ریپ اور ریپسٹ
انگریزی میں ریپ کی اصطلاح موجودہ معنوں میں پندرھویں صدی سے استعمال ہونی شروع ہوئی
انگریزی میں ریپ کی اصطلاح موجودہ معنوں میں پندرھویں صدی سے استعمال ہونی شروع ہوئی۔اس سے قبل ریپ سے مراد لوٹ مار اور استحصال وغیرہ ہوتا تھا۔لیکن آج ریپ کا ایک ہی مطلب ہے یعنی کسی کے جسم پر طاقت و تشدد کے ذریعے جنسی قبضہ۔ضروری نہیں کہ یہ طاقت جسمانی ہی ہو۔نفسیاتی طور پر شکار کا ذہنی کنٹرول حاصل کرکے اس کی رضامندی کے بغیر یا اس کی وقتی بے بسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنسی مقاصد پورے کرنا بھی ریپ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔جیسے کسی ہم جنس یا جنسِ مخالف سے دوستی کرنا اور پھر نشے کی حالت میں یا سوتے ہوئے یا بہلا پھسلا کر دھونس، دھمکی اور تصاویر سمیت بلیک میلنگ کا کوئی بھی طریقہ استعمال کرتے ہوئے اس کا جسمانی کنٹرول جنسی مقاصد کے لیے حاصل کرلینا۔
ریپ کے شکار اور شکاری کے لیے عمر کی قید نہیں۔لیکن عام طور سے ریپ کا شکار کم سن بچے یا بچی سے لے کر پچاس برس تک عمر کی خواتین ہوتی ہیں۔جب کہ شکاری پرائمری اسکول کے جسمانی طور پر طاقتور بچے سے لے کر ساٹھ پینسٹھ برس تک کا آدمی کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ضروری نہیں کہ ریپ کا شکاری مرد ہی ہو اور شکار عورت ہی۔ایک ہی جنس کے لوگ بھی شکار اور شکاری ہوسکتے ہیں اور مرد بھی عورت کے ہاتھوں ریپ ہوسکتا ہے۔
زیادہ تر وارداتوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم ریپسٹ یا ریپ کے شکار ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں۔زیادہ تر جاننے والے ہی شکار اور شکاری بنتے ہیں۔ان میں قریبی رشتے داروں سے لے کر محلے اور شہر داروں تک کوئی بھی ہوسکتا ہے۔اس طرح کی وارداتوں میں سے زیادہ تر پوشیدہ رہ جاتی ہیں یا رکھی جاتی ہیں اور بعض معاشروں میں تو ان وارداتوں کو چھپانے کا تناسب اسی سے نوے فیصد تک پایا جاتا ہے۔
گویا بہت کم وارداتیں سامنے آنے کے سبب بہت کم سزا ملتی ہے اور بہت کم زخم خوردگان کی جسمانی و نفسیاتی بحالی ممکن ہوتی ہے۔مگر دیکھا گیا ہے کہ وارداتیں چھپانے یا نظر انداز کرنے یا بھول جانے سے ریپ کم نہیں ہوتے بلکہ اور بڑھ جاتے ہیں۔لیکن چھپانے اور ظاہر کرنے کا دار و مدار بھی اس پر ہے کہ معاشرے کی ثقافتی ، مذہبی ، سیاسی و اقتصادی ساخت کیا ہے اور قانون کی عمومی عمل داری کتنی ہے یا نہیں ہے۔عموماً ریپسٹ تین طرح کے ہوتے ہیں۔وہ جو کسی غصے یا انتقام کے جذبے کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔ان کی وارادت انفرادی و اجتماعی دونوں طرح سے ہوسکتی ہے۔پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں ریپ کی زیادہ تر وارداتوں کے پیچھے یہی محرک دیکھا گیا ہے۔
دوسری قسم کے ریپسٹ کو آپ چاہیں تو پاور ریپسٹ کہہ سکتے ہیں۔ان میں بیوی ، گرل فرینڈ ، گھریلو ملازمہ یا ملازم یا کسی ماتحت یا بے بس نظر آنے والے اجنبی وغیرہ کو اپنی جسمانی ، مالی و سماجی قوت سے زیر کرنے والوں سے لے کر بچوں اور عورتوں کی رکھوالی کے ذمے دار فلاحی رضاکاروں ، اساتذہ ، جیل کے قیدیوں ، باوردی سرکاری اہلکاروں اور کارپوریٹ و دفتری باسز سمیت کوئی بھی ہوسکتا ہے۔تھانوں اور عسکری اداروں کی تحویل میں ملزموں کے ریپ کے لیے قانون کی کتابوں میں کسٹوڈیل ریپ کی اصطلاح موجود ہے۔
ریپسٹ کی تیسری قسم سیڈسٹک یا شکار کی اذیت ناکی سے لطف اٹھانے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔آدمی اذیت پسند کیوں بنتا ہے ؟ اس کے انفرادی و اجتماعی محرکات ایک علیحدہ نفسیاتی و سماجی بحث کے متقاضی ہیں۔اس طرح کے ریپسٹ اپنے شکار کو طرح طرح کی من پسند جسمانی و ذہنی اذیت ناکی سے گذار کر جنسی تلذز حاصل کرتے ہیں۔وہ مار پیٹ سے لے کر شکار کے حساس و نازک اعضا اور چہرے تک کو مسخ کرسکتے ہیں اور قتل بھی کرسکتے ہیں اور بعد از قتل بھی جسم کو مسخ کرسکتے ہیں۔ان سب حرکتوں سے انھیں ایک طرح کا سکون حاصل ہوتا ہے اور اگر وہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں تو اگلے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔عموماً سیڈسٹ ریپسٹ اپنا کام انفرادی طور پر کرتے ہیں لیکن ایسی بھی مثالیں ہیں کہ ایک سے زائد اذیت پسند ریپسٹ گروپ کی شکل میں واردات کرتے ہیں حالانکہ ایسی مثالیں کم کم ہیں۔
ریپ کسی دشمن گروہ کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوتا ہے۔اور آج سے نہیں پرانے زمانے سے ایسا ہورہا ہے۔عورتیں اور نو عمر بچے ہمیشہ سے مالِ غنیمت کے زمرے میں شامل رہے ہیں۔ریپ بطور ہتھیار حریف کو علاقے سے نکالنے یا اسے ذلیل و رسوا کرکے مسلسل زیر رکھنے کی کوشش کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے۔خانہ جنگی ہو کہ کھلی جنگ ریپ کا ہتھیار ہر ایسی صورتِ حال میں آزمایا جاتا ہے۔میری یا مجھ سے بڑی عمر کے لوگوں کی یادداشت میں جو بڑے بڑے واقعات ہیں، ان میں سن سینتالیس کی تقسیم کی خونریزی ، مشرقی پاکستان ، بوسنیا اور روانڈا کی خانہ جنگی اور کشمیر کا قضیہ شامل ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد سے بیسویں صدی کے تقریباً ہر بحران میں ریپ بطور ہتھیار استعمال ہوا۔جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پچھلی صدی کے پہلے نصف میں منظم طریقے سے کوریا اور چین کے علاقے منچوریا اور نانجنگ پر نوآبادیاتی قبضے کے دوران لاکھوں مقامی عورتوں کو حملہ آور فوج کی جنسی تسکین کے لیے قحبہ خانوں میں بٹھا دیا۔ان عورتوں کے لیے '' کمفرٹ ویمن '' کی اصطلاح وضع کی گئی۔
عجیب بات ہے کہ انیس سو انچاس کے جنیوا کنونشن سے پہلے ریپ جنگی جرائم کے فہرست میں شامل نہیں تھا۔اسی لیے نازیوں کے خلاف نورمبرگ ٹرائل اور جاپانی جنگی مجرموں کے خلاف ٹوکیو ٹرائل میں ریپ کی فردِ جرم عائد نہیں ہوسکی۔ البتہ جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے روانڈا میں نسل کشی کے مقدمے کی سماعت کے دوران انیس سو اٹھانوے میں یہ تاریخی رولنگ دی کہ دورانِ جنگ ریپ بھی انسانیت کے خلاف جرائم کی فہرست میں شامل ہے۔
عام طور سے ریپ کے شکار کے ساتھ وقتی ہمدردی تو کی جاتی ہے لیکن پھر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔حالانکہ جتنی نفسیاتی مدد کی اسے ضرورت ہوتی ہے شائد ہی کسی کو ہو۔ریپ کے تجربے سے گذرنے والا نفسیاتی و جسمانی طور پر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔اس پر کبھی غصہ غالب آجاتا ہے ، کبھی دشمنی کا جذبہ عود کر آتا ہے اور کبھی کنفیوژن تو کبھی خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔وہ اچانک چیخ اور دھاڑ بھی سکتا ہے اور سکتے کی کیفیت میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔اسے نہ تو اپنے جذبات پر قابو رہتا ہے نہ ہی اعصابی نظام پر۔اس کی بھوک اور نیند بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اگر اسے بروقت نفسیاتی مدد اور قریبی لوگوں کی توجہ نہ ملے تو خود کو زندگی سے الگ تھلگ کرتا چلا جاتا ہے اور انتہائی قدم کے طور پر اپنی جان بھی لے سکتا ہے۔یہ تمام مسائل ریپ کے شکار کی نفسیاتی و جسمانی بے بسی سے جنم لیتے ہیں۔اور یہی وہ وقت ہے جب اس کے پیارے اسے گلے لگا کر اور اپنے قریب رکھ کے بتائیں کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں وہ بے قصور ہے اور ان حالات میں جو بھی ہوتا اس کے ساتھ یہی ہوتا۔
اسے اشد ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہو جو زندگی پر اس کا اعتماد پھر سے بحال کرے۔ان حالات میں اسے معنی خیز نگاہوں سے دیکھنا ، رویہ بدل لینا ، اسی کو بار بار قصور وار ٹھہرانا اور پھر کٹہرے میں کھڑا کرکے مزے لے لے کر سوال و جواب کرنا اور اس کے نام کی تشہیر کرنا۔یہ سب حرکتیں دراصل ایک اور ریپ کے مترادف ہیں۔
ریپ ختم تو نہیں ہوسکتا البتہ کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے قوانین کو کاغذ پر سخت کرنے سے زیادہ ان پر واقعی عمل درآمد کی ضرورت ہے۔اپنے بچوں اور بچیوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ گھر کے اندر اور باہر کس سے کس حد تک تعلق رکھ سکتے ہیں اور حد عبور ہونے کی صورت میں کون کون سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔انھیں عمر کے ساتھ ساتھ بدلتی جسمانی و جذباتی تبدیلیوں کے اسباب کے بارے میں بااعتماد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لاعلمی و تاریکی میں کسی اپنے یا پرائے کا شکار نہ بن جائیں۔
انھیں ان لالچی ترغیبات کے بارے میں کھل کے بتانے کی ضرورت ہے جو ان کے لیے پھندہ ثابت ہو سکتی ہیں۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ زندگی نہ تو بالکل تاریک ہے نہ ہی مکمل روشن۔دنیا نامی اس جنگل میں محتاط بھی رہنا ہے ، خونخوار جانوروں کی بھی پہچان رکھنی ہے اور زندگی کا لطف بھی اٹھانا ہے۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ناگہانی مصیبت کبھی بھی کسی بھی وقت آسکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم حوصلہ ہار جاؤ۔ہم ہیں نا...
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
ریپ کے شکار اور شکاری کے لیے عمر کی قید نہیں۔لیکن عام طور سے ریپ کا شکار کم سن بچے یا بچی سے لے کر پچاس برس تک عمر کی خواتین ہوتی ہیں۔جب کہ شکاری پرائمری اسکول کے جسمانی طور پر طاقتور بچے سے لے کر ساٹھ پینسٹھ برس تک کا آدمی کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ضروری نہیں کہ ریپ کا شکاری مرد ہی ہو اور شکار عورت ہی۔ایک ہی جنس کے لوگ بھی شکار اور شکاری ہوسکتے ہیں اور مرد بھی عورت کے ہاتھوں ریپ ہوسکتا ہے۔
زیادہ تر وارداتوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم ریپسٹ یا ریپ کے شکار ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں۔زیادہ تر جاننے والے ہی شکار اور شکاری بنتے ہیں۔ان میں قریبی رشتے داروں سے لے کر محلے اور شہر داروں تک کوئی بھی ہوسکتا ہے۔اس طرح کی وارداتوں میں سے زیادہ تر پوشیدہ رہ جاتی ہیں یا رکھی جاتی ہیں اور بعض معاشروں میں تو ان وارداتوں کو چھپانے کا تناسب اسی سے نوے فیصد تک پایا جاتا ہے۔
گویا بہت کم وارداتیں سامنے آنے کے سبب بہت کم سزا ملتی ہے اور بہت کم زخم خوردگان کی جسمانی و نفسیاتی بحالی ممکن ہوتی ہے۔مگر دیکھا گیا ہے کہ وارداتیں چھپانے یا نظر انداز کرنے یا بھول جانے سے ریپ کم نہیں ہوتے بلکہ اور بڑھ جاتے ہیں۔لیکن چھپانے اور ظاہر کرنے کا دار و مدار بھی اس پر ہے کہ معاشرے کی ثقافتی ، مذہبی ، سیاسی و اقتصادی ساخت کیا ہے اور قانون کی عمومی عمل داری کتنی ہے یا نہیں ہے۔عموماً ریپسٹ تین طرح کے ہوتے ہیں۔وہ جو کسی غصے یا انتقام کے جذبے کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔ان کی وارادت انفرادی و اجتماعی دونوں طرح سے ہوسکتی ہے۔پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں ریپ کی زیادہ تر وارداتوں کے پیچھے یہی محرک دیکھا گیا ہے۔
دوسری قسم کے ریپسٹ کو آپ چاہیں تو پاور ریپسٹ کہہ سکتے ہیں۔ان میں بیوی ، گرل فرینڈ ، گھریلو ملازمہ یا ملازم یا کسی ماتحت یا بے بس نظر آنے والے اجنبی وغیرہ کو اپنی جسمانی ، مالی و سماجی قوت سے زیر کرنے والوں سے لے کر بچوں اور عورتوں کی رکھوالی کے ذمے دار فلاحی رضاکاروں ، اساتذہ ، جیل کے قیدیوں ، باوردی سرکاری اہلکاروں اور کارپوریٹ و دفتری باسز سمیت کوئی بھی ہوسکتا ہے۔تھانوں اور عسکری اداروں کی تحویل میں ملزموں کے ریپ کے لیے قانون کی کتابوں میں کسٹوڈیل ریپ کی اصطلاح موجود ہے۔
ریپسٹ کی تیسری قسم سیڈسٹک یا شکار کی اذیت ناکی سے لطف اٹھانے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔آدمی اذیت پسند کیوں بنتا ہے ؟ اس کے انفرادی و اجتماعی محرکات ایک علیحدہ نفسیاتی و سماجی بحث کے متقاضی ہیں۔اس طرح کے ریپسٹ اپنے شکار کو طرح طرح کی من پسند جسمانی و ذہنی اذیت ناکی سے گذار کر جنسی تلذز حاصل کرتے ہیں۔وہ مار پیٹ سے لے کر شکار کے حساس و نازک اعضا اور چہرے تک کو مسخ کرسکتے ہیں اور قتل بھی کرسکتے ہیں اور بعد از قتل بھی جسم کو مسخ کرسکتے ہیں۔ان سب حرکتوں سے انھیں ایک طرح کا سکون حاصل ہوتا ہے اور اگر وہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں تو اگلے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔عموماً سیڈسٹ ریپسٹ اپنا کام انفرادی طور پر کرتے ہیں لیکن ایسی بھی مثالیں ہیں کہ ایک سے زائد اذیت پسند ریپسٹ گروپ کی شکل میں واردات کرتے ہیں حالانکہ ایسی مثالیں کم کم ہیں۔
ریپ کسی دشمن گروہ کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوتا ہے۔اور آج سے نہیں پرانے زمانے سے ایسا ہورہا ہے۔عورتیں اور نو عمر بچے ہمیشہ سے مالِ غنیمت کے زمرے میں شامل رہے ہیں۔ریپ بطور ہتھیار حریف کو علاقے سے نکالنے یا اسے ذلیل و رسوا کرکے مسلسل زیر رکھنے کی کوشش کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے۔خانہ جنگی ہو کہ کھلی جنگ ریپ کا ہتھیار ہر ایسی صورتِ حال میں آزمایا جاتا ہے۔میری یا مجھ سے بڑی عمر کے لوگوں کی یادداشت میں جو بڑے بڑے واقعات ہیں، ان میں سن سینتالیس کی تقسیم کی خونریزی ، مشرقی پاکستان ، بوسنیا اور روانڈا کی خانہ جنگی اور کشمیر کا قضیہ شامل ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد سے بیسویں صدی کے تقریباً ہر بحران میں ریپ بطور ہتھیار استعمال ہوا۔جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پچھلی صدی کے پہلے نصف میں منظم طریقے سے کوریا اور چین کے علاقے منچوریا اور نانجنگ پر نوآبادیاتی قبضے کے دوران لاکھوں مقامی عورتوں کو حملہ آور فوج کی جنسی تسکین کے لیے قحبہ خانوں میں بٹھا دیا۔ان عورتوں کے لیے '' کمفرٹ ویمن '' کی اصطلاح وضع کی گئی۔
عجیب بات ہے کہ انیس سو انچاس کے جنیوا کنونشن سے پہلے ریپ جنگی جرائم کے فہرست میں شامل نہیں تھا۔اسی لیے نازیوں کے خلاف نورمبرگ ٹرائل اور جاپانی جنگی مجرموں کے خلاف ٹوکیو ٹرائل میں ریپ کی فردِ جرم عائد نہیں ہوسکی۔ البتہ جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے روانڈا میں نسل کشی کے مقدمے کی سماعت کے دوران انیس سو اٹھانوے میں یہ تاریخی رولنگ دی کہ دورانِ جنگ ریپ بھی انسانیت کے خلاف جرائم کی فہرست میں شامل ہے۔
عام طور سے ریپ کے شکار کے ساتھ وقتی ہمدردی تو کی جاتی ہے لیکن پھر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔حالانکہ جتنی نفسیاتی مدد کی اسے ضرورت ہوتی ہے شائد ہی کسی کو ہو۔ریپ کے تجربے سے گذرنے والا نفسیاتی و جسمانی طور پر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔اس پر کبھی غصہ غالب آجاتا ہے ، کبھی دشمنی کا جذبہ عود کر آتا ہے اور کبھی کنفیوژن تو کبھی خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔وہ اچانک چیخ اور دھاڑ بھی سکتا ہے اور سکتے کی کیفیت میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔اسے نہ تو اپنے جذبات پر قابو رہتا ہے نہ ہی اعصابی نظام پر۔اس کی بھوک اور نیند بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اگر اسے بروقت نفسیاتی مدد اور قریبی لوگوں کی توجہ نہ ملے تو خود کو زندگی سے الگ تھلگ کرتا چلا جاتا ہے اور انتہائی قدم کے طور پر اپنی جان بھی لے سکتا ہے۔یہ تمام مسائل ریپ کے شکار کی نفسیاتی و جسمانی بے بسی سے جنم لیتے ہیں۔اور یہی وہ وقت ہے جب اس کے پیارے اسے گلے لگا کر اور اپنے قریب رکھ کے بتائیں کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں وہ بے قصور ہے اور ان حالات میں جو بھی ہوتا اس کے ساتھ یہی ہوتا۔
اسے اشد ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہو جو زندگی پر اس کا اعتماد پھر سے بحال کرے۔ان حالات میں اسے معنی خیز نگاہوں سے دیکھنا ، رویہ بدل لینا ، اسی کو بار بار قصور وار ٹھہرانا اور پھر کٹہرے میں کھڑا کرکے مزے لے لے کر سوال و جواب کرنا اور اس کے نام کی تشہیر کرنا۔یہ سب حرکتیں دراصل ایک اور ریپ کے مترادف ہیں۔
ریپ ختم تو نہیں ہوسکتا البتہ کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے قوانین کو کاغذ پر سخت کرنے سے زیادہ ان پر واقعی عمل درآمد کی ضرورت ہے۔اپنے بچوں اور بچیوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ گھر کے اندر اور باہر کس سے کس حد تک تعلق رکھ سکتے ہیں اور حد عبور ہونے کی صورت میں کون کون سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔انھیں عمر کے ساتھ ساتھ بدلتی جسمانی و جذباتی تبدیلیوں کے اسباب کے بارے میں بااعتماد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لاعلمی و تاریکی میں کسی اپنے یا پرائے کا شکار نہ بن جائیں۔
انھیں ان لالچی ترغیبات کے بارے میں کھل کے بتانے کی ضرورت ہے جو ان کے لیے پھندہ ثابت ہو سکتی ہیں۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ زندگی نہ تو بالکل تاریک ہے نہ ہی مکمل روشن۔دنیا نامی اس جنگل میں محتاط بھی رہنا ہے ، خونخوار جانوروں کی بھی پہچان رکھنی ہے اور زندگی کا لطف بھی اٹھانا ہے۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ناگہانی مصیبت کبھی بھی کسی بھی وقت آسکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم حوصلہ ہار جاؤ۔ہم ہیں نا...
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )