شہروں کا رخ کرنے کے اسباب و مضمرات
وطن عزیز کے شہروں پر نقل مکانی کرکے آنے والوں کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
وطن عزیز کے شہروں پر نقل مکانی کرکے آنے والوں کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز قیام پاکستان کے وقت 1947 میں اس وقت ہوا تھا جب لاکھوں کی تعداد میں فسادات سے متاثر ہوکر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور بھارت سے آنے والے مہاجرین سندھ اور پنجاب کے شہروں میں آکر آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اس ملک کو معرض وجود میں لانے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔
80-90 لاکھ کی تعداد میں نقل مکانی کرنے کے اس عظیم واقعے نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی تھی۔ اس کے بعد افغان جنگ کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں افغانستان سے پاکستان کے شہروں میں پناہ لے کر خود کو اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے کیونکہ پاکستان کے شورش زدہ علاقے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے نام سے جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں خاصی بڑی تعداد میں نقل مکانی کرکے آنے والے قبائلی عوام وطن عزیز کے شہری علاقوں کا ہی رخ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے شہروں کی حالت پہلے ہی سے بہت بری ہے کیونکہ دیہات میں روزگار کی کمی اور سہولیات کے فقدان کے باعث لوگ تیزی سے نقل مکانی کرکے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستانی شہروں کی حالت پہلے ہی بے حد غیر تسلی بخش اور ناگفتہ بہ ہے جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان شہروں کی 50 فیصد آبادی گندی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہے جنھیں Slum Areas کہا جاتا ہے۔
ان کی حالت اس قدر خستہ و خراب ہے کہ ان میں سے 95 فیصد کو کچرا کنڈیوں کی سہولت بھی میسر نہیں ہے جب کہ 6 فیصد لوگ بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ ان میں سے خاصی بڑی اکثریت ان شہریوں کی ہے جنھیں نہانے دھونے تو کجا پینے تک کے لیے پانی میسر نہیں۔ اگر کسی طور پینے کا پانی میسر بھی آجائے تو وہ اتنا آلودہ ہے کہ مختلف قسم کی بیماریوں کا باعث ہوسکتا ہے جس میں ہیپاٹائٹس کا مرض سرفہرست ہے۔
شہری آبادی کی جن بستیوں کو Slum Areas کہا جاتا ہے ان کی ابتری بیان سے باہر ہے۔ صفائی جسے نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اس کا وہاں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے انبار لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہر طرف تعفن پھیلا ہوا ہے بلکہ مکھی، مچھر اور طرح طرح کے دیگر حشرات الارض بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں جب کہ غربت کے مارے ہوئے ان بدنصیبوں کے پاس اتنے بھی مالی وسائل نہیں ہیں کہ اپنا اور اپنے بیمار بال بچوں کا علاج کراسکیں۔ کہتے ہیں کہ غریبی سو برائیوں کی جڑ ہے۔ یہ کہاوت ان گندی بستیوں پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے کیونکہ طرح طرح کے جرائم یہاں پروان چڑھتے ہیں جن سے رشوت خور اور بدعنوان پولیس اہلکار پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یوں تو پورے جنوبی ایشیا میں شہروں میں آباد ہونے کا رجحان پورے زور و شور سے جاری ہے لیکن پاکستان میں اس کی رفتار سب سے تیز ہے۔ ان میں عروس البلاد کراچی سرفہرست ہے جس کی آبادی میں 2000 سے 2010 تک 80 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں شہروں میں آباد ہونے کی مجموعی شرح 90 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اکثر یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ پاکستان کی دو تہائی آبادی شہروں پر مشتمل ہے اور 2025 تک یہ شرح 50 فیصد کی حد کو چھو لے گی۔
شہروں میں آبادی کے اس بے لگام اضافے نے پاکستانی شہروں کو بے ہنگم اور بے قابو بنا دیا ہے اور طرح طرح کے مسائل پیدا کردیے ہیں جن میں پانی، گیس اور بجلی کی دستیابی جیسے سنگین اور بنیادی نوعیت کے بہت سے مسائل شامل ہیں۔ لیکن ان تمام مسائل میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ توجہ طلب مسئلہ امن عامہ کا ہے۔ اس مسئلے نے سب سے زیادہ سنگین صورت ملک کے صنعتی مرکز اور بندرگاہ کراچی میں اختیار کر رکھی ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ بنیادی انتظامی ڈھانچے پر نظرثانی کی جائے اور جدید ترین ٹاؤن پلاننگ کے طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ماڈرن ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں دنیا کے بڑے بڑے شہر رول ماڈلز کے طور پر موجود ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کی حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اصلاح کی جائے اور کار دوست کلچر کی حوصلہ شکنی کرکے میٹرو کے نظام کو فروغ دیا جائے ہندوستان کے گنجان آباد دارالخلافہ دہلی میں اس نظام کو متعارف کراکے بڑی حد تک فائدہ اٹھایا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بعض دیگر شہروں کے تجربات بھی ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ افریقہ کے بعض شہروں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکی شہروں کے تجربات سے بھی بخوبی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ یہ کام اکیلے پبلک سیکٹر کے بس کی بات نہیں کیونکہ بڑے پیمانے پر مطلوبہ وسائل کی عدم دستیابی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس کے لیے یا تو بڑے بڑے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا تعاون درکار ہوگا یا پھر دوسرا طریقہ پبلک پرائیویٹ پارٹرشپ کی صورت میں دستیاب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے لیے حکومتی سطح پر عظیم اور فعال منصوبہ بندی اور بہترین حکمت عملی درکار ہوگی۔ حکومت کی جانب سے اخلاص نیت اور عزم محکم اس مسئلے کے کارگر حل کے لیے اولین شرائط میں شامل ہیں کیونکہ محض زبانی جمع خرچ، بیان بازی، لفاظی اور جھوٹی یقین دہانیوں سے ہرگز کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مگر فارسی زبان کی یہ کہاوت ہماری ہمت افزائی کے لیے کافی ہے:
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
انسان کو مشکلات سے ہرگزگھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ کوئی مشکل ایسی نہیں کہ جسے حل نہ کیا جاسکتا ہو۔ بس شرط یہی ہے کہ انسان ہمت نہ ہارے اور حوصلے سے کام لے۔ سیانوں نے بجا فرمایا ہے کہ ''جہاں چاہ وہاں راہ''۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری قیادت اخلاص نیت اور عزم محکم سے عاری ہے جوکہ قوموں کی ترقی کے لیے شرط اول کا درجہ رکھتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ ہمارے بڑے بڑے منصوبے بسا اوقات ادھورے رہ جاتے ہیں اور ہمارے وسائل بھی ضایع ہوجاتے ہیں۔قیمتی وقت اور محنت کا ضیاع اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو معلوم ہوجائے گا ترقی ان ہی ممالک کا مقدر بنی جن کی قیادت اپنے ملک و قوم سے مخلص اور عزم محکم اور خلوص نیت سے سرشار تھی۔ سنگاپور اور ملائیشیا جیسے ممالک کی زندہ اور روشن مثالیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ پاکستانی قوم کو بھی ایک مہاتیر محمد کی ضرورت ہے جو وطن عزیز کی کایا پلٹ دے۔
انتقال آبادی کی وجہ سے نت نئے مسائل کھڑے ہورہے ہیں اور جوں جوں لوگ بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں، ماحول خراب ہو رہا ہے اور جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حالات و معاملات انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت سے باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انفرا اسٹرکچر کے مسائل اس کے علاوہ ہیں جس میں بجلی، گیس، سیوریج کا نظام اور صاف پانی کی فراہمی جیسے مختلف بنیادی مسائل شامل ہیں۔
یہ وہ صورت حال ہے جسے بین الاقوامی اصطلاح میں ٹپنگ پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر اس کا فوری نوٹس نہ لیا گیا تو حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارے شہریوں کی زندگیاں وبال بن کر اجیرن ہوجائیں گی۔ جگہ جگہ فتنے اور فسادات برپا ہوں گے اور لوگ بلاوجہ کی ہنگامہ آرائیوں کے متحمل نہیں ہوسکیں گے۔ اس کے منفی اثرات ہماری معاشرت پر ہی نہیں بلکہ ہماری معیشت پر بھی پڑیں گے اور پورا ڈھانچہ دھڑام سے گر جائے گا۔ اس صورت حال کا بہترین علاج یہی ہے کہ نئے نئے شہر بسائے جائیں جہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنیادی سہولتیں میسر ہوں ۔