فلسطین، عالمی حمایت اور اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی ناکامیوں کی مثالوں میں فلسطین سرفہرست ہے۔


ایڈیٹوریل November 07, 2024
فوٹو : فائل

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں 53 ممالک نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت اور منتقلی روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بات انھوں نے گوتریس کو گزشتہ روز بھیجے گئے ایک خط میں کہی۔ مذکورہ ممالک نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ سمیت فلسطینی اراضی، لبنان اور بقیہ مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔

قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کے قیام کو 79 سال گزرگئے، اقوام متحدہ کی ناکامیوں کی مثالوں میں فلسطین سرفہرست ہے۔ فلسطینی ریاست کے قیام میں ناکامی کی اہم وجہ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسی عالمی طاقتوں کی اسرائیل کے لیے اندھی حمایت ہے جس کے بل پر وہ آج بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مظلوم اور کمزور قوموں کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے، طاقتور ملکوں کی من مانی کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی تعاون کی تنظیمیں اب زیادہ فعال ہیں۔ مظلوم قوموں کے خلاف ویٹو پاورکے ناحق استعمال کی روش نہ بدلی گئی تو اقوام متحدہ اپنے ہونے کا ہر جواز کھو دے گا۔ پاکستان، اٹلی اور برازیل ویٹو پاورکے غیر منصفانہ استعمال کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں، یک قطبی دنیا ایک بار پھر تبدیلی کی راہ پر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور مغربی شہروں میں بھی لندن سرفہرست ہے، اس کے بعد واشنگٹن ہے۔ اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی، سب شامل ہوئے، یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیرکو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکا نے حسبِ معمول اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اگرکسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ صدرجوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ’’ میں بھی صہیونی ہوں۔‘‘ دوسری جانب فلسطین پر اقوام متحدہ کی نمایندہ فرانسسکا البانیز نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ میں تباہی کے مقصد کے ساتھ منظم بھوک کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں ہے، بلکہ اسے ’’نسل کشی‘‘ کہا جانا چاہیے۔

اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں ’انروا‘ کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا کہ اسرائیل نے گزشتہ اکتوبرکے دوران غزہ کی پٹی میں داخلے کی اجازت دینے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد کو کم کر کے صرف 30 ٹرک یومیہ کردیا ہے۔ سات اکتوبر 2023کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے ساتھ گزرگاہوں کو بند کردیا ہے اور بنیادی سامان اور اشیاء کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ امریکی حمایت کے ساتھ اسرائیل سات اکتوبر 2023سے غزہ پر نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے۔

تازہ ترین میڈیا اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کی ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کی امید برآئی ہے۔ ٹرمپ ایک بار پھر امریکی صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نیتن یاہو کو ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کرنے کی ترغیب دینے سے لے کر، انھوں نے کہا تھا کہ ’’ سات اکتوبر کا حملہ کبھی نہ ہوتا، اگر میں صدر ہوتا‘‘ اور یہ کہ وہ اسرائیل پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ ریپبلکن صدر کے طور پر ایک تنہائی پسند ٹرمپ نیتن یاہو کو غزہ اور لبنان میں جاری تنازعات کو فریقین کی باہمی رضامندی سے حل کرنے کے لیے مزید آزادی دے سکتے ہیں۔

نیتن یاہو کے لیے ایک اہم سنگِ میل امریکی انتخابات تھے، وہ ٹرمپ کی فتح کے لیے دعا کر رہے تھے، جس سے ان کے خیال میں انھیں نقل و حرکت کی بہت زیادہ آزادی ملے گی اور جو وہ کرنا چاہتے ہیں، کرسکیں گے،کیونکہ ریپبلکنز کے ساتھ ان کا تجربہ بہت اچھا ہے، جس کے برعکس ڈیموکریٹس ان پر زیادہ سخت ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دوران کئی ایسے اقدامات کیے جن میں اسرائیل کے فلسطینیوں اور وسیع خطے کے ساتھ تنازعات کے بارے میں بعض دیرینہ امریکی پالیسیوں سے مکمل انحراف کیا گیا۔

اس سے نیتن یاہو کو اندرونِ ملک معاملات میں مدد ملی۔ ریپبلکن صدر نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا جسے اسرائیل اپنا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیتا ہے، مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری کو تسلیم کیا اور تین عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کی نگرانی کی۔ ٹرمپ اسرائیل کے قدیم دشمن ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے سے بھی دستبردار ہوگئے اور اسلامی جمہوریہ پر سخت اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے لیے اپنی’’آہن پوش حمایت‘‘ پر اصرارکرنے کے باوجود صدر جوبائیڈن کے نیتن یاہو سے طویل عرصے سے تعلقات سرد رہے ہیں۔

ٹرمپ کے برعکس بائیڈن نے نیتن یاہو کو ایرانی تیل کی پیداوارکی اور جوہری تنصیبات پر حملے کے خلاف خبردارکیا تھا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان قریبی ذاتی تعلقات بھی ہیں، یہ مثبت پہلو کسی بھی خدشات سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ نیتن یاہو ٹرمپ کے غیر متوقع مزاج کا خطرہ مول لینے کو تیار ہوں گے۔اسرائیل کے علاقائی خارجہ پالیسیوں کے ادارے Mitvim کے ستمبر میں کروائے گئے، ایک رائے عامہ کے جائزے میں کہا گیا کہ 68 فیصد اسرائیلیوں کے نزدیک ٹرمپ ایسے امیدوار ہیں جو اسرائیل کے مفادات کی بہترین خدمت کرے گا۔ صرف 14 فیصد نے نائب صدر کملا ہیریس کو منتخب کیا حالانکہ وہ بارہا اسرائیل اور اس کے حقِ دفاع کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ فلسطینیوں کا موقف ہے کہ امریکی انتخابات کا ہماری سیاسی حقیقت پر کوئی مثبت اثر ہو گا،کیونکہ امریکی پالیسی اسرائیل کی حمایت اور پشت پناہی کے لحاظ سے پوری طرح واضح ہے۔

غزہ کی جنگ کا عالمی تجارت پر بھی بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ نہر سویز سے گزرنے والے جہاز بہت کم رہ گئے ہیں۔ حوثی میزائلوں کے ڈر سے اب بحری جہاز جنوبی افریقہ کے راستے سے یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان سمندری سفر لمبا اور مہنگا ہوگیا ہے جہازوں کے کرائے اور انشورنس کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان پراکسی جنگیں بھی مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں جاری ہیں۔ لبنان، شام، یمن اور عراق میں ایران کے حمایتی گروپوں کی موجودگی اور اسرائیل کے خلاف ان کی سرگرمیاں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔ حزب اللہ اور حماس جیسے گروپس کو ایران کی حمایت حاصل ہے، جب کہ اسرائیل ان گروپوں کو اپنے لیے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے تعلقات کا اثر نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست پر بھی پڑتا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف ہیں اور اس پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں، جب کہ روس اور چین ایران کے حق میں ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔

اس طرح اسرائیل اور ایران کے تعلقات ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بہتری کی امید کم ہے کیونکہ دونوں ممالک کے نظریات اور مقاصد میں بہت بڑا فرق ہے۔ تاہم، عالمی طاقتوں کی سفارتی کوششیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے کی جانے والی کاوشیں ممکنہ طور پر اس تنازعے میں کچھ بہتری لا سکتی ہیں۔ بظاہر اس کا امکان بہت کم ہے چونکہ بنیادی مسئلہ مذہبی اختلاف ہے اور یہ ختم نہیں ہو سکتا۔ اس معاملے میں شدت اور سختی کے امکانات زیادہ ہیں ۔

اقوام متحدہ کے منشور میں درج ہے کہ یو این آنے والی نسلوں کو جنگ سے بچائے گا، انسانوں کے بنیادی حقوق، اُن کی اِقدار کی عزت اور قدر و منزلت کو یقینی بنائے گا، نہ صرف مرد اور عورت کے حقوق کی برابری کو یقینی بنائے گا بلکہ چھوٹی اور بڑی قوموں کے مساوی حقوق کی پاسداری بھی کرے گا۔ ماہرین کے مطابق اقوام متحدہ کے قانون کی اہم ترین شق ویٹو پاور ہے جو عالمی اَمن کی بحالی اور مظلوم اقوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے اِس کے چارٹر میں رکھی گئی تھی، تاہم ماضی قریب میں اِس کا استعمال فلسطین اور دیگر ممالک پر اسرائیلی بربریت جاری رکھنے کے لیے ہوا۔

دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کے دوران یہاں تک کہ دو عظیم جنگوں میں بھی کسی ایک شہر میں اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی غزہ میں ہوئی ہے، یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل نے غزہ کی پٹی کو دنیا کا ’’سب سے بڑا اور کھلا قبرستان‘‘ قرار دیا جب کہ اقوام متحدہ کے کانفرنس برائے تجارت اور ترقی کے مطابق اگر اسرائیلی کارروائی فوری طور پر روک بھی دی جائے تو غزہ 2022 کی جی ڈی پی کی سطح 2092 تک ہی بحال کر پائے گا۔ غزہ میں چھ یرغمالیوں کی ہلاکت پر اسرائیلی سفیر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا تھا ، یہی وہ اقوام متحدہ ہے جس کی قراردادوں پر عمل کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتا، لیکن اب اس کی خواہش ہے کہ سلامتی کونسل غزہ میں یرغمالیوں کی صورتِ حال اور حماس کی مذمت کے لیے فوری اجلاس بلائے۔

اس طرح تو اب تک 43 ہزار سے زائد افراد کی شہادت پر سلامتی کونسل کے ہزاروں اجلاس ہو جانے چاہیے تھے۔ عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کرے، مظلوم کا ساتھ دے،ڈرا دھمکا کر حل نکالنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کریں۔کوئی تو اسرائیل کے بڑھتے قدم روک لے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں