دبئی کا دوسرا پیغام

دبئی کا پہلا اصول ہے ہم یو اے ای کا حصہ ہیں‘ اتحاد ہماری بنیاد ہے لہٰذا دبئی نے آج تک یونین نہیں ٹوٹنے دی


www.facebook.com/javed.chaudhry

جولائی 2024 میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک چلی اور ڈھاکا میں احتجاج شروع ہو گیا‘ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے‘ حسینہ واجد کی حکومت نے کریک ڈاؤن کیا لیکن احتجاج میں اضافہ ہو گیا جس کے بعد بنگالیوں نے پوری دنیا میں احتجاج شروع کر دیا‘ دبئی میں بھی 20جولائی کوچند درجن بنگالی باہر نکلے اور حسینہ واجد کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی۔

دبئی میں ہر قسم کے سیاسی احتجاج پر پابندی ہے لہٰذا پولیس آئی اور اس نے مظاہرین کو منتشر کر دیا‘ حکومت نے اس کے بعد سی سی ٹی فوٹیج کے ذریعے 57 لوگوں کی شناخت کی‘ انھیں گرفتار کیا‘ عدالتوں میں پیش کیا اور ججز نے ان میں سے 53 لوگوں کو دس دس سال قید کی سزا دی‘ یہ ایکشن صرف یہاں تک محدود نہ رہا بلکہ دبئی حکومت نے بنگالیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کر دیا اور نئے لوگوں کے ویزوں پر پابندی لگا دی‘ اس کا یہ نتیجہ نکلا اس کے بعد کوئی بنگلہ دیشی سڑک پر نہیں آیا‘ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ دو سال سے پوری دنیا میں چھوٹے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں۔

دو دن قبل ذلفی بخاری کی قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سامنے بھی مظاہرہ کیا‘30 اکتوبرکو مڈل ٹیمپل کے گیٹ پر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ تک ہو گیا‘ اقوام متحدہ کے دفاتر اور وائیٹ ہاؤس کے سامنے بھی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن آپ کو پی ٹی آئی کی طرف سے دبئی میں کسی مظاہرے کی خبر نہیں ملے گی‘ کیوں؟ کیوں کہ پاکستانی جانتے ہیں ہم نے اگر مظاہرہ کیا تو حکومت ہمیں پیک کر کے پاکستان بھجوادے گی اور اس کے بعد ہم کبھی دبئی واپس نہیں آ سکیں گے۔

میں فطرتاً جمہوری ہوں‘ میں احتجاج اور مظاہروں کو انسان کا بنیادی حق سمجھتا ہوں‘ دنیا جہاں میں لوگ ظلم پر آواز اٹھاتے ہیں لیکن میں اس کے ساتھ ساتھ اس حق کے لیے سڑکیں بند کرنا اور دوسرے انسانوں کو اذیت دینا ناقابل معافی جرم سمجھتا ہوں‘ برطانیہ ہو یا امریکا دنیا میں احتجاج ہوتے ہیں لیکن وہاں لوگ راستے اور سڑکیں بلاک نہیں کر سکتے اگر کوئی یہ غلطی کرے تو پھر ریاست اسے مرونڈا بنا دیتی ہے جب کہ پاکستان میں شہر کے شہر بند کر دیے جاتے ہیں۔

کے پی کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور آٹھ ماہ سے پورا ملک بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں‘ یہ چار مرتبہ اسلام آباد اور ایک بار لاہور بھی بند کرا چکے ہیں‘ گنڈا پور 9 نومبر کو ایک بار پھر کفن باندھنے کا مظاہرہ کریں گے‘ پارٹی 2014سے یہ حرکت مسلسل کر رہی ہے چناں چہ ملک دس سال سے مظاہروں کی زد میں ہے اور اس کے نتیجے میں ایک پوری نسل احتجاجی فطرت کے ساتھ پیدا ہو گئی اور اس نسل نے مظاہروں کو کھیل سمجھ لیا ہے‘ سوال یہ ہے اس احتجاج سے آج تک پی ٹی آئی کو کیا فائدہ ہوا؟ عمران خان سوا سال سے جیل میں ہیں اور پارٹی تتر بتر ہے اور ملک کی معاشی اور نفسیاتی چولیں ہل چکی ہیں‘ عوام کا ذہنی سکون بھی ختم ہو گیا ہے‘ حکومت آئے روز انٹرنیٹ بند کر دیتی ہے یا اس کی اسپیڈ کم کر دیتی ہے۔

سوشل میڈیا پر فائر وال بھی لگ گئی ہے جس سے لوگوں کی سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ معاشی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے چناں چہ اس احتجاج کا نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ دبئی میں صورت حال بالکل الٹ ہے‘ وہاں احتجاج کی اجازت نہیں چناں چہ لوگ احتجاج کے بارے میں مکمل لاعلم ہیں‘ وہاں سڑک اور مارکیٹ کسی دن بند نہیں ہوتی لہٰذا لوگوں کا روزگار مسلسل چلتا رہتا ہے‘ آپ اس صورت حال کا ایک اور دل چسپ پہلو بھی دیکھیے‘ 2010میں جب عرب اسپرنگ آئی اور تیونس‘ مصر اور لیبیا میں احتجاج شروع ہوئے تو ان تینوں ملکوں کے بزنس مین دبئی شفٹ ہو گئے اور یہ وہاں بیٹھ کر اطمینان سے بزنس کرنے لگے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے بزنس مین بھی احتجاج کے دنوں میں دبئی چلے جاتے ہیں اور وہاں تفریح کرتے ہیں یا پھر چھوٹا بڑا بزنس شروع کر دیتے ہیں اور جب حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو واپس آ جاتے ہیں‘ کراچی کے حالات نے بھی دبئی کی کاروباری صحت میں بہت اضافہ کیا‘ کراچی کے تمام چھوٹے بڑے بزنس مینوں نے اپنے اثاثے اور بچے دبئی شفٹ کر دیے جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کی آدھی دولت دبئی چلی گئی‘ آج بھی کراچی میں ایسے درجنوں بزنس مین ہیں جن کے گھر اور فیملیز دبئی میں ہیں اور یہ لوگ روز صبح کی فلائیٹ سے کراچی آتے ہیں۔

سارا دن دفتر یا کارخانے میں کام کرتے ہیں اور شام کی فلائیٹ پر دبئی واپس چلے جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ دبئی میں امن اور لاء اینڈ آرڈر ہے‘ وہاں ان کے اثاثے بھی محفوظ ہیں اور سڑکیں بھی جب کہ پاکستان میں کچھ بھی محفوظ نہیں‘ نہ سڑکیں‘ نہ جان‘ نہ پراپرٹی اور نہ جذبات‘ معاشی استحکام تک موجود نہیں‘ گورنمنٹ کا دماغ اچانک خراب ہوجاتا ہے اورارب پتی ایک ہی رات میں سڑک پر آ جاتے ہیں لہٰذا پھر ایسے ملک میں لوگ سرمایہ کاری کیوں کریں گے؟۔

سوال پھر وہی ہے کیا دبئی شروع دن سے ایسا تھا‘ جی نہیں‘ 1971میں تمام ریاستیں اکٹھی ہوئیں اور انھوں نے مل کر یو اے ای بنایا‘ 1980 کی دہائی میں مختوم فیملی نے ماڈرن دبئی کی بنیاد رکھی اور شہر کو دنیا بھر کے بزنس مینوں اور معاشی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا اور یوں یہ شہر گلوبل بزنس ہب بنتا چلا گیا‘ یہ معجزہ کیسے ہوا؟اس کا جواب 8 اصول ہیں‘ میں 20 سال سے دبئی ائیرپورٹ پر شیخ محمد کے ’’دبئی کے آٹھ اصول‘‘ دیکھ رہا ہوں‘ سلطان محمد بن راشد نے یہ اصول وضع کر کے ائیرپورٹ سمیت ملک کے اہم مقامات پر لگوا دیے تھے اور ان میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

میں ہر بار ائیرپورٹ پر رک کر یہ آٹھ اصول پڑھتا ہوں‘وہ اصول کیا ہیں؟ دبئی کا پہلا اصول ہے ہم یو اے ای کا حصہ ہیں‘ اتحاد ہماری بنیاد ہے لہٰذا دبئی نے آج تک یونین نہیں ٹوٹنے دی‘ یہ یو اے ای کی دوسری ریاستوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ دوسرا اصول دبئی کا کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں‘ آج تک دبئی میں کسی شخص کو قانون سے استثنیٰ نہیں ملا‘ وہ خواہ شاہی خاندان سے ہو یا عام مزدور ہو‘ اس نے اگر جرم کیا تو اسے سزا ضرور ملے گی‘ تیسرا اصول ہم بزنس کیپیٹل ہیں چناں چہ دبئی میں 40 سال سے کاروباری سرگرمیاں بند نہیں ہوئیں‘ اکنامک پالیسیوں میں بھی تسلسل ہے اور معاشی استحکام بھی‘ چوتھا اصول‘ دبئی ترقی کے تین ستونوں پر کھڑا ہے۔

حکومتی نظام تیز اور شان دار ہے‘ پرائیویٹ سیکٹر ایکٹو اور فیئر ہے اور حکومت کی کمپنیاں (مثلاً ایمریٹس ائیرلائینز اور ایمریٹس رئیل اسٹیٹ) پرائیویٹ کمپنیوں کی اسپرٹ سے چل رہی ہیں‘ انھیں خاندان کی جاگیر کے بجائے کاروباری طریقے سے چلایا جا رہا ہے‘ پانچوں اصول معاشرہ لبرل ہے‘ کسی کو کسی پر اپنا مذہب یا عقائد تھوپنے کی اجازت نہیں‘کوئی تبلیغ کر سکتا ہے اور نہ دوسروں کے طرزعمل پر اعتراض‘ چھٹا اصول دبئی مسلسل معاشی ترقی پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ ہر تین سال بعد کوئی نیا معاشی سیکٹر کھولتا ہے‘ دبئی آج کل آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کر رہا ہے‘ ساتواں اصول ہم لینڈ آف ٹیلنٹ ہیں۔

دنیا جہاں کے ماہرین اور ٹیلنٹڈ لوگ کسی بھی وقت دبئی آسکتے ہیں‘ دبئی نے 2019میں گولڈن ویزا شروع کیا‘ اس اسکیم کے تحت دنیا کے تمام ممالک کے کام یاب اور مشہور لوگوں کو دبئی کا دس سال کا ویزہ مل جاتا ہے اور یہ خاندان سمیت دبئی آ کر کاروبار کر سکتے ہیں اور رہائش پذیر ہو سکتے ہیں اور آٹھواں اصول ہم مستقبل کی نسلوں کا خیال رکھتے ہیں‘ دبئی اپنی نسل کو سیاست اور مذہبی منافرت سے دور رکھ رہا ہے چناں چہ یہاں کسی قسم کے احتجاج اور فساد کی اجازت نہیں‘ یہ آٹھ اصول چالیس سال پہلے بنے تھے اور حکومت آج تک ان پر عمل کر رہی ہے‘ ان میں ذرا برابر تبدیلی نہیں آئی‘ آپ کمال بلکہ زوال دیکھیے‘ ہم نے دبئی کے ان 8 اصولوں سے دس سال پہلے 280دفعات کا آئین بنایا تھا‘ دبئی نے ان 40 برسوں میں اپنے آٹھ اصولوں پر عمل کے علاوہ کچھ نہیں کیا جب کہ ہم نے 50سالوں میں آئین کاحلیہ بدلنے‘ اس میں ترمیم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا اور ہم اب بھی اس میں تبدیلیاں کر رہے ہیں۔

دوسرا ہم نے 50 برسوں میں اس پر عمل کی جسارت نہیں کی لہٰذا دبئی 40 برسوں میں گلوبل اکنامک ہب بن گیا جب کہ ہم 50 برسوں میں عالمی بھکاری بن گئے‘ دبئی نے ثابت کر دیا قوم اگر ترقی کرنا چاہے تو آٹھ اصول بھی کافی ہوتے ہیں اور ہم نے ثابت کر دیا اگر کوئی قوم آگے نہ بڑھنا چاہے تو اسے 280دفعات کا آئین بھی ایک انچ آگے نہیں بڑھا سکتا لہٰذا میری درخواست ہے اب مہربانی فرما کر آئین کو مزید بہتر بنانے کی کوشش بند کریں اور اس پر عمل شروع کریں‘ ہم عمل کی وجہ سے آگے بڑھیں گے‘ ورنہ دائرے کا یہ سفر ہمیں مزید صفر بناتا چلا جائے گا‘ اب صرف افغانستان اور سری لنکا بچے ہیں ورنہ ہم باقی پوری دنیا سے مانگ چکے ہیں اور دنیا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔

آپ کمال دیکھیے ہم 50 برسوں (1973کے آئین کی تاریخ سے) میں یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہمیں کس قسم کی سپریم کورٹ چاہیے‘ چیف جسٹس کی سلیکشن کیسے ہو گی اور ججوں کی کل تعداد کیا ہونی چاہیے‘ آرمی چیف کی مدت ملازت کیا ہونی چاہیے‘ پولیس کا اصل کام کیا ہے اس نے احتجاج روکنا ہے یا جرائم کا مقابلہ کرنا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ ملک چلائے گی یا عمران خان کا مقابلہ کرے گی اور اگر احتجاج کی کال آئے گی تو کیا ریاست کے پاس انٹرنیٹ اور کنٹینرز کے علاوہ بھی کوئی آپشن ہو گا‘ ملک کے لیے کاروباری طبقہ کتنا ضروری ہے۔

عوام پر ٹیکس کتنا ہونا چاہیے اور ہم اپنی بجلی کیسے پوری کریں گے؟ آپ خود سوچیے جو قوم آج تک یہ بنیادی فیصلے نہ کر سکی ہو اس کی ترقی کا سفر کب اور کیسے شروع ہو گا لہٰذا دبئی کا دوسرا پیغام یہ ہے خدا کے لیے جو بھی فیصلہ کرنا ہے ایک ہی بار کر لیں‘ بار بار فیصلے نہ بدلیں اس سے آپ کا سفر مزید کھوٹا ہو جائے گا‘ آپ مزید خسارے کا شکار ہوجائیں گے اور آپ کو 280 کے بجائے 8 اصول چاہییں بس ان پر عمل ہونا چاہیے‘ آپ پھر آگے بڑھیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں