ریلوے کب بہتر ہوگی
پاکستان ریلوے بہتر ہوگی یا پھر تباہ حال ہوگی اس بارے میں موجودہ حکومت نے اپنے مالی سال بجٹ
پاکستان ریلوے بہتر ہوگی یا پھر تباہ حال ہوگی اس بارے میں موجودہ حکومت نے اپنے مالی سال بجٹ 2014-15 میں کئی ایک ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 77 ارب کا نیا پیکیج دیا گیا ہے جس کا اعلان موجودہ بجٹ تقریر میں وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے کیا ہے ساتھ ہی ریلوے بورڈ کی تشکیل کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر کو دعوت دی گئی ہے اب تک کے اعلان کے مطابق ریلوے بورڈ میں 9 ممبران ہوں گے جو وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کی سربراہی میں کام کرے گا۔ جس میں 5 ممبران ریلوے کے ریٹائرڈ یا حاضر سروس بیوروکریٹ ہوں گے۔
دوسری جانب سے چار ممبران پرائیویٹ سیکٹر سے لیے جائیں گے ریلوے بورڈ تو پہلے بھی موجود تھا پھر اسے ختم کردیا گیا۔ 2000 میں پرویز مشرف کی حکومت میں بھی ریلوے ٹھیک نہ ہوسکی بلکہ دوسری مرتبہ ریلوے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔ اس سے قبل 1978 میں ضیا الحق کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ ریلوے کے گڈس (فریٹ) کو ختم کرنے کے لیے اس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے نے ریلوے کے مقابلے میں لاجسٹک سیل کے نام پر ریلوے کا فریٹ سسٹم خراب کیا وہ پہلا اقدام تھا ریلوے کا بیڑہ غرق کرنے میں جب کہ دوسرا اقدام ایک دوسرے صاحب نے اٹھایا۔
وہ پہلے ریلوے کا چیئرمین بنے اور پھر وزیر ریلوے بن گئے۔ ہمارے لاہور ورکشاپس، اسلام آباد کیرج فیکٹری، رسال پور لوکو موٹیو فیکٹری میں انجن اور کوچز تیار ہوتے تھے ہر 20 سال بعد انجن امریکا، جرمنی اور جاپان سے آتے تھے جو چلنے میں جاندار اور مضبوط ہوتے تھے کچھ انجن ہم بناتے تھے کوچز بھی ہم خود بناتے تھے بلکہ ایکسپورٹ بھی کیا کرتے تھے۔ جاوید اشرف قاضی نے چین سے پہلے مرحلے میں 69 انجن اور 175 پیسنجر کوچز کا معاہدہ کیا جب کہ دوسرے مرحلے میں 75 انجن 350 کوچز اور مال گاڑی کے ڈبے منگوانے کا معاہدہ کیا۔
یہ 69 انجن 2000 میں آگئے مگر چھ ماہ بعد ہی 40 انجن خراب ہوگئے کوچز اور انجن سائز کے مطابق نہ تھے جس کی وجہ سے کئی اسٹیشن کے پلیٹ فارم کاٹے یا توڑے گئے اسی پر بات نہ بنی بلکہ پہلی مرتبہ ریلوے کے اثاثے فروخت کیے گئے۔ جن میں ریلوے اسکول، ریلوے اسپتال، ریلوے ہاسٹل، ریلوے کلب فروخت کیے گئے ریلوے کی قیمتی اور پرائم لینڈ بیچی گئی۔ جن پر مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔ ریلوے بورڈ ختم کردیا گیا۔ باہر سے بیوروکریٹ کو لاکر ریلوے کا چیئرمین بنایا گیا۔ اس طرح ریلوے میں دوسری بار شب خون مارا گیا۔ 1999 میں ریلوے اسٹیٹ بینک کا 20 ارب کا مقروض تھا۔ ریلوے 40 ارب کا مقروض ہوگیا۔ جب کہ جو اثاثہ جات فروخت کیے گئے اس کی اربوں روپے کی رقم کہاں گئی؟
پیپلز پارٹی کی حکومت میں ریلوے کا مزید بیڑہ غرق ہوا۔اس دور میں ریلوے بند ہونے کی طرف جا رہی تھی بلکہ بعض مواقعے پر تو وزیر موصوف نے کہہ بھی دیا کہ کئی ایک ملک میں ریلوے نہیں ہے تو کیا وہ ملک نہیں چل رہے؟ مجھے 400 انجن دے دو میں گاڑیاں چلادوں گا، واضح رہے کہ ریلوے کے پاس کبھی بھی ایک ساتھ 400 انجن نہیں آئے تھے۔ کبھی 50 انجن آئے کبھی 100 انجن، اسی طرح انجنوں کی مرمت بھی ہوتی رہتی تھی اور نئے انجن بھی آتے رہتے تھے مگر 2008 تا2013 تک انجن نہیں آئے جو چین سے 75 انجن آنے تھے وہ بھی نہ آسکے وجہ اس کی پہلی والی تھی کہ 40 انجن خراب ہوگئے۔
اب 2013 میں نواز شریف حکومت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ وہ ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیں گے اور نجکاری نہیں ہونے دیں گے اگر ناکام رہا تو وزارت سمیت سیاست بھی چھوڑ دوں گا۔بڑا اچھا فیصلہ ہے جس کا ملازمین نے بھی خیرمقدم کیا ہے ریلوے اب کچھ بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ خسارہ 52 ارب کا ہوگیا ہے مگر اب آمدنی بڑھ رہی ہے پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال 7 ارب آمدنی بڑھی ہے۔
سالانہ 25 ارب ہوگئی ہے اس بجٹ میں وزیر اعظم، وزیر خزانہ، وزیر ریلوے نے ریلوے کے نئے پروجیکٹ بنانے، ملازمین کی تنخواہیں وقت پر ادا کرنے کے لیے 77 ارب روپے ریلوے کو دینے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت اب ریلوے کراچی تا پشاور، راولپنڈی، کراچی تا چمن کے ساتھ ساتھ کشمیر ریلویز کے ذریعے اسلام آباد، مظفر آباد، مری، نتھیا گلی، سیاحت کو فروغ دینے کے لیے نئی ریلوے لائن بچھائی جائے گی اور ایک نئی کمپنی بنائی جائے گی سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (PSDP) کے مطابق اسلام آباد سے مظفر آباد ریلوے لنک ٹو (KPC) کی فزیبلٹی ایسڈی کے لیے 6 کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔
خانیوال تا رائے ونڈ تک ڈبل ٹریک کرنے کے لیے 44 کروڑ 12 لاکھ روپے، شاہدرہ سے لالہ موسیٰ تک کے لیے 57 کروڑ روپے، ٹریک کی مرمت کے منصوبوں کے لیے ایک ارب روپے 500 ہائی کیپسٹی ماسز کوچز کے لیے اور 40 پاور وین کے لیے 9 ارب روپے۔75 انجنوں کی مرمت اور خریداری کے لیے 4 ارب 60 کروڑ روپے 50 نئے ڈیزل الیکٹرک لوکوموٹیو کے لیے 6 ارب 50 کروڑ روپے۔ ڈیزل لوکوموٹیوز کی خریداری کے لیے اور مرمت کے لیے ایک ارب 9 کروڑ روپے۔ 150 ڈیزل لوکوموٹیو کی بحالی اور مرمت کے لیے 2 ارب 30 کروڑ روپے۔ خانپور، لودھراں سیکشن پر 75 کروڑ71 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
چائنا، پاکستان اکنامک کوری ڈور کے لیے 66 کروڑ روپے، سیکیورٹی آلات کی خریداری کے لیے 50 کروڑ روپے۔ اسی طرح لودھراں، خانپور، کوٹری سیکشن پر سگنل نظام کی بہتری کے لیے 2 ارب 75 کروڑ روپے، کول ٹرانسپورٹیشن کے لیے ہوپر ویگن خریدنے کے لیے ایک ارب 69 کروڑ20 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کو اگر دیانتداری سے خرچ کیا جائے تو پاکستان ریلوے ایک بہتر اور مضبوط تیز رفتار ریلوے بن جائے گی۔ عوام بھی سفری سہولتوں سے فائدہ اٹھاسکیں گے اور ریلوے ملازمین دن رات محنت کرکے ریلوے کے ساتھ ساتھ خود بھی خوشحال ہوجائیں گے۔
اب ریلوے کے پاس انجن آنا شروع ہوگئے ہیں اب تک چین کی نئی کمپنی کی جانب سے 19 انجن آچکے ہیں جب کہ 20 انجن اگست تک آجائیں گے اس طرح دسمبر 2014 تک کل 58 انجن معاہدے کے تحت آجائیں گے جب کہ 6 انجن کوریا سے بھی آچکے ہیں۔ دوسری جانب امریکا سے 150 انجنوں کا سودا ہوگیا ہے اگر پاکستان ریلوے انجنوں کے معاملے میں خودکفیل ہوگیا تو پھر ریلوے ایک بڑا منافع بخش ادارہ بن جائے گا دوسری طرف ہماری گڈس ٹرینیں (مال گاڑیاں) برائے نام چل رہی ہیں ان کی تعداد بڑھائی جائے۔ دیگر کمپنیوں سے گڈز ٹھیکہ منسوخ کرکے ریلوے ازخود اپنی مال گاڑیاں چلائے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی بزنس ٹرین جو کہ 50 کروڑ کی مقروض ہوگئی ہے اس کا ٹھیکہ منسوخ کیا جائے۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کی دوسری 2 ٹرینیں شالیمار اور نائٹ کوچ کا بھی ٹھیکہ کینسل کیا جائے یہ ٹرینیں ریلوے ازخود چلائے یہ عجیب نج کاری ہے کہ ریل کے ڈبے ہمارے انجن ہمارا، ڈیزل تیل ہمارا، ریلوے ٹیک ہمارا، بکنگ اور ریزرویشن آفس ہمارا استعمال کیا جائے اور ٹھیکیدار صرف ٹکٹ بیچ کر منافع کماتا رہے۔ نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حادثہ ہوتو انجن اور بوگی ہماری تباہ و برباد تیل ہمارا جلایا جائے تو نقصان تو پھر ریلوے کا ہی ہو رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ سارا کام ریلوے ملازمین اور انتظامیہ ہی انجام دے۔ ریلوے کی قیمتی زمینوں کو حرکت میں لایا جائے شہری زمینوں پر بڑے بڑے پلازہ ہوٹلز بناکر کرائے پر دیے جائیں، بند کیے گئے سیکشنوں کی زرعی زمین پٹے پر دے کر رقم وصول کی جائے ریلوے کی زمینیں ناجائز قابضین سے خالی کرکے ملازمین اور بیوہ کو دی جائیں یا پھر ناجائز قابضین سے مارکیٹ ریٹ پر رقم وصول کی جائے ریلوے کے تمام پروجیکٹ ختم کیے جائیں پراکس نامی ادارے کو ریلوے میں ضم کرکے اس کو ختم کیا جائے۔
کرپشن کا خاتمہ، کمیشن سسٹم کا خاتمہ، لوکل پرچیز کا خاتمہ، لوٹ مار کا خاتمہ، افسران ان کی فوج ظفر موج کا خاتمہ، بڑے بڑے لگژری بنگلوں کا خاتمہ، بڑے بڑے سیلونوں کا خاتمہ، بند کی گئی تمام ٹرینوں کو بحال کرنا، ٹرینوں میں پانی، بجلی پنکھے کی فراہمی، اسٹیشن پر ٹھنڈے پانی کے کولر، ویٹنگ روم کو بہتر بنانا، اسٹیشن پر رئٹائرنگ روم کو بحال کرنا، پلیٹ فارم پر معیاری اشیا کی فروخت تمام ٹرینوں میں ڈائننگ کار لگانے، ریلوے اسپتالوں کو بہتر بنانے ریلوے اسکولز کو جدید علوم سے آراستہ کیا جائے، رننگ روم کی حالت بہتر کرنے ملازمین کو یونی فارم مہیا کرنے جیسے اقدامات سے ملازمین اور مسافروں اور بیوپاریوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ریل چل پڑے گی۔
دوسری جانب سے چار ممبران پرائیویٹ سیکٹر سے لیے جائیں گے ریلوے بورڈ تو پہلے بھی موجود تھا پھر اسے ختم کردیا گیا۔ 2000 میں پرویز مشرف کی حکومت میں بھی ریلوے ٹھیک نہ ہوسکی بلکہ دوسری مرتبہ ریلوے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔ اس سے قبل 1978 میں ضیا الحق کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ ریلوے کے گڈس (فریٹ) کو ختم کرنے کے لیے اس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے نے ریلوے کے مقابلے میں لاجسٹک سیل کے نام پر ریلوے کا فریٹ سسٹم خراب کیا وہ پہلا اقدام تھا ریلوے کا بیڑہ غرق کرنے میں جب کہ دوسرا اقدام ایک دوسرے صاحب نے اٹھایا۔
وہ پہلے ریلوے کا چیئرمین بنے اور پھر وزیر ریلوے بن گئے۔ ہمارے لاہور ورکشاپس، اسلام آباد کیرج فیکٹری، رسال پور لوکو موٹیو فیکٹری میں انجن اور کوچز تیار ہوتے تھے ہر 20 سال بعد انجن امریکا، جرمنی اور جاپان سے آتے تھے جو چلنے میں جاندار اور مضبوط ہوتے تھے کچھ انجن ہم بناتے تھے کوچز بھی ہم خود بناتے تھے بلکہ ایکسپورٹ بھی کیا کرتے تھے۔ جاوید اشرف قاضی نے چین سے پہلے مرحلے میں 69 انجن اور 175 پیسنجر کوچز کا معاہدہ کیا جب کہ دوسرے مرحلے میں 75 انجن 350 کوچز اور مال گاڑی کے ڈبے منگوانے کا معاہدہ کیا۔
یہ 69 انجن 2000 میں آگئے مگر چھ ماہ بعد ہی 40 انجن خراب ہوگئے کوچز اور انجن سائز کے مطابق نہ تھے جس کی وجہ سے کئی اسٹیشن کے پلیٹ فارم کاٹے یا توڑے گئے اسی پر بات نہ بنی بلکہ پہلی مرتبہ ریلوے کے اثاثے فروخت کیے گئے۔ جن میں ریلوے اسکول، ریلوے اسپتال، ریلوے ہاسٹل، ریلوے کلب فروخت کیے گئے ریلوے کی قیمتی اور پرائم لینڈ بیچی گئی۔ جن پر مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔ ریلوے بورڈ ختم کردیا گیا۔ باہر سے بیوروکریٹ کو لاکر ریلوے کا چیئرمین بنایا گیا۔ اس طرح ریلوے میں دوسری بار شب خون مارا گیا۔ 1999 میں ریلوے اسٹیٹ بینک کا 20 ارب کا مقروض تھا۔ ریلوے 40 ارب کا مقروض ہوگیا۔ جب کہ جو اثاثہ جات فروخت کیے گئے اس کی اربوں روپے کی رقم کہاں گئی؟
پیپلز پارٹی کی حکومت میں ریلوے کا مزید بیڑہ غرق ہوا۔اس دور میں ریلوے بند ہونے کی طرف جا رہی تھی بلکہ بعض مواقعے پر تو وزیر موصوف نے کہہ بھی دیا کہ کئی ایک ملک میں ریلوے نہیں ہے تو کیا وہ ملک نہیں چل رہے؟ مجھے 400 انجن دے دو میں گاڑیاں چلادوں گا، واضح رہے کہ ریلوے کے پاس کبھی بھی ایک ساتھ 400 انجن نہیں آئے تھے۔ کبھی 50 انجن آئے کبھی 100 انجن، اسی طرح انجنوں کی مرمت بھی ہوتی رہتی تھی اور نئے انجن بھی آتے رہتے تھے مگر 2008 تا2013 تک انجن نہیں آئے جو چین سے 75 انجن آنے تھے وہ بھی نہ آسکے وجہ اس کی پہلی والی تھی کہ 40 انجن خراب ہوگئے۔
اب 2013 میں نواز شریف حکومت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ وہ ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیں گے اور نجکاری نہیں ہونے دیں گے اگر ناکام رہا تو وزارت سمیت سیاست بھی چھوڑ دوں گا۔بڑا اچھا فیصلہ ہے جس کا ملازمین نے بھی خیرمقدم کیا ہے ریلوے اب کچھ بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ خسارہ 52 ارب کا ہوگیا ہے مگر اب آمدنی بڑھ رہی ہے پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال 7 ارب آمدنی بڑھی ہے۔
سالانہ 25 ارب ہوگئی ہے اس بجٹ میں وزیر اعظم، وزیر خزانہ، وزیر ریلوے نے ریلوے کے نئے پروجیکٹ بنانے، ملازمین کی تنخواہیں وقت پر ادا کرنے کے لیے 77 ارب روپے ریلوے کو دینے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت اب ریلوے کراچی تا پشاور، راولپنڈی، کراچی تا چمن کے ساتھ ساتھ کشمیر ریلویز کے ذریعے اسلام آباد، مظفر آباد، مری، نتھیا گلی، سیاحت کو فروغ دینے کے لیے نئی ریلوے لائن بچھائی جائے گی اور ایک نئی کمپنی بنائی جائے گی سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (PSDP) کے مطابق اسلام آباد سے مظفر آباد ریلوے لنک ٹو (KPC) کی فزیبلٹی ایسڈی کے لیے 6 کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔
خانیوال تا رائے ونڈ تک ڈبل ٹریک کرنے کے لیے 44 کروڑ 12 لاکھ روپے، شاہدرہ سے لالہ موسیٰ تک کے لیے 57 کروڑ روپے، ٹریک کی مرمت کے منصوبوں کے لیے ایک ارب روپے 500 ہائی کیپسٹی ماسز کوچز کے لیے اور 40 پاور وین کے لیے 9 ارب روپے۔75 انجنوں کی مرمت اور خریداری کے لیے 4 ارب 60 کروڑ روپے 50 نئے ڈیزل الیکٹرک لوکوموٹیو کے لیے 6 ارب 50 کروڑ روپے۔ ڈیزل لوکوموٹیوز کی خریداری کے لیے اور مرمت کے لیے ایک ارب 9 کروڑ روپے۔ 150 ڈیزل لوکوموٹیو کی بحالی اور مرمت کے لیے 2 ارب 30 کروڑ روپے۔ خانپور، لودھراں سیکشن پر 75 کروڑ71 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
چائنا، پاکستان اکنامک کوری ڈور کے لیے 66 کروڑ روپے، سیکیورٹی آلات کی خریداری کے لیے 50 کروڑ روپے۔ اسی طرح لودھراں، خانپور، کوٹری سیکشن پر سگنل نظام کی بہتری کے لیے 2 ارب 75 کروڑ روپے، کول ٹرانسپورٹیشن کے لیے ہوپر ویگن خریدنے کے لیے ایک ارب 69 کروڑ20 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کو اگر دیانتداری سے خرچ کیا جائے تو پاکستان ریلوے ایک بہتر اور مضبوط تیز رفتار ریلوے بن جائے گی۔ عوام بھی سفری سہولتوں سے فائدہ اٹھاسکیں گے اور ریلوے ملازمین دن رات محنت کرکے ریلوے کے ساتھ ساتھ خود بھی خوشحال ہوجائیں گے۔
اب ریلوے کے پاس انجن آنا شروع ہوگئے ہیں اب تک چین کی نئی کمپنی کی جانب سے 19 انجن آچکے ہیں جب کہ 20 انجن اگست تک آجائیں گے اس طرح دسمبر 2014 تک کل 58 انجن معاہدے کے تحت آجائیں گے جب کہ 6 انجن کوریا سے بھی آچکے ہیں۔ دوسری جانب امریکا سے 150 انجنوں کا سودا ہوگیا ہے اگر پاکستان ریلوے انجنوں کے معاملے میں خودکفیل ہوگیا تو پھر ریلوے ایک بڑا منافع بخش ادارہ بن جائے گا دوسری طرف ہماری گڈس ٹرینیں (مال گاڑیاں) برائے نام چل رہی ہیں ان کی تعداد بڑھائی جائے۔ دیگر کمپنیوں سے گڈز ٹھیکہ منسوخ کرکے ریلوے ازخود اپنی مال گاڑیاں چلائے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی بزنس ٹرین جو کہ 50 کروڑ کی مقروض ہوگئی ہے اس کا ٹھیکہ منسوخ کیا جائے۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کی دوسری 2 ٹرینیں شالیمار اور نائٹ کوچ کا بھی ٹھیکہ کینسل کیا جائے یہ ٹرینیں ریلوے ازخود چلائے یہ عجیب نج کاری ہے کہ ریل کے ڈبے ہمارے انجن ہمارا، ڈیزل تیل ہمارا، ریلوے ٹیک ہمارا، بکنگ اور ریزرویشن آفس ہمارا استعمال کیا جائے اور ٹھیکیدار صرف ٹکٹ بیچ کر منافع کماتا رہے۔ نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حادثہ ہوتو انجن اور بوگی ہماری تباہ و برباد تیل ہمارا جلایا جائے تو نقصان تو پھر ریلوے کا ہی ہو رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ سارا کام ریلوے ملازمین اور انتظامیہ ہی انجام دے۔ ریلوے کی قیمتی زمینوں کو حرکت میں لایا جائے شہری زمینوں پر بڑے بڑے پلازہ ہوٹلز بناکر کرائے پر دیے جائیں، بند کیے گئے سیکشنوں کی زرعی زمین پٹے پر دے کر رقم وصول کی جائے ریلوے کی زمینیں ناجائز قابضین سے خالی کرکے ملازمین اور بیوہ کو دی جائیں یا پھر ناجائز قابضین سے مارکیٹ ریٹ پر رقم وصول کی جائے ریلوے کے تمام پروجیکٹ ختم کیے جائیں پراکس نامی ادارے کو ریلوے میں ضم کرکے اس کو ختم کیا جائے۔
کرپشن کا خاتمہ، کمیشن سسٹم کا خاتمہ، لوکل پرچیز کا خاتمہ، لوٹ مار کا خاتمہ، افسران ان کی فوج ظفر موج کا خاتمہ، بڑے بڑے لگژری بنگلوں کا خاتمہ، بڑے بڑے سیلونوں کا خاتمہ، بند کی گئی تمام ٹرینوں کو بحال کرنا، ٹرینوں میں پانی، بجلی پنکھے کی فراہمی، اسٹیشن پر ٹھنڈے پانی کے کولر، ویٹنگ روم کو بہتر بنانا، اسٹیشن پر رئٹائرنگ روم کو بحال کرنا، پلیٹ فارم پر معیاری اشیا کی فروخت تمام ٹرینوں میں ڈائننگ کار لگانے، ریلوے اسپتالوں کو بہتر بنانے ریلوے اسکولز کو جدید علوم سے آراستہ کیا جائے، رننگ روم کی حالت بہتر کرنے ملازمین کو یونی فارم مہیا کرنے جیسے اقدامات سے ملازمین اور مسافروں اور بیوپاریوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ریل چل پڑے گی۔