بانی پی ٹی آئی کے سیاست میں آنے اور اقتدار سے محرومی کے بعد اور پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے بعد ان پر جو برا وقت شروع ہوا تھا، اس کے بعد سے وہ پہلے سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت اور آٹھ ماہ سے برسر اقتدار موجودہ حکومت جو کہنے کو تو مسلم لیگ (ن) کی ہے مگر اس حکومت میں صرف پیپلز پارٹی کے وزیر وفاق میں شامل نہیں ہیں مگر صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ اور دو صوبائی گورنروں سمیت اہم عہدے پیپلز پارٹی کے پاس ہیں اور دونوں بڑی پارٹیاں وفاق اور سندھ و پنجاب میں اقتدار میں ہیں جس پر پی ٹی آئی رہنما بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ حکمران پی ٹی آئی رہنماؤں پر اتنا ظلم کریں جتنا وہ بعد میں برداشت کر سکیں۔
26 ویں ترامیم کی منظوری کے بعد وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بعد میں یہ ترامیم بھی موجودہ حکمرانوں کے گلے پڑیں گی۔ وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور اہم رہنما پی ٹی آئی حکومت کے دور میں گرفتاریوں، مقدمات اور تمام مشکلات اور انتہائی پریشان کن مراحل سے گزر چکے ہیں اور ان میں عزت سے سرخرو بھی ہو چکے ہیں۔
ان دونوں پارٹیوں پر پی ٹی آئی حکومت میں ہی نہیں بلکہ غیر جمہوری ادوار میں بھی انتہائی کڑے وقت آچکے ہیں جب دعوے کیے جاتے تھے کہ دونوں پارٹیوں کی سیاست ختم ہو چکی اور ان کے قائدین اب سیاست کے لیے نااہل ہو چکے ہیں اور دونوں پارٹیاں آیندہ کبھی اقتدار میں نہیں آئیں گی مگر دنیا نے دیکھا کہ جنرل مشرف دور میں تمام سختیاں برداشت کرنے کے بعد 2008 میں پیپلزپارٹی چوتھی بار اور 2013 میں (ن) لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے اور 2014 سے ہی پی ٹی آئی نے (ن) لیگی حکومت کے خلاف دھرنا سیاست شروع کر دی تھی مگر (ن) لیگ کی حکومت اور پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی خاطر پارلیمنٹ میں متحد ہو کر پی ٹی آئی کے غیر جمہوری مذموم مقاصد کو ناکام بنا دیا تھا اور 2008 سے 2018 تک دونوں پارٹیوں نے پہلی بار اپنی اپنی حکومتی مدت پوری کی تھی۔ دونوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف کو سازش کے تحت سپریم کورٹ سے نااہل کرا کر برطرف کرایا تھا مگر دونوں نے اپنے نئے وزرائے اعظم منتخب کرا لیے تھے۔
2017 میں پانامہ میں کرپشن کا ثبوت نہ ملنے پر اقامہ میں نواز شریف کو برطرف کر دیا گیا تھا اور دنیا میں یہ فیصلہ مذاق بنا تھا کہ نواز شریف کو کرپشن ثابت نہ ہونے پر بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر برطرف کیا گیا تھا اور بعد میں پی ٹی آئی کو اقتدار دلا کر بانی تحریک انصاف کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا، جو سلیکٹڈ وزیر اعظم کے نام سے مشہور ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی حکومت میں وہ کون سا ظلم و جبر تھا جو (ن) لیگ اور پی پی پی پر نہیں ہوا تھا اور دونوں پارٹیوں پر بربریت کے پہاڑ توڑے گئے تھے اور منتقم مزاج بانی تحریک انصاف نے ان پر جھوٹے مقدمات بنا کر سب کو جیلوں میں بند کرایا تھا اور جیلوں میں ان پر بھرپور سختیاں کرائی گئی تھیں اور وہ خود ان کی حالت دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور بانی تحریک انصاف اور اس کے وزیروں نے نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، رانا ثنا اللہ و دیگر (ن) لیگی رہنماؤں اور پیپلز پارٹی کے آصف زرداری، فریال تالپور، خورشید شاہ و دیگر پی پی رہنماؤں کا جیلوں میں جینا تک عذاب کر رکھا تھا مگر ان صاحبان نے دہائیاں نہیں دی تھیں اور بہادری سے پی ٹی آئی کے اس وزیر اعظم کی بربریت کا مقابلہ کیا تھا جو آج اڈیالہ جیل میں موجودہ حکومت کا لاڈلہ قیدی اور شاہی مہمان بنا ہوا ہے اور جھوٹا واویلا کیا جا رہا ہے کہ جیل میں بجلی بند ہے، قید تنہائی بلکہ چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا ہے۔
یہ لاڈلہ آٹھ بیرکوں میں رہ کر من پسند کھانے سرکاری طور پر کھا رہا ہے۔ دس لاکھ روپے کی مشین پر ورزش کرتا ہے جس پر حکومت کے بھاری اخراجات آ رہے ہیں، اسے اپنے بیٹوں سے فون پر بات کرنے اور مرضی کے لاتعداد اپنے رہنماؤں سے ملنے کی سہولت ہے جب کہ نواز شریف، آصف زرداری اور دوسرے سیاسی قیدیوں کو تو بانی تحریک انصاف جیسی سہولتیں نہیں دی گئی تھیں بلکہ انسانیت سے گری ہوئی یہ شرم ناک حرکت بھی کی گئی تھی کہ تین بار کے وزیر اعظم کو اپنی لندن میں بستر مرگ پر آخری سانسیں لینے والی بیوی سے فون پر بات کرنے نہیں دی گئی تھی، کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم نے منع کیا تھا۔
صرف ایک بار کا منتخب نہیں، مسلط کردہ وزیر اعظم اپنی کرپشن کے باعث جیل میں شاہانہ زندگی گزار رہا ہے اور پھر بھی اس کی جھوٹی شکایات جاری ہیں کہ میرے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اسے اپنی بیوی، بہنوں، اپنے وکیلوں اور پارٹی رہنماؤں سے ملنے کی عدالتی سہولت حاصل ہے اور جیل حکام غیر قانونی طور پر عدالتی حکم پر متعدد بار اس کے بیٹوں سے فون پر بات کرا چکے ہیں مگر نواز شریف کو اس کی بیوی سے آخری بار بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
سوا سال سے جیل میں موجود سابق وزیر اعظم کی حفاظت کے لیے حکومت ان پر مقدمات جیل میں چلوا رہی ہے جہاں ہر سماعت پر ان کی صحافیوں سے گفتگو ہوتی ہے۔ ان کے پسندیدہ صحافی، وکیل اور پی ٹی آئی رہنما گھنٹوں ملاقاتیں کرتے ہیں اور ایک ہزار سے زائد ملاقاتوں اور سہولتوں کے باوجود حکومت پر جیل سے اور باہر سے ہر پارٹی رہنما جھوٹے الزامات لگا رہا ہے کہ بانی چیئرمین جیل میں غیر محفوظ اور قانونی سہولیات سے محروم ہے۔ تحریک انصاف کے پارٹی رہنما مسلسل جھوٹے الزامات کی سیاست کر رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی نہ جانے کیوں بنی ہوئی ہے۔ جھوٹے الزامات اور تنقید پر پی ٹی آئی کے حامی اور ہمدرد یقین کر لیتے ہیں اور عوام میں بھی یہ تاثر جا رہا ہے کہ جیل میں بانی چیئرمین پر ظلم ہو رہا ہے۔
سرکاری طور پر جھوٹے الزامات، تنقید اور سیاسی بیانات کی فوری تردید کرنے کی حکومت میں صلاحیت نہیں ہے جس سے بانی مقبول اور حکومت ہر جگہ بدنام ہو رہی ہے اور ماضی میں بانی کے مظالم کا شکار رہنے والے بھی حکومتی مزے لوٹ رہے ہیں، ان میں بھی صلاحیت نہیں کہ پی ٹی آئی کی تنقید اور الزامات کا توڑ کرسکیں۔ حکومت خود بھی بے سروپا اور جھوٹے الزامات کا جواب نہیں دے پا رہی، ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت بانی کی حاصل شدہ سہولیات کی ویڈیو بنا کر ٹی وی چینلز پر چلوائے تاکہ عوام کو حقائق کا علم ہو سکے کہ بانی جیل میں کیسی زندگی گزار رہا ہے۔