کرم ضلع پاکستان کا ایک حساس سرحدی علاقہ ہے۔ اس ضلع کے ایک طرف افغانستان کے صوبے خوست،ننگر ہار و پکتیا ہیں، دوسری طرف اورکزئی ضلع اور شمالی وزیرستان اور تیسری طرف پنجاب سے متصل ڈیرہ اسماعیل خان واقع ہے۔ کرم ضلع کی آبادی 785434 افراد پر مشتمل ہے۔ اس ضلع میں توری، بنگش اور دیگر قبائل آباد ہیں۔
اس علاقے میں قیمتی معدنیات کوئلہ،کرومائیٹ اور ماربل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ گندم، مکئی، مسمی، انگور اور دیگر پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں اور ایک ہیوی ہائیڈرو پروجیکٹ بھی تعمیر ہوچکا ہے۔ پارا چنار کرم ضلع کا مرکزی شہر ہے، کرم ضلع کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ کرم کے ضلع سے تھل پارا چنار ہائی وے اور پشاور کرم ہائی وے گزرتی ہے۔ یہ اہم سڑکیں افغانستان کے شہروں کو پشاور اور صوبے کے دیگر شہروں سے ملاتی ہیں۔یہ علاقہ گزشتہ کئی برسوں سے شدید بدامنی کا شکار ہے۔
خیبر پختون خوا کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پشاور‘ پارا چنار شاہراہ 15دن سے بند ہونے کی بناء پر 6 بچوں سمیت 10 افراد پشاورکے اسپتال نہ پہنچنے کی بناء پر جاں بحق ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شہر میں ضروری اشیاء و ادویات کی قلت ہو رہی ہیں۔ ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں 3G سگنل بند ہے جس کی وجہ سے موبائل اور انٹرنیٹ سروس متاثر ہورہی ہے۔ایک قبائلی رہنما کا مطالبہ ہے کہ پشاور، پاراچنار شاہراہ فوری طور پرکھلوائی جائے اور اس شاہراہ پر سفرکرنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ علاقہ مکین کہہ رہے ہیں کہ گندم کی بوائی کا وقت ہے، دھان کی فصل پک چکی ہے مگر علاقہ میں پٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت ہے۔ اس پورے علاقے میں تعلیمی ادارے بند ہیں ۔دستیاب رپورٹوں کے مطابق اس علاقے کے دو بڑے قبائل کے درمیان زمین کا تنازع ہے جو ایک فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ذرایع ابلاغ میں شایع اور نشر ہونے والی رپورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت مسلح گروہوں کو کچلنے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔بدامنی اور گروہی لڑائی کی وجہ سے 3 ہفتوں سے پارا چنار روڈ بند ہے۔ علاقہ کے لوگوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اس علاقہ کے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک مقامی صحافی کا کہنا ہے کہ حالات اتنے مخدوش ہیں کہ زخمیوں کو اسپتال تک لے جانے کے لیے ایمبولینس کے گزرنے کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ ایک انگریزی اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس علاقے میں زمین کا تنازع اور فرقہ وارانہ تصادم آپس میں مدغم ہوچکا ہے جس کی بناء پرکسی صورت حالات قابومیں آتے نظر نہیں آتے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی اس لڑائی میں شامل ہوگئے ہیں ۔
یہ علاقہ افغانستان کی سرحد سے متصل ہے، اس لیے جدید اسلحے کی بھرمار ہے اور متحارب گروہوں کے پاس صرف کلاشنکوف رائفلیں ہی نہیں بلکہ جدید آٹومیٹک اینٹی ایئرکرافٹ گن اور اندھیرے میں نشانہ لگانے والی رائفلیں بھی شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زرعی زمینوں کی ملکیت کے جھگڑوں کو طے کرنے کے لیے ملک میں لینڈ کمیشن موجود ہے مگر یہ کمیشن کرم ضلع میں زبردستی تنازعات حل کرنے کا راستہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تین ہفتے قبل جب اس علاقہ میں فسادات ہوئے تھے تو خیبرپختونخوا حکومت نے ایک مقامی جرگہ کا اہتمام کیا تھا۔ اس کے شرکاء بعض معاملات پر متفق ہوئے تھے مگر یہ معاہدہ پائیدار ثابت نہ ہوا اور ایک معمولی واقعہ کی آڑ میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال شروع ہوگیا۔
کرم ضلع میں مسلسل مسلح تصادم کی خبروں کی اشاعت کے باوجود خیبرپختونخوا کی صوبائی اور وفاقی حکومت نے خاموشی اختیارکیے رکھی۔ پختون خوا کی صوبائی اسمبلی نے اپنے ایک اجلاس میں اس صورتحال کی شدید مذمت کی مگر اسمبلی کے ارکان اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی راستہ یا تجویز پیش نہ کرسکے، یوں عوامی نمایندگی کے نام پر قائم ہونے والی اسمبلی اور صوبائی انتظامیہ اور عام آدمی کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
ناقدین کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کی بنیادی طاقت طالبان سے عقیدت رکھنے والے متعدد بااثر پختون ہیں جن میں سے بیشتر افغانستان کے شہری بھی ہیں۔ یہ طالبان کی حامی فورس تحریک انصاف کے پنجاب میں ہونے والی احتجاجی ریلیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اس بناء پر علی امین گنڈا پور کی حکومت ان گروہوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکی۔ اس بناء پر صوبائی حکومت کسی قسم کے سخت اقدام کی شدید مخالف ہے۔ کچھ ناقدین یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے جب طالبان نے کابل میں حکومت بنائی تھی تو نہ صرف ان کی حمایت کی تھی بلکہ اور بھی کئی ہزار جنگجوؤں کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
گنڈا پورکی حکومت ان رجعت پسندوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے حق میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان عناصر نے بعض مقامات پر اپنی متبادل حکومتوں قائم کی ہوئی ہیں۔ کرم ضلع میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال کے اثرات اطراف کے علاقوں پر پڑنے لگے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خیبر پختون خوا کے بیشتر شہروں میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ شام ہوتے ہی اب بیشتر علاقوں میں پولیس کے اہلکار اپنی اپنی بیرکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں اور شاہراہوں پر ٹی ٹی پی کے جنگجو اپنی متوازی حکومت کو چلاتے نظر آتے ہیں۔
اس خراب صورتحال کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ان علاقوں میں سرمایہ کاری کے نکتے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے والے غیر سرکاری ادارے ایچ آر سی پی نے کرم کے علاقہ میں مختلف قبائل کے درمیان تصادم اور مسلسل اموات کی رپورٹوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایچ آر سی پی نے اس ساری صورتحال کی ذمے داری صوبائی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقہ میں لڑائی مستقل بند کرنے کے لیے فورا کارروائی کی جائے اور مسئلہ کے دائمی حل کے لیے مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے۔
المیہ یہ ہے کہ ملکی سیاسی جماعتیں اس انسانی المیے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ سب سے پہلے زمین کے مسئلہ پرکام کرے اور غیر جانب دار افراد پر مشتمل کمیٹی قائم کرے جو اس مسئلے کا حقیقی حل تلاش کرے تاکہ کرم ضلع میں لگنے والی آگ ختم ہوجائے اور ہر طرف سکون کی فضاء قائم ہوسکے۔