ٰاللہ رب العزت نے سورۃ التین میں انسان کی تخلیق کا بیان فرمایا ہے اورانسان کی تخلیق کے بارے میں ارشاد فرمانے سے پہلے چار قسمیں کھائیں، تین کی قسم، زیتون کی قسم، طور سینین کی قسم اور شہر امین یعنی مکۃ المکرمہ کی قسم، یہ چار قسمیں کھا کر اللہ رب العزت نے فرمایا "بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے"۔ یعنی اللہ رب العزت نے کہا ہم نے انسان کی آفرینش اس انداز سے کی ہے کہ صورت اور معنوعی اعتبار سے یہ احسن الخلق اور اکمل الخلق ہے۔
انسانی عظمت کا تصور جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے، دنیا کا کوئی فلسفی، نفسیات کا کوئی ماہر، عمرانیات کا کوئی استاد، طبعیات کا کوئی معلم اس کی دھول کو بھی نہیں چھو سکتا۔ قرآن نے عظمت انسان کا جو نظریہ پیش کیا ہے جب اس کا مطالعہ کیا جائے تو باقی سب مدعیان دانش نادان بچوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آتے ہیں۔ پھر اللہ رب العزت نے انسان کو جہاں گونا گوں صفاتِ عالیہ سے نوازا ہے وہاں اْس میں کچھ کوتاہیاں اور کمزوریاں بھی رکھ دی ہیں، جو اْس کے بشر ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے انسان کو ان خامیوں کے اِدراک کی صلاحیت اور دور کرنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے۔
اِنسانی شعور ان کو محسوس اور اسباب و وجوہات تلاش کرکے علاج بھی کرسکتا ہے۔ یہ جسمانی اور روحانی کمزوریاں نفسیات واخلاقیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں، کچھ کو بدلنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا مگر کچھ کمزوریوں پر کنٹرول حاصل کیا جاسکتا ہے اور کچھ وقت گزرنے اور عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھتی ہے اس سے نجات پانے کے لیے باقاعدہ محنت اور اللہ رب العزت کا فضل چاہیے، ان کی بیخ کنی مشقت طلب اور صبر آزما ہے۔ اگر ان کا بروقت علاج نہ ہو تو پھر یہی روحانی بیماریاں اسی انسان کو اسفل سافلین میں دھکیل دیتی ہیں جس کی عمدہ انداز میں تخلیق کی اللہ نے قسمیں کھائی تھیں۔
ان روحانی اور قلبی بیماریوں میں سب سے خطرناک بیماری حسد ہے، جس کے بارے میں مفسرین و محدثین کا کہنا ہے کہ یہ قلبی بیماریوں میں خطرناک ترین اور ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی برائی ہے۔ آج بیشمار لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں، تنہائی میں توجہ کے ساتھ اپنے دل کا جائزہ لیں تو ہوسکتا ہے آپ کے دل میں بھی یہ بیماری گھر کیے ہوئے ہو۔
حسد کی بیماری ایک بار پیدا ہوجائے تو یہ وقت گزرنے اور عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھتی ہے، حاسد کبھی راحت و سکوں میں نہیںبلکہ ہر وقت ذہنی اذیت اور جلن میں مبتلا رہتا ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ کسی کو حسد میں مبتلا دیکھو تو اسے بددعا نہ دو، کیوں کہ جس لاعلاج و ایمان لیوا بیماری میں وہ مبتلا ہو چکا ہے وہ روحانی بیماریوں کی ماں اور نرسری ہے، یہی اس کے لیے کافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "کسی انسان کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے"۔ (سنن نسائی:۲۱۹۲)
یعنی حسد آئے گا تو دل سے ایمان کوچ کرجائے گا، اگر ایمان کو ٹھکانہ دینا ہے تو دل سے حسد کو نکالنا ہوگا۔ مفسرین و محدثین نے حسد کی دو قسمیں بیان کی ہیں پہلی قسم یہ کہ حاسد دوسرے کی نعمت چھن جانے کی خواہش کرے، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ نعمت مجھے ملے یا نہ ملے لیکن دوسرے سے اللہ چھین لے۔ یہ حسد کی مذموم ترین قسم ہے کہ انسان اپنے لیے بھی اللہ رب العزت کے انعام و فضل کا خواہش مند نہیں ہوتا اور وہ اپنے بھائی کے نقصان کا متمنی ہوتا ہے۔ دوسری قسم یہ کہ حاسد چاہتا ہے کہ نعمت، صاحب نعمت سے چھن کر مجھے مل جائے، یہ کیفیت ایمان و اعتقاد کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔
اگر کسی کے دل میں حسد آجائے تو اسے نکالنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت سے دعا کیجیے "یا اللہ ! آپ نے اس بندے کو جو نعمت دی ہے اسے یہ نعمت مبارک کر، اور اپنی شان کریمی مجھے اس سے بہتر عطا کر"۔ جب یہ دعا مانگی جاتی ہے تو ناصرف اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں بلکہ مانگنے والے دل میں حسد کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔ حسد عموماً ہمسر اور ہم پلہ اَفراد میں ہوتا ہے۔ مثلاً بہن بھائیوں میں، دوستوں میں، افسران میں، تاجر، تاجر سے حسد کرے گا، سیاستدان، سیاستدان سے حسد کرے گا، طالب علم، طالب علم سے اور اہل قلم، اہل قلم سے حسد کریں گے، حسد کی جڑ اللہ رب العزت پر بدگمانی اور اس فانی دنیا کی محبت میں پیوست ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔
حاسد اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ نعمت جو دوسرے کو عطا کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں ہوں۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اور اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔
اسی فکراور نظرئے کی بنا پرشیطان لعین و مردود قرارپایا تھا۔ ایسی سوچ، فکر، نظریہ اور کردار در حقیقت شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے جس کا انجام نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد، اللہ کے فیصلے کونہیں بدل سکتا۔ حسد پہلا گناہ ہے جس کی بنا پر آسمانوں پر اللہ کی پہلی نافرمانی کی گئی اور زمین پر پہلا کبیرہ گناہ (قتل) بھی حسد کی بنا پر ہوا۔ آسمان پر ابلیس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے حسد کے بنیاد پر آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اور زمین پر پہلا خون اسی بنا پر ہوا کہ آدمؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی بنا پر قتل کر دیا۔ برادران ِ یوسف کے دلوں میں موجود اسی حسد کی بیماری نے انھیں یوسفؑ کے قتل کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ قرآن ِ کریم نے یہودیوں کے حسد کو کئی مقامات پر بیان کیا ہے، یہودیوں کی حسد کا سبب امامت کا بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کی جانب منتقل ہونا تھا، اس انعام سے محرومی پر یہودی غیض و غضب کا شکار ہو کر حسد میں مبتلا ہو گئے تھے، ان کی کیفیت کوقرآن کریم نے سورہ النساء میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
بیشک یہ رب کا فضل اور اختیار ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، وہ جسے دیتا ہے ساری دنیا کی طاقتیں مل کر اس سے چھین نہیں سکتیں، وہ جس سے چھینتا ہے ساری دنیا کی طاقتیں مل کر روک نہیں سکتیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حسد سے بچنے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے لیے ہمیں قرآن سے رجوع کرنا پڑے گا۔ قرآن شفا اور دل کی بیماریوں کا علاج ہے، حاسدین کے حسد سے بچنے، منافقت، کینہ اور بداخلاقی کا علاج قرآن ہے۔ اخلاق قرآن سنوارتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ حسد کرو گے تو برباد ہوجاؤگے۔
قرآن کے آخری پارے میں سورہ الفلق میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا "کہہ دو صبح کے پیدا کرنے والے کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس کی مخلوقات کے شر سے۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے"۔ اللہ رب العزت نے جسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے، ان نعمتوں کی حفاظت کا طریقہ بھی بتا دیا ہے۔ قرآن کریم کی آخری دو صورتیں سورہ الفلق اور سورہ الناس شر پسندوں کے شر اور حاسدین کی حسد سے حفاظت کے لیے بہترین وظیفہ ہیں۔ حسد، کینہ اور بغض، یہ ایسی باطنی، قلبی اور روحانی بیماریاں ہیں جو اوّل تو انسان کو نیک اعمال کی طرف آنے ہی نہیں دیتی بلکہ اْلٹا پہلے سے جو نیک اعمال اْس نے کیے ہوتے ہیں۔
اْن کو بھی ضایع کردیتی ہیں اور اس طرح رفتہ رفتہ انسان اعمالِ صالح سے دور ہوتے ہوتے گناہوں کی دلدل میں دھنس جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اْس سے اعمالِ صالح کی توفیق چھین لیتے ہیں اور وہ کوئی نیک عمل نہیں کرسکتا۔ ہم میں سے ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس ایمان لیوا بیماری کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں، اگر کسی کے دل میں یہ بیماری ہے تو اسے سب کام چھوڑ کر پہلے اس بیماری سے نجات حاصل کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایمان بچانے کا معاملہ ہے۔
انشاء اللہ جلد بغض و حسد کے حوالے سے اپنے مرشد و مربی باباجان رحمہ اللہ سے نصیحتاً سنے چند ملفوظات و جواہرات تبدیلی کے قارئین کے گوش گزار کرونگا، انشاء اللہ ہم سب اس کے طفیل بغض و حسد کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے۔