اینٹوں کے بھٹوں پرکام کرنیوالے مزدور اور باربرداری کے جانور بھی اسموگ سے متاثر ہونے لگے

بین الاقوامی ادارہ بروک اوربھٹہ مالکان ایسوسی ایشن بھٹوں پرشجرکاری، جانوروں کیلیے شیڈ بنانے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں

لاہور:

اسموگ جہاں عام شہریوں کو متاثر کررہی ہے وہیں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنیوالے مزدور اور باربرداری میں استعمال ہونے والے جانور بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں لیکن حکومت کی طرف ان کی صحت سے متعلق کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔ تاہم ورکنگ اینیملز کی صحت اور ویلفیئر کے لیے کام کرنیوالے بین الاقوامی ادارے بروک اور بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن ، اینٹوں کے بھٹوں پر شجرکاری، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ایمرجنسی میڈیکل کٹ اور جانوروں کے لیے شیڈ بنانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

بروک انٹرنیشنل کے سربراہ کرس وین رائٹ ، بروک پاکستان کے سی ای او ڈاکٹرجاوید گوندل، سید نعیم عباس اور بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین مہرعبدالحق نے پتوکی کے قریب ایک بھٹے کا دورہ کیا ، وہاں پودے لگائے اور دیگرسہولیات کا بھی جائزہ لیا۔

بھٹے پرکام کرنیوالے مزدور عبدالرحمٰن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں خاص طور اسموگ کی وجہ سے جس طرح ہم لوگ (مزدور) متاثر ہورہے ہیں اسی طرح ہمارے جانور بیمار ہوتے ہیں، ہم اپنی جان سے بڑھ کر اپنے ان ساتھی جانوروں کا خیال رکھتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ انہوں نے کہا اینٹوں کا بھٹہ زگ زیگ پرمنتقل ہونے سے آلودگی میں واضح کمی آئی ہے۔

 

 
بروک انٹرنیشنل کے سربراہ کرس وین رائٹ اور ڈاکٹرجاوید گوندل نے بتایا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ورکنگ اینیملز کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی اورسموگ ان کی جانوروں کی بینائی متاثر کردیتی ہے ،انہیں بھی انسانوں کی طرح سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ انسان تو اپنی تکلیف کا اظہار اور ا س کا مداوا خود کرسکتا ہے لیکن یہ جانور نہیں بتاسکتے۔ ورکنگ اینیملز کی وجہ سے لاکھوں گھروں کے چولہے جلتے ہیں، ان کی صحت ان سے جڑے خاندانوں کے معاشی خودمختاری کے لیے بہت اہم ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ بروک پاکستان ملک بھر میں تین ہزار اینٹوں کے بھٹوں پر ، وہاں کام کرنیوالے مزدروں اور ورکنگ اینیملز کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ایمرجنسی میڈیکل کٹ اور جانوروں کے لیے شیڈ بنانے اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔ دو ہزار بھٹوں پر بروک کی ٹیمیں یہ سہولیات فراہم کرررہی ہیں جبکہ ایک ہزار بھٹوں پر بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے اشتراک سے کام کیا جارہا ہے۔ ان سہولیات کے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنیوالے مزدوروں کے بچوں کو پڑھانے کے لیے اسکول بنائے جارہے ہیں۔
 
دوسری طرف بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین مہرعبدالحق کا کہنا ہے حکومت اسموگ کو جواز بنا کر اینٹوں کے بھٹے گرا رہی ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ ملک بھر میں اینٹوں کے بھٹے زگ زیگ پرمنتقل کردیے گئے ہیں لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان بھر میں 20 ہزار جبکہ پنجاب میں ساڑھے بارہ ہزار اینٹوں کے بھٹے ہیں ، پنجاب میں بمشکل دوہزار بھٹے زگ زیگ پر منتقل ہوئے ہیں۔
 
انہوں نے کہا کہ بھٹوں کا اسموگ اورآلودگی پیدا کرنے میں حصہ صرف دوفیصد ہے اور انہیں گرایا جارہا ہے لیکن ٹرانسپورٹ جس کا حصہ 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے کیا کسی گاڑیاں تیارکرنیوالی فیکٹری کو بند کیا گیا ہے، بھٹے گرانا مسلے کا حل نہیں ہے۔ ایک بھٹے کو زگ زیگ پر منتقل کرنے کے لیے کم سے کم 40 ملین روپے درکار ہوتے ہیں۔
 
مہرعبدالحق نے مزید کہا کہ حکومت نے بھٹہ مالکان کو سافٹ قرض اور عملے کو ٹریننگ دینے کا وعدہ کیا تھا جو پورا نہیں کیا گیا۔ ورلڈ بینک سمیت دیگرعالمی ڈونرایجنسیوں سے بھٹوں کو زگ زیگ پر منتقل کرنے کے لیے دو بلین روپے کے فنڈز حاصل کیے گئے لیکن وہ فنڈز بھٹہ مالکان کو نہیں دیے گئے۔ ادارہ تحفظ ماحولیات ،حکومت اور عدالت کو بھٹوں کو زگ زیگ پرمنتقل کرنے سے متعلق غلط اعداد وشمار دے رہا ہے۔
Load Next Story