو کیسز رپورٹ کیے ہیں، جب کہ پاکستان نے، جو کہ ایک جوہری طاقت ہے اور جس کے پاس نسبتاً بہتر ڈھانچہ ہے، 32 فعال کیسز رپورٹ کیے ہیں، جن میں سے تازہ ترین کیس 11 ستمبر 2024 کو حیدرآباد، صوبہ سندھ سے سامنے آیا۔
پاکستان میں رواں سال اکتوبر 2024 تک 32 پولیو کیسز کا رپورٹ ہونا ایک سنگین تشویش کا باعث ہے۔ پولیو کیسز میں اس اضافہ کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: ویکسینیشن مہمات میں رکاوٹیں، عوامی آگاہی کی کمی، مہاجرین اور نقل مکانی۔ عسکریت پسندی اور سماجی دباؤ بھی پولیو سے پاک مہم کو ناکام بنانے کا ایک سبب ہے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کی موجودگی بھی ایک چیلنج ہے، کیونکہ بعض مہاجرین کو ویکسی نیشن تک رسائی نہیں ہوتی، جس سے پولیو وائرس کی منتقلی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
پولیو کے خاتمے کے لیے تجاویز: عوامی آگاہی مہمات کا فروغ: عوام کو پولیو ویکسین کے فوائد اور اس کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر آگاہی مہمات چلانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو مقامی سطح پر ایسے کمیونٹی لیڈرز اور علماء کو شامل کرنا چاہیے جو عوام میں ویکسین کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کر سکیں۔
ویکسینیشن ٹیموں کی حفاظت: ویکسینیشن ٹیموں کی حفاظت کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ وہ بغیر کسی خوف کے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو سکیورٹی کے بہتر انتظامات کرنے چاہئیں، خصوصاً قبائلی علاقوں اور ایسے علاقوں میں جہاں دہشت گردی کا خطرہ زیادہ ہے۔
بین الاقوامی تعاون: افغانستان کے تجربات سے سیکھتے ہوئے پاکستان کو بھی بین الاقوامی اداروں اور صحتی ماہرین کے ساتھ مزید تعاون کرنا چاہیے تاکہ پولیو کے خاتمے کے لیے بہتر حکمت عملی وضع کی جا سکے۔
مہاجرین کی ویکسینیشن: پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے بچوں کی ویکسینیشن کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ پولیو وائرس کی منتقلی کو روکا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے خصوصی ویکسینیشن کیمپوں کا انعقاد اور مہاجرین کی بستیوں میں صحتی سہولیات کی فراہمی ضروری ہے۔
ویکسینیشن مہمات میں تسلسل: ویکسینیشن مہمات کو باقاعدگی سے چلانے اور تمام بچوں تک ویکسین پہنچانے کے لیے حکومت کو مزید وسائل اور افرادی قوت کا انتظام کرنا چاہیے۔