ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی
(تحریر: سہیل یعقوب)
یو این ڈی پی کے قومی انسانی بہبود کے سروے کے مطابق پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ اعداد و شمار یکم دسمبر دو ہزار تئیس کے ہیں۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا ملک نوجوانوں کا ملک ہے۔
اگر کسی ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو تو کہتے ہیں کہ اس ملک کا مستقبل بہت روشن اور تابناک ہے۔ ہمارے یہاں اس کے برعکس معاملہ ہے۔ ہمارا یہ مستقبل ہی ملک کے مستقبل سے مایوس اور ناامید ہیں اور ملک سے ہجرت کو خود کی کامیابی قرار دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ یہ ایک طویل بحث ہے اور ویسے بھی یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔ ہمارا آج کا موضوع تو اس ملک کے موجودہ بزرگ شہری ہیں جنھوں نے اپنا بہترین وقت اور صلاحیتیں اس ملک اور اس کے اداروں کو دی اور اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کی زندگی کا تصور کہیں سے بھی مسحور کن، دلفریب اور دلکش نہیں، ہاں مغربی ممالک نے اسے آرام دہ ضرور کردیا ہے۔ مغربی ممالک نے تو اوسط عمر بڑھنے کے نتیجے میں کام کرنے کی عمر میں بھی اضافہ کردیا ہے اور اب کچھ ممالک میں تو یہ عمر ساٹھ سے بڑھا کر پینسٹھ سال کردی گئی ہے۔ کچھ اور ممالک تو اس سے بھی آگے چلے گئے ہیں اور اپنے تجربہ کار انسانی وسائل سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے لوگوں کو اس وقت تک کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے کہ جب تک وہ خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر چست سمجھتے ہیں۔ گویا نوکری کے اختتام کی عمر کے لحاظ سے کوئی حد ہی نہیں، اگر ملازم اور اس کا آجر دونوں کام کرنے پر متفق ہیں اور کام کرنے اور کام لینے کےلیے تیار ہیں۔
مغربی ممالک میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے اور اگر آپ اپنی کاروباری یا ملازمت والی زندگی میں وقت پر ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں تو ریٹائرمنٹ کے وقت حکومت کی جانب سے ایک باعزت پینشن مقرر ہوجاتی ہے کہ جس میں عزت کے ساتھ گزارا ممکن ہوتا ہے بلکہ بچت کی بھی گنجائش ہوتی ہے تاکہ دو یا تین سال میں سیر و تفریح پر بھی جایا جاسکے۔ اگر کسی نے اپنے کاروباری یا ملازمت کے وقت میں ہی اپنی ریٹائرمنٹ کی پیشگی منصوبہ بندی کی ہوئی ہو تو ان کا بڑھاپا اور بھی شاندار ہوتا ہے، اسی لیے ہمیں سیر و تفریح کے مقامات پر ریٹائرڈ لوگ یا ریٹائرڈ جوڑے زیادہ نظر آتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں صورتحال بہت مایوس کن ہے۔ اول تو یہاں ریٹائرمنٹ کی پیشگی منصوبہ بندی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں بیٹے کو ہی بڑھاپے کا سہارا سمجھا جاتا رہا ہے۔ اگر کسی کے یہاں ابتدا میں بیٹا نہیں ہوا تو بیٹیوں کی قطار لگ جاتی ہے۔ حالانکہ موجودہ دور نے ثابت کیا ہے کہ بڑھاپے میں بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ قابل اعتماد، قابل اعتبار اور قابل بھروسہ سہارا ہوتی ہیں، ہرچند کہ اس کے کچھ سماجی مضمرات بھی ہیں جس سے ہم سب واقف ہیں کہ بیٹیوں سے مدد لینا ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں حکومت کے علاوہ بہت کم اداروں میں پینشن کا نظام ہے اور اب تو حکومت بھی اس کو ختم کرنے کے درپے ہے، کیونکہ آئی ایم ایف اسے بوجھ سمجھتا ہے اور ہمارا آزاد اور خودمختار ملک آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ حکومت نے ایک ادارہ EOBI کے نام سے بنایا ہے۔ یہ ادارہ اس وقت دس ہزار روپے کی قلیل رقم پینشن کی مدد میں ہر پنشنر کو ماہانہ دیتا ہے کہ جس کو موجودہ مہنگائی میں مذاق ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ میں خود آج کل اس ادارے کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ تمام کاغذات جمع کروانے کے باوجود اب یہ ادارہ مجھ سے ہی یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ ان کے دیگر ریجن سے کہ جہاں میرے پچھلے اداروں کے دفاتر ہیں جہاں میں نے کام کیا تھا وہاں سے اس کی تصدیق بھی میں ہی کروا کر ان کے حضور پیش کروں، حالانکہ EOBI میں اس تصدیق کا ایک پورا نظام موجود ہے لیکن وہ صرف ایک برقی ترسیل (email) بھیج کر خود کو اس ذمے داری سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ تو میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ جن اداروں سے لوگوں کو پینشن ملتی ہے وہاں کوئی اگر ان بزرگ پنشنرز سے پوچھے کہ کیا وہ پینشن ملنے کے طریقہ کار سے مطمئن ہیں تو وہ یقیناً یہی کہین گے کہ ہم پینشن لینے جاتے وقت عزت نفس کو گھر ہی چھوڑ جاتے ہیں، کیونکہ یہ پورا عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور کرنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ جو آج اس سے گزر رہا ہے تو کل ان کی بھی باری ہے۔
معاشی مشکلات تو اپنی جگہ، سماجی طور پر بھی حالات اب بزرگ شہریوں کےلیے کوئی بہت زیادہ خوش آئند نہیں۔ ہرچند کہ اب بزرگ شہریوں کے خاصے گروپ پارک اور دیگر جگہوں پر نظر آتے ہیں لیکن ہماری ہر سماجی سرگرمی کا آغاز یا اختتام کھانے پر ہوتا ہے کہ جس کےلیے پھر معاشی آسودگی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر سہولیات صرف بزرگ شہریوں کےلیے ہیں۔ دنیا میں تو بزرگ شہریوں کےلیے ایسے گھر ہیں جہاں سہولیات اور تفریح کے مواقع ان کی عمر اور حرکات و سکنات کی صلاحیت کو سامنے رکھ کر وضع کیے گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو بزرگوں پر ایک ہی بات مسلط کردی جاتی ہے کہ بس اب آپ اللہ اللہ کریں۔ اللہ اللہ تو ہر عمر میں کرنا چاہیے اس کےلیے بوڑھا ہونا ضروری نہیں۔ اصل میں تو پس پردہ یہی ایک پیغام ہوتا ہے اور مجھے نہیں پتہ کہ آپ اتنے سخت جملے کےلیے تیار بھی ہیں یا نہیں کہ ’’بس اب آپ مرنے کی دعا اور تیاری کریں تاکہ سب چین اور سکون سے رہ سکیں‘‘۔
آخر میں ہمیشہ کی طرح ایک قصہ اور اختتام۔ ایک بڑے صاحب جو اپنے بیٹے کے گھر میں رہتے تھے اکثر اپنا کمبل خراب کر دیتے تھے کیونکہ رات کو کوئی ان کا خیال رکھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ بیٹے کی بیوی بڑے صاحب سے بہت تنگ تھی کہ یہ اسپین کا مہنگا کمبل ہر آئے دن خراب کردیتے ہیں۔ اس نے اپنے شوہر سے شکایت کی اور تجویز دی کہ اسٹور میں جو پرانا کمبل پڑا ہے وہ ان کو دے دیتے ہیں۔ بیٹے نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ اسٹور سے پرانا کمبل نکال کر دادا کو دے دو۔ کچھ دنوں بعد جب بیٹا باپ سے ملنے گیا تو دیکھا کہ کمبل آدھا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ باقی آدھا کمبل کہاں گیا تو اس کے بیٹے اور بڑے صاحب کے پوتے نے کہا کہ وہ تو میں نے کاٹ کر آپ کےلیے رکھ لیا ہے بعد میں کون اس کو ڈھونڈتا پھرے گا۔ کہانی میں اس کے بعد بیٹے کی آنکھیں کھل گئی تھی اور وہ فرمانبردار بن گیا تھا مگر آج کل تو یہ کہانی بھی پرانی اور دقیانوسی ہوگئی ہے کیونکہ نئی نسل کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے اور سماجی ذرائع ابلاغ پر تو سب فرشتے بنے ہوئے ہیں، حالانکہ فرشتہ ہونا تنزلی ہے کیونکہ صرف انسان اشرف المخلوقات ہے مگر اتنا سوچنے کا وقت کس کے پاس ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔