ڈارک ٹورزم

تعیش اور لذت کوشی کی کوکھ سے جنم لینے والی صنعت سیاحت ایسے ایسے روپ اختیار کرتی جا رہی ہے


Shaikh Jabir July 22, 2014
[email protected]

تعیش اور لذت کوشی کی کوکھ سے جنم لینے والی صنعت سیاحت ایسے ایسے روپ اختیار کرتی جا رہی ہے کہ اخلاقیات زمانے بھر میں منہ چھپائے پھرتی ہے۔ سیاحت کے دلدادہ اور صنعت سیاحت کے حامیوں نے کبھی یہ تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ سیاحت ایسے روپ بھی اختیار کریگی۔ اس سے قبل ہم ان ہی کالموں میں ''میڈیکل ٹورزم'' اور ''سوسائڈ ٹورزم'' کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ آج سیاحت کی ایک اور قسم ''ڈارک ٹورزم'' پر بات ہوگی۔

ویڈیو گیمز، فلم، ٹی وی اور کھیلوں وغیرہ نے عام فرد کو ''سنسنی'' کا اتنا عادی بنادیا ہے کہ وہ اپنی عام زندگی اور تفریحات میں بھی ''سنسنی'' کا متلاشی رہنے لگا ہے۔ بعینہٖ ''سنسنی'' کے اسے اپنی تفریح محض تفریح نہیں لگتی اور زندگی روکھی پھیکی معلوم دیتی ہے۔ یہاں تک کہ چھٹیاں گزارنے کے لیے افراد خواہش کرنے لگے ہیں کہ وہ ''سیریل کلر'' کے عقوبت خانے گھومنا چاہتے ہیں وہ محفوظ آلات و لباس میں جوہری تباہی والے علاقے کی سیر کرنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیل خانہ جات کی تاریک کوٹھڑیوں اور پھانسی گھاٹوں کا دورہ کریں۔ سیاحوں کا مطالبہ ہے کہ ہم براہ راست اصلی جنگ کے مناظر دیکھنا چاہتے ہیں۔

وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس طرح گولا باری کی جاتی ہے اور کس طرح جیتے جاگتے انسان کا لمحوں میں قیمہ بن جاتا ہے، وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس طرح لہو اچھلتا ہے اور انسان مرتا ہے اور چونکہ حقوق انسانی کے چارٹر پر دستخط کرنیوالے تمام ممالک میں اس طرح کی خواہش کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا ان کا بنیادی حق ہے جس سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا لہٰذا ایک نئی طرز سیاحت رواج پاچکی ہے جسے ''ڈارک ٹورزم'' کا نام دیا جاتا ہے۔

''ٹموتھی'' ایک ایسا ہی سیاح ہے، اس نے 2012 میں تحریر اسکوائر کا دورہ کیا تھا اور صدر مرسی کے انتخابات اور بعد کے کئی واقعات کا وہ چشم دید گواہ ہے۔ بعینہٖ آج کل وہ باقاعدگی سے شمالی کوریا کے دورے کر رہا ہے۔ آج کل شمالی کوریا اس حوالے سے سیاحوں کی جنت ہے۔ گزشتہ برس وہاں 6 سے 7 ہزار گوروں نے سیر کی تھی اس مرتبہ ممکن ہے یہ تعداد دگنی ہو جائے۔

گولان ہائٹس کے قریب ''قنطرہ'' کا مقام بھی اسی طرز کے سیاحوں کا اہم مرکز ہے۔ یہاں آپ کو سیاحوں کا رش نظر آئے گا۔ دراصل یہ وہ مقام ہے جو شام اور اسرائیل کی سرحد پر واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں شام اور مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی کے کئی اہم باب رقم ہوئے۔ یورپ اور امریکا کے سیاحتی اداروں نے ''قنطرہ'' کے مقام پر خاصی بلندی پر ایسا اہتمام اور انتظام کر رکھا ہے کہ یہاں سے نہ صرف یہ کہ وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے بلکہ آپ مہیا کی گئی طاقت ور دوربینوں سے کئی جنگی مناظر سے بہ چشم خود لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

''لوگ یہاں روزانہ تماشا دیکھنے آتے ہیں'' 54 برس کے کرنل ماروم کا کہنا ہے یہ اسرائیلی فوج سے کرنل ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور آج کل ٹورزم انڈسٹری میں اسی طرز کی سیاحت کے فروغ میں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ لوگ جوق در جوق یہاں آتے ہیں اور شام میں ہونے والی خون کی ہولی کا خود مشاہدہ کرتے ہیں اور گھر جاکر اپنے ملنے والوں کو اس کا آنکھوں دیکھا حال سناتے ہیں۔ یہ ایسا تجربہ ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔

گولان ہائٹس کی پہاڑیوں پر ایسا ہی ایک مقام ہے جسے دمشق کا ''گیٹ وے'' کہا جاتا ہے۔ یہ بھی سیاحوں کی جنت ہے۔ جہاں گولان ہائٹس کے آس پاس کسی بھی قسم کی شورش کی اطلاع ملی یہاں جگہ حاصل کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ طاقتور دوربینوں کی مدد سے وادی کا نظارہ کرنے والے ہلے پڑ رہے ہوتے ہیں۔

''واٹرلو سے لے کر گیٹس برگ تک اس قسم کی جنگی سیاحت کوئی نئی چیز نہیں'' برطانیہ کی مرکزی لینک شائر یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف ڈارک ٹورزم کے ریسرچ ڈائریکٹر فلپ اسٹون کا کہنا ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ سیاحت کی صنعت نے بس اتنا کیا ہے کہ اسے ایک بڑی تجارت کا درجہ دے دیا۔

گزشتہ برس امریکا میں ''سیکرامینٹو اولڈ ایسوسی ایشن'' نے 80 کی دہائی کی بدنام زمانہ سیریل کلر کیلیفورنیا ڈورتھی پونئے کی رہائش گاہ کو سیاحوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا ۔ وہاں خاص طور پر پائیں باغ میں اس مقام کی نشاندہی کی گئی جہاں وہ قتل کے بعد لاشوں کو دفن کیا کرتی تھی۔ گزشتہ برس ہی امریکا کی میزوری اسٹیٹ کے اصلاح خانے کو بھی سیرگاہ کے طور پر کھول دیا گیا۔ یہ جگہ ''امریکا کے خونی ترین 47 ایکڑ'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں سیاح ان گیس چیمبرز کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں جہاں سیکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔

سیاحوں کو افسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی دردناک موت کے چشم دید نہ بن سکے لیکن یہ بھی ان کی تسکین کے لیے اور کسی قدر تشفی کے لیے کافی ہے کہ وہ ان آلات ستم کے تو چشم دید ہیں جن سے افراد ہلاک ہوئے۔ مغرب تو مغرب مشرق بھی اس قسم کے خیالات سے کسی طور پیچھے رہنے والا نہیں۔ جاپان میں کچھ عرصہ قبل ایک اندوہناک جوہری سانحہ پیش آیا تھا۔ اب اس مقام کو فوکو شیما دائی چی پاور پلانٹ کی سیرگاہ کے طور پر تعمیر کرنے کا پلان بنالیا گیا ہے۔

یہاں سیاح تفریح کے لیے آئینگے اور ان مقامات کو قریب سے دیکھ سکیں گے کہ جہاں کئی افراد نے سسک کر دم توڑا اور جہاں تباہ ہونے والے جوہری مواد سے بیک وقت کئی شہر جوہری خطرے کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ امید ہے کہ جلد یا بدیر ایسا ہوجائیگا۔ جرمنی کا ''آشٹنر برکینو'' وہ مقام کہ جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں 11 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا اب ایک سیاحتی مقام ہے۔ کمبوڈیا کا وہ میدان جہاں قتل ہوئے اور وہ مقتل کے طور پر مشہور ہوا امریکا میں 9/11 کے واقعے کا ''پوائنٹ زیرو'' ڈارک ٹورزم کے مشہور مقامات میں سے ایک ہے۔

''جیک فلیچر'' ایک اور سیاح ہے اس نے روس میں چرنوبل کے مقام پر واقع جوہری پلانٹ کا دورہ کیا۔ وہاں جوہری تاریخ کا اندوہناک سانحہ پیش آیا تھا۔ جیک فلیچر کا کہنا ہے کہ ایسے مقامات کی اپنی ہی ایک اہمیت ہے۔ جب آپ چرنوبل جائینگے تو اس وقت جو آپ کی محسوسات ہوتی ہیں جو سنسنی آپ اپنے جسم میں محسوس کرتے ہیں اس کا کوئی اور مقابل نہیں ہوسکتا۔ خاص کر کسی سمندر کے کنارے کی گئی سیاحت اور چرنوبل کی سیاحت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کو جاننے اور محسوس کروانے کے لیے سیاحتی صنعت افراد کو راغب کر رہی ہے ان جنگی مقامات کی سیر کے لیے جہاں لوگ مر رہے ہیں یا ان مقامات کے لیے جہاں لوگ مرچکے ہیں۔ ایسے تمام مقامات کی سیاحت تفریح کے لیے ۔ لوگ جوق در جوق انفرادی بھی اور قافلوں کی شکل میں بھی ایسے مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔ بقول جون ایلیا:

کون سا قافلہ ہے یہ' جس کے جرس کا ہے یہ شور

میں تو نڈھال ہوگیا' ہم تو نڈھال ہوگئے

اور

شور اٹھا' مگر تجھے لذت گوش تو ملی

خون بہا' مگر تیرے ہاتھ تو لال ہوگئے

وہ ہاتھ لال نہیں کر پاتے لیکن ذہن اور کان کی لوئیں ضرور سرخ کرلیتے ہیں۔ اندازے کے مطابق اس طرز کی سیاحت میں 65 فیصد سالانہ کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ آج اس سیاحت سے 263بلین ڈالر سالانہ آمدنی کا اندازہ لگایا گیا ہے کچھ سیاحتی ادارے مثلاً ''وار زون ٹور'' اور ''وائلڈ فرنٹیئر'' 1990 سے یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح پاکستان اور افغانستان کے لیے ایسے ٹور آپریٹرز موجود ہیں ''ان سٹیڈ بارڈز'' کے نام سے جیمزو نکولس اور کوثر حسین 2006 سے یہ کام کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ آپ کو پاکستان کے پہاڑوں سے لے کر افغانستان کی گپھاؤں تک کی سیر کرواسکتے ہیں۔

نکولس ووڈ جو نیو یارک ٹائمز میں غیرملکی نامہ نگار تھے اب اسی طرز کے سیاسی سیاحت کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کسی روزنامے کے مدیر کی طرح ہی کام کرتے ہیں ہمیں پتا ہے کہ دنیا بھر میں کون سے مقامات ہیں جہاں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور دنیا بھر میں بیشمار دولتمند ہیں جو ان سرگرمیوں کا خود سے مشاہدہ کرنے میں دلچسپی ضرور لیں گے۔ ہم انھیں جمع کرتے ہیں اور سہولیات بہم پہنچاتے ہیں کہ وہ سکون سے اپنی تفریح سے لطف اندوز ہو سکیں۔اس طرز تفریح اور سیاحت کے ماننے والے عجیب عجیب دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر نفسیات میں ایک اصطلاح اور طریقہ ہے جو ''ٹیرر مینجمنٹ تھیوری'' کہلاتا ہے۔ اسے ٹی ایم ٹی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس سے قریب ترین چیز ''مراقبہ موت'' کو قرار دیا جاسکتا ہے۔

سالکین کے اسباق مراقبہ موت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ٹیرر مینجمنٹ تھیوری میں بتایا جاتا ہے کہ اپنی فنائیت اور موت کی یاد انسان کو موت کے خوف سے نجات دلا سکتی ہے۔ نفسیات دانوں کی اپنی ہی منطق ہوا کرتی ہے۔ موت کی سیاحت بلین آف ڈالرز کا بزنس ہے۔ اتنے بڑے بزنس کو اول تو کسی دلیل یا کسی وضاحت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اگر اتنے بڑے بزنس کو کسی بھی سائنسی یا غیر سائنسی دلیل کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے سائنسدانوں اور نفسیات دانوں کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے۔ سرسوں کے مقابلے میں کنولا کو عام کرنا ہو یا میڈیکل ٹورزم سے لے کر ڈیتھ ٹورزم تک ہر ہر چیز کے لیے سائنس آپ کو اصول اور دلائل فراہم کردے گی۔

سوال یہ ہے کہ انسانی موت سے تفریح اور سیاحت کسی اخلاق کے ماتحت آسکے گی یا حقوق انسانی کے فلسفے کے تحت یہ تفریح بھی حق قرار پائے گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں