اعلانی انقلاب
علامہ طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ ’’عوا تیار رہیں، بس انقلاب کا اعلان ہونے ہی کو ہے‘‘۔
علامہ طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ ''عوا تیار رہیں، بس انقلاب کا اعلان ہونے ہی کو ہے''۔ وہ اپنی تمام تر خوبیوں اور خرابیوں کے باوجود واحد باطاقت رہنما ہیں جو اسٹیٹس کو کو توڑنے اورنظام کی تبدیلی کی بات کررہے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ علامہ نہ انقلاب کی ماہیت سے عوام کو آگاہ کررہے ہیں، نہ انقلاب کے اہداف سے کچھ مبہم سی تبدیلیوں کا ذکر البتہ وہ کررہے ہیں لیکن یہ مبہم سی تبدیلیاں انقلاب نہیں بن سکتیں۔
سب سے پہلے انھیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ تبدیلی یا انقلاب کی اولین شرط یہ ہے کہ انقلاب کی بنیاد طبقاتی ہو۔ اگر انقلاب کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ بنادیا گیا تو اس قسم کی کوئی تبدیلی مذہبی یا مسلکی انارکی تو ہوسکتی ہے، طبقاتی انقلاب ہرگز نہیں ہوسکتا۔ طبقاتی نظام میں انقلاب اس وقت بامعنی ہوسکتا ہے جب استحصالی طبقات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور یہ کام کس قدر مشکل ہے، اس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر قابض ناجائز قابضین کو جب ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور پولیس اور رینجرز قانون اور انصاف کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اگر ملک کی 80 فیصد دولت اور وسائل پر قابض طبقات سے ان کی دولت، ان کے وسائل، ان کے اثاثے، ان کا اختیار، ان کا اقتدار چھیننے کی کوشش کی جائے تو وہ یقیناً شدید مزاحمت کریں گے اور وہ یہ مزاحمت خود نہیں کریں گے بلکہ انھوں نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے جو ریاستی مشینری، سیکیورٹی فورسز قانون اور انصاف کی شکل میں کھڑی کر رکھی ہے اور ان کی پشت پر آئین کی جو مقدس کتاب رکھ چھوڑی ہے، یہ ساری ریاستی مشینری انقلاب کی راہ میں دیوار کی طرح کھڑی ہوجائے گی۔
کیا علامہ کا انقلاب اس دیوار کو توڑنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ اگر علامہ کے پاس بفرض محال ایسی طاقت ہے بھی تو کیا علامہ انقلاب کے بنیادی اہداف کے بارے میں واضح نظریات رکھتے ہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جس کے واضح اور تشفی بخش جوابات کے بغیر نہ انقلاب آسکتا ہے نہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔اگر کسی ملک میں طبقاتی بنیادوں پر انقلاب لانا ہو تو سب سے پہلے اسٹیٹس کو کو توڑنا لازمی ہے۔ ہمارے ملک میں اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والے طبقات اور طاقتیں بہت مضبوط ہیں۔
ان طاقتوں کو ختم کرنا لازمی ہے اور ان گپھائوں کو تہس نہس کرنا بھی ضروری ہے جن میں استحصالی طبقات چھپے بیٹھے ہیں۔ ان مین سب سے بڑی گپھائیں جاگیردارانہ نظام اور جمہوریت ہے۔ جمہوریت جاگیردارانہ نظام کا ایسا فنکارانہ مورچہ ہے جس میں اس طبقے کے ساتھ ساتھ وہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں چھپی بیٹھی ہیں جو جمہوریت کو معاشرے، ملک اور قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیتی ہیں اور اسے ڈی ریل کسی قیمت پر ہونے نہیں دینا چاہتیں، خواہ وہ اس اشرافیائی جمہوریت کو سمجھتی ہوں یا نہ سمجھتی ہوں لیکن اس کی حفاظت پر متحد اور متفق ہیں۔ طبقاتی بنیادوں پر اگر کوئی انقلاب آتا ہے تو اس کے اہداف کا تعین ضروری ہے اور ان اہداف کا تعلق ملک کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام سے ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے جو طبقات سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ان میں ایک بڑا طاقتور طبقہ جاگیرداروں کا ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوریت کے نام پر دیگر طبقات کو جن میں نام نہاد مڈل کلاس بھی شامل ہے، اپنے ساتھ ملائے رکھتا ہے۔ اس لیے انقلاب کا پہلا ہدف جاگیردارانہ نظام ہونا چاہیے اور جاگیردارانہ نظام ایک سخت اور منصوبہ بند زرعی اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں، جس میں گزارے کے لائق زمین چھوڑ کر باقی تمام زمین جاگیرداروں، وڈیروں سے چھین کر کسانوں ہاریوں میں تقسیم کردی جائے اور یہ تقسیم قابل عمل اور منصفانہ ہو۔
اس کے بغیر نہ نظام کی تبدیلی کی طرف کوئی پیش رفت ممکن ہے نہ زرعی معیشت سے جڑی 60 فیصد آبادی آزاد ہوسکتی ہے۔انقلاب کے دیگر دو بنیادی اہداف نجی ملکیت کو ضروریات زندگی تک محدود کرنا اور نجی شعبے یعنی پرائیویٹ سیکٹر کا خاتمہ ہے جو کرپشن اور دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی جڑ ہے۔ یہ اقدام سرمایہ دارانہ طبقاتی استحصالی نظام کے خلاف بغاوت ہے اور لازماً سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اور رکھوالے اس نظام کو جہاں بھی خطرات لاحق ہوں اسے بچانے کے لیے آگے آئیں گے۔ اس حوالے سے روس اور اس کے نظام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ دارانہ نظام کے سانپ کے منہ میں زہر کی تھیلی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ روس چین سمیت تمام سابق سوشلسٹ ملکوں نے اسے اپنا لیا ہے۔ یہ کسی ملک، معاشرے یا ترقی کی ناگزیر ضرورت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے بقا کی لازمی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے مفکرین اور اس کے دانستہ یا نادانستہ حامی اسے نظام فطرت قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے یہ فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ اس نظام میں ''مقابلے'' کا جو رجحان موجود ہے وہی ترقی کی بنیاد ہے، لیکن یہ حضرات اس جیتی جاگتی حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اس مقابلے میں صرف ایلیٹ اور بددیانت گروہ شامل رہتے ہیں۔
98 فیصد عوام کو اس مقابلے سے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی انقلاب جو ان لازمی شرائط کو پورا نہیں کرتا اور اس کے اہداف میں منافع اور ارتکاز زر کی محدودیت شامل نہ ہو وہ انقلاب نہیں بلکہ اصلاحات ہی کہلاسکتی ہیں، اور اصلاحات کے لیے اسٹیٹس کو کی حدود میں رہنا اور اشرافیائی جمہوریت سے چمٹے رہنا ضروری ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جنھیں انقلابیوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
ہماری حکومت معیشت کے مختلف شعبوں میں اربوں روپوں کے پروجیکٹس کے اعلانات کررہی ہے جسے ہم معاشی اصلاحات کا نام دے سکتے ہیں لیکن یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ انقلاب اعلان کے ذریعے کس طرح آسکتا ہے؟ انقلاب تو ریاست سے اور نظام جاریہ سے بغاوت کا نام ہے اور کسی نظام کو اعلان سے نہیں بدلا جاسکتا، بلکہ عملی جدوجہد اور عوام کی اکثریت کو متحرک کرکے ہی بدلا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ علامہ کے پاس ایک بڑی افرادی قوت ہے جو علامہ کے اشارے پر سڑکوں پر آسکتی ہے، لیکن یہ طاقت علامہ کے عقیدت مندوں کی ہے جو منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر متحد ہے، جو ایک مذہبی پلیٹ فارم ہے۔
جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے، انقلاب نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان، سکھ نہ عیسائی، شیعہ سنی، نہ بریلوی و دیوبندی۔ انقلاب ان تمام تقسیموں سے بالاتر ہوتا ہی اور انقلاب کے لیے عوام کو اس قسم کی تمام تر تقسیموں سے بالاتر ہونا پڑتا ہے، جب ہی طبقاتی انقلاب رونما ہوتا ہے۔ علامہ انقلاب کے لیے جن عوام کو تیار رہنے کی ہدایت فرما رہے ہیں کیا وہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام ہیں یا علامہ کے معتقدین ہیں؟ اگر یہ عوام علامہ کے معتقدین ہیں تو انھیں سڑکوں پر لاکر اسلام آباد کی مشق تو دہرائی جاسکتی ہے لیکن بامعنی انقلاب نہیں لایا جاسکتا۔ بامعنی انقلاب کے لیے 1968 اور 1977 کی طرح عوام کو مردوں، عورتوں، جوانوں، بوڑھوں، مزدوروں، کسانوں کو سڑکوں پر لانا ہوگا۔ کیا علامہ اس طرح عوام کو سڑکوں پر لاسکتے ہیں؟ اگر لابھی لیں تو کیا علامہ کا انقلاب ان شرائط پر پورا اتر سکتا ہے جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے؟
انقلابوں کی تاریخ میں انقلاب ایران کی شہرت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ انقلاب طبقاتی نہیں بلکہ فرقہ وارانہ تھا جس کی وجہ سے نہ ایران کی سماجی زندگی بدلی، نہ سیاسی، نہ اقتصادی۔ اس انقلاب میں اتنی طاقت تھی کہ وہ طبقاتی انقلاب بن سکتا تھا لیکن اس کی قیادت کرنے والوں نے اپنے ناقص وژن کی وجہ سے اسے مسلکی انقلاب بنادیا۔ اگر پاکستان میں طبقاتی انقلاب لانا ہو تو بلاامتیاز غریب طبقات کو متحرک کرنا ہوگا اور اس کے لیے عوام میں جانا اور انقلاب کے اہداف سے عوام کو آگاہ کرنا ہوگا، ورنہ ''اعلانی انقلاب'' نہ کوئی معنی رکھتا ہے نہ مقصد۔