ہم سب کے ساتھ کھڑے ہیں

کشمیریوں کے ساتھ تو ہم اس سے بھی زیادہ ’’مستقیم‘‘ کھڑے ہیں


سعد اللہ جان برق November 08, 2024
[email protected]

کوئی مانے یا نہ مانے ’’کھڑے ہونے ‘‘ کے سلسلے میں ہمارا ریکارڈ ناقابل شکست ہے، کشمیریوں کے ساتھ تو ہم پورے ستتر سال سے کھڑے ہیں اور مجال ہے کہ کبھی پہلو یا پیر کو بھی ہلایا ہو ۔ بقول رحمان بابا ؎

زکہ ونہ مستقیم پہ خپل مقام یم

 ہ خزان راباندے راشی کہ بہار

 ترجمہ۔ میں ایک درخت کی طرح اپنے مقام پر سیدھا کھڑا ہوں ، چاہے خزاں آئے یا بہار

 کشمیریوں کے ساتھ تو ہم اس سے بھی زیادہ ’’مستقیم‘‘ کھڑے ہیں اور ہماری یہ ایستادگی اتنی مکمل اور پکی ہے کہ خزاں اوربہار تو کیا، ہوا بھی ہمارا کوئی پتا نہیں ہلاسکتی۔ فارسی میں اسے ،زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کہتے ہیں ۔اورصرف کھڑے ہی نہیں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی بھی کررہے ہیں، مطلب یہ کہ صرف ایک ہی رخ پر کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اب فلسطینیوں کے ساتھ بھی کھڑے ہوگئے ہیں ۔

بیچ بیچ میں ہم روہنگیا والوں کے ساتھ کھڑے ہوچکے اور  ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ بھی تو کھڑے ہیں مثلاً بابری مسجد کے سلسلے میں بھی ہم ان کے ساتھ کھڑے تھے ،کھڑے ہیں اورکھڑے رہے ہیں ، فلسطینیوں کے ساتھ تو ہم باقاعدہ سارے عرب اورمسلمان ممالک کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ کسی کوشاید یہ کھڑے ہونے یاایستادگی کاکام آسان نظر آئے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے آپ ذرا دوچار گھنٹے ہماری طرح کھڑے رہیں تو لگ پتہ جائے گا ، ایڑی کاخون چوٹی اورچوٹی کاخون ایڑی تک نہیں پہنچا تو جو لیڈر کی سزا وہ ہماری سزا۔تاریخ میں اس طرح مستقیم کھڑے ہونے کاکارنامہ اس سے پہلے مجنون نے سرانجام دیاتھا جب لیلیٰ کاپیچھا کر رہا تھا تو لیلیٰ نے کہا رک جاؤ۔ اوروہ کھڑاہوگیا کئی سال بعد جب لیلیٰ کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ مجنون اسی طرح کھڑا ہے اوردرب نامی گھاس کا ’’اکھوا‘‘ اس کے سر پر لہلہارہا ہے جو زمین سے نکل کر ایڑی سے ہوتا ہوا جسم سے گزر کر سر تک پہنچاتھا ۔

 لیکن ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم جہاں کشمیریوں اورفلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں وہاں ایسی کوئی ظالم گھاس یا نل یا بانس وغیرہ نہیں ہے ورنہ وہ تو ہماری ایڑی سے گھس کر سر پر سائباں بناچکی ہوتی ۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

 ہوسکتا ہے اس وقت آپ ہمارے بار ے میں یا ہماری اس بے مثال اور ریکارڈ توڑ ایستادگی کے بارے میں کچھ برابھلا سوچ رہے ہوں تو اپنی سوچ کو یہیں پر بریک لگائیے ؎

 مرا طعنہ مہ زن اے مدعی طرزادائم بین

 ملامت می کندخلقے ومن بردار می رقصم

 ترجمہ۔ یعنی اے مدعی مجھے طعنہ مت دو بلکہ میری طرزادا دیکھ کہ میں جبہ ودستار کے ساتھ ناچ رہا ہوں۔

ناچنے کے لفظ کو آپ ایستادگی سمجھ لیں تو ہمارا دینی پارٹیوں کی طرف بھی خیال چلاجائے گا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ جبہ ودستار پہنے برابر کھڑے ہیں نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ روزانہ اس کا اعلان بھی کر رہے ہیں بلکہ ان میں آپ عرب ممالک خاص طورپر سعودی عرب کو بھی شامل کرسکتے ہیں جو جبہ ودستار ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اس مقام پر آپ کے ذہن میں ہوسکتا ہے یہ فاسد خیال آرہا ہو ہمارے اس کھڑے ہونے سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہو رہا ہے ؟

تو یہ آپ کی چھوٹی سی سوچ ہے ورنہ آپ کو علم ہوتا کہ یہ دنیا دارفانی ہے اورآخرت ہی اصل چیز ہے چنانچہ

 شہادت ہی مطلوب و مقصود مومن

 وہ بڑے پیمانے پر شہید ہورہے ہیں تو اپنے مطلوب ومقصود کو پارہے اوراس سے بڑی کامیابی اورکیا ہوگی۔ادھر ہم کھڑے ہیں ادھر وہ شہید ہورہے ہیں ۔

 اک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بناوٹیں

 پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حورکی

ہمارے ایک احمق دانشور نے ایک مرتبہ ہمیں طعنہ دیاتھا کہ تم صرف ’’کھڑے ‘‘ رہوگے اوریکجہتی کا کورس گاتے رہو گے یاکچھ کرو گے بھی؟چلواورکچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم ان یہودی پراڈکٹس کا بائیکاٹ تو کرو جن کی کمائی کابہت سارا پیسہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے جس سے وہ آتشیں ہتھیار بنا کر دنیا کنٹرول کریں گے ۔ اور ان پراڈکٹس میں زیادہ تر پراڈکٹس ایسی ہیں جن کے بغیر کوئی مرنہیں جائے گا ، یہ کولڈ ڈرنکس یہ واشنگ پاوڈر، یہ سرخی پاوڈر، یہ صابن وغیرہ ۔

لیکن ہم نے بھی اس احمق دانشور کو وہ منہ توڑ بلکہ دندان شکن جواب دیا کہ اس کی اگلی پچھلی سات پشتیں بھی بلبلا چکی ہوں گی، ہم نے اس سے کہا کہ جب شہادت ہی مقصود ومطلوب ہوتو پھر یہ توہم اوربھی اچھا کررہے ہیں کہ اسرائیل کو بالواسطہ ہی سہی مالی طورپر سپورٹ کررہے ہیں کہ کام تو ’’ہمارے ہی‘‘ بھائیوں کوپہنچانے کاہورہاہے ، تم تو ہمیں

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

کامشورہ دے رہے ہیں جب کہ ’’پروانے‘‘ کاجلنا اورمرنا ہی پروانے کی کامیابی ہے ، اگر ہم نے مگس کو باغ میں نہیں جانے دیا تو وہ جتھہ نہیں بنا پائے گی، جتھہ نہیں بنائے گی تو ’’موم‘‘ بھی نہیں بنے گا،موم نہ ہو تو ’’شمع‘‘ کس چیز سے بنے گی اورپروانہ شمع پر نہ جلے تو اس میں اورمچھر میں کیافرق رہ جائے گا ، نام کمانے کے لیے قربانی تو دینا پڑے گی ، کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا لازمی ہے ۔

احمق دانشور سے کچھ نہ بن پڑا تو جاتے جاتے بولا۔ تم بھی اس افیمی کی طرح ہو جو اپنے ساتھی کے ساتھ کہیں جارہا تھا ، اندھیر ے کے سبب اس کاساتھی کنوئیں میں گرپڑا تو چلا کر افیمی سے بولا ، بھائی میں تو کنوئیں میں گر گیا ہوں ،اس پردوسرا افیمی بولا، اچھابھائی ، جہاں رہو خوش رہو، میں تو چلا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔