عشقِ نبویﷺ علامہ اقبال ، تاریخ اور رجایت
علامہ اقبال 1877 ء میں پیدا ہو ئے اور 1938ء میں انتقال کر گئے۔ تعلیم کے اعتبار سے دیکھیں تو اُنہیں عربی، فارسی، انگریزی اور اردوپر عبور حاصل تھا اور کسی حدتک جرمن زبان سے بھی واقفیت رکھتے تھے وہ فلسفے اور قانون کی اعلیٰ تعلیم یعنی بار ایٹ لا، ایم اے فلاسفی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ تحقیقی بنادوں پر عالمی، علاقائی سیاست میں دستاترعالم اور سیاست میں رائج نظریات یعنی اشراکیت ، سر مایہ دارانہ، مغربی جمہوریت، نیشنل ازم، فاشزم یعنی فسطایت کو پوری طرح سمجھتے تھے۔
اُن کی گہری نظر تاریخ عالم خصوصاً تاریخ اسلام پر تھی لیکن سب سے اہم یہ کہ اُنہوں نے قرآن کابہت گہرا مطالعہ کیا اللہ تعالیٰ کے کلام کو روحانی و ذہنی شعور کے ساتھ دل ودماغ میں جذب کر کے اشعار کے ذریعے تفسیرکے انداز میں قارئین، سامعین اور اپنے دور کے حاضرین تک منتقل کیا۔ اقبال کی قرآن فہمی کے بارے میں اُن کے پرانے اور بہت قریبی خدمتگار علی بخش سے روایت ہے وہ نمازِ فجر کے بعد قرآن پا ک کی تلاوت کرتے اور زار قطار روتے جاتے اتنا روتے کہ اکثر بعد میں قرآن پاک کو دھوپ میں خشک کیا جا تا تھا ،شاید یہ شعر انہی آنسووں کے حوالے سے ہے۔
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
پھر اُنہوں نے اپنا آئیڈیل نبی کریم ﷺ کی پاک شخصیت کو بنایا یعنی عشق ِنبویﷺ کے جذبے کے ساتھ وہ عشاق نبیؐ بلال ؓ ، اویس قرنی ؓ اور سلمان فارسی ؓ سے استفادہ کرتے رہے وہ علم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر عشق کوعقل اور علم پر فوقیت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جاگیر تری
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ
عشق کی تیغ جگر دار اڑالی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اقبال علم اور عقل کو عشق کے جذبے کے بغیر درست نہیں سمجھتے ہیں اور یہ معرفت اُنھیں عشق نبویﷺ سے حاصل ہوئی ہے جسے وہ جواب شکوہ میں یوں پیش کرتے ہیں ۔
کی محمدﷺ سے وفا تُو نے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لو ح و قلم تیر ے ہیں
اُن کی گہری نظر تاریخ عالم پر تھی، نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ اور خلافت راشدہ عالمی تاریخ کا وہ کامل دور ہے جسے انسانیت ، روحانیت، سماجیات کے اعلیٰ ترین معیار کی کسوٹی پر، پرکھا جا سکتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں صحابہ کرام کے بعد صلاح الدین ایوبی جیسی کئی شخصیات ہیںاور سب ہی کے حوالہ جات ہمیں اقبال کی شاعری میں ملتے ہیں ،تاریخ یورپ میں فرانس کے علاقے سسلی کے علاوہ اسپین میں مسلمانوں کی حکو مت قائم رہی علامہ اقبال اسپین کی اسلامی تاریخ سے کئی بنیادوں پر متا ثر ہیں فاتح اسپین طارق بن زیادایسی شخصیت ہیں کہ اُن کے کشتیاں جلا نے کے حوالے سے یہ ضرب مثل دنیا کی ہر زبان میں عام ہے جب طارق بن زیاد نے اسپین کے ساحل پر کشتیاں جلا دی تھیں اقبال کی نظم سے چند اشعار عنوان
طارق کی دعا ۔ اندلس کے میدان میں
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم اِ ن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگا نہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
اسپین کو 19 جولائی 711 ء میں طارق بن زیاد نے فتح کیا تھا یہاں سے ہی مسلمانوںکی علم تحقیق دریافتیں اور ایجادات مغرب میں پہنچیں اسپین میں تقریباً ساڑھے سات سو سال بعد مسلمان اپنوں کی غداری اور مفاد پرستی کی وجہ سے شکست کھا گئے، 1492ء میں مسلمان کمزور ہو گئے تو ہسپانیہ (اسپین) کا مو جودہ علاقہ چار بادشاہتوں میں تقسیم تھا نمبر1۔ کیسٹائل کی سلطنت جو سب سے بڑی تھی اور اس کی ملکہ ازیبلا تھی۔ نمبر2۔ آرا گون جس کا بادشاہ فرڈیننڈ تھا۔ نمبر3۔ مسلمانوںکی سلطنت غرناطہ اور ایک چھوٹی سی ریاست ناورائی تھی، عیسائی متعصب ملکہ نے فریننڈ سے شادی کرلی پھر دونوں نے مل کر مسلمان غداروں کی مدد سے غرناطہ کو شکست دے دی اور یہاں غیر عیسا ئیوں کا ایسا قتل عام کیا کہ ایک مسلمان کو بھی اسپین میں باقی نہیں چھوڑاواضح رہے کہ اسی ملکہ ازیبلا نے کرسٹو فر کولمبس کی مالی مدد کی جس نے اسی سال یعنی 1492ء میں ہی امریکہ دریا فت کیا علامہ اقبال نے 30 دسمبر 1930ء میں الہٰ آباد کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صدارتی خطبہ میں پاکستان کا واضح تصور پیش کیا تھا اور 1933ء میں اپنی وفات سے پانچ سال قبل اقبال اسپین گئے تھے جہاں مسجد قرطبہ کے عنون سے دنیا کی شاہکار نظم کے علاوہ بہت سے اشعار کہے ، جیسے
پو شیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری باد ِ سحر میں
ہسپانیہ تُو خونِ مسلماں کا امیں ہے
مانند حرم پاک ہے تُو میری نظر میں
پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی
باقی ہے ابھی رنگ میرے خون ِ جگر میں
اقبال تاریخ کے اس موڑ سے اچھی طرح واقف تھے جب اہل یورپ ابھرنے لگے اور مسلمان زوال پذیر ہونے لگے وہ بغداد پر ہلاکو کے حملے کوبھی تاریخ کی واقفیت سے دیکھتے تھے مگر وہ مسلمانوں کو مایوس نہیں ہو نے دیتے ہیں واضح رہے کہ چنگیز خان اور ہلاکو نے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کیا مگر پھر اِنہی تاتاریوںاور مغلوں ہی کی نسل میں امیر تیمور پیدا ہوا جس نے بڑی فتوحات کیں جس پر اقبال کہتے ہیں۔
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تُو ہے
عصرِ نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تُو ہے
علامہ قبال برصغیر میں وہ جہاں غداران وطن میر صادق اور میر جعفر کی مذمت کرتے ہیں وہاں ٹیپو سلطان کو نظم ( ٹیپو سلطان کی وصیت ) میں ٹیپو کے جذبہ ایمانی کویوں پیش کرتے ہیں ۔
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانئہ حق و باطل نہ کر قبول
ٹیپو سلطان کی ریاستِ میسور ساحل کے اعتبار سے بھی بہت اہمیت رکھتی تھی اُس وقت ہند وستان کے اِس علاقے میں انگریز وں کے علاوہ مرہٹے اور حیدر آباد دکن میں نظام حیدر آباد کی حکو مت تھی یہ ٹیپو سلطان کے خلاف انگریزوں سے مل گئے ساتھ ہی ٹیپو کے وزیر میر صادق نے بھی ٹیپو سلطان کے ساتھ غداری کی اور انگریزوں سے مل کر ٹیپو سلطان کے خلا ف سا زش کی۔
ٹیپو سلطان نے کو شش کی کہ فرانس کے نپولین سے مدد لے ٹیپو سلطان نے اکتو بر1797ء میں نپولین سے رابطے کئے یہی وہ دور ہے جب روس کے بادشاہ زار جان پال اوّل نے بھی کو شش کی کہ نپولین اگر ہند وستان پر حملہ کرئے تو روس بلوچستان کے راستے حملہ آور ہوگا اور یہاں سے گرم پانی کا ساحل حاصل کرئے گا یہ وہ زمانہ ہے جب نپولین فرانسیسی فوج کا سپہ سالار تھا اور فرانس انقلاب کے مراحل سے گزر رہا تھا نیپولین نے ڈائریکٹریٹ (یعنی فرانس کی انقلابی شوریٰ پارلیمنٹ) کو بتا یا کہ مصر پر قبضے کے بعد وہ ہندوستان میں ٹیپو سلطان کی مدد کواپنی افواج لے کر جا ئے گا مصر پر قبضے کے بعد نپولین اپنی فوجوں کو وہاں چھوڑکر فرانس واپس آیا تو واپسی کے بعد فرانسیسی فو جیں انگریزوں کا مقابلہ نہ کر سکیں اور انقلاب کے رد عمل میں فرانس میں حالات ایسے ہو ئے کہ نپولین وہاں پہنچ کربادشاہ بن گیاجب کہ ہندوستان میں سلطان ٹیپو کو 1799ء میں شکست ہو گئی بعد میں یہی نپولین روس کے خلاف جنگ کر نے کی حماقت کر بیٹھا اور لاکھوں فرانسیسی فوج ہلاک کر وا کر واپس ہوا۔
اقبال کے سامنے 1857ء کی ہند وستان کی جنگ آزادی کا بھی گہر ا تحقیقی مطالعہ تھا وہ علی گڑھ سر سید کی تعلیمی تحریک سے بھی واقف تھے علامہ اقبال 1877ء میں پیدا ہو ئے 1900ء میں وہ 23 برس کے نو جوان تھے جب دنیا میں نو آبادیا تی نظام برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال، روس زار سلطنت کے اعتبار سے دنیا پر مسلط ہو تا آگے بڑھ رہا تھا، مشرق وسطیٰ میں بھی سلطنت عثمانیہ کو چیلنج کر رہا تھا اور مشرقی یورپ میں بھی بلقان کی ریاستوں جہاں ترکی کا قبضہ تھا یہاں بھی بلغاریہ ، سربیا، یونان، عثمانیہ خلافت کے ہاتھوں سے نکل رہے تھے یہ زمانہ تاریخی شعور کے اعتبار سے بہت اہم تھا یہ اقبال کا عہدتھا جب ترکی کی خلافت عثما نیہ ملکوکیت اور انحطاط پر تھی اور اسے مرد بیمار کہا جا رہا تھا جب طرابلس مو جودہ لیبااور اٹلی کی جنگوں میں عمر مختار اور وہاں کے عوام اٹلی سے آزادی کے لیے لڑے پہلے ترکی کو شکست ہوئی علامہ قبال یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے۔
اُن کے سامنے تاریخ ترتیب پا رہی تھی اسپین کی عظیم مسلم سلطنت کے مکمل خاتمے کے بعد اب مغربی قوتیں اسلامی خلافت عثمانیہ کے خلاف تھی اس دور میں علامہ اقبال کی پُر درد ، پُر اثر شاعری جذبہ ایمانی سے سر شار ہمارے سامنے آتی ہے اسی دور کی ایک اہم نظم (فاطمہ بنت عبداللہ) فاطمہ جو طرابلس کے میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کو پانی پلاتے ہو ئے شہید ہو ئی پھر یہی عاشق ِ رسولﷺ علامہ اقبال اپنی نظم عنوان :( حضور رسالت مآب ﷺ میں ) یوں فرماتے ہیں۔
حضور! دہر میں آسُودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہوبو، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تیر ی امت کی آبرو اِس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں
واضح رہے کہ اس سے قبل اقبال شکوہ اور جواب شکوہ میں بھی اپنے آئیڈیل حضرت محمد ﷺ کے حوالے سے مسلمانوں پر تاریخ کے اس تباہ کن دور پر اسی نکتے پر زور دیتے رہے ہیں، جس کا متن ہے کہ ہم نے نبی کر یم ﷺ کی ہدایت اور تعلیمات کو ترک کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان دنیا بھر میں خوار ہو رہے ہیں ، چند اشعار دیکھیں ،
تجھ کو چھو ڑا کہ رسول ِ عربیؐ کو چھوڑا
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا
عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا
رسمِ سلمان و اویس ِ قرنی کو چھوڑا
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثلِ بلالِ حبشی رکھتے ہیں
کی محمد ؐ سے وفا تُو نے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
1914ء میں جنگِ عظم اوّل یا عالمی جنگ شروع ہو گئی مگر اِس سے قبل دنیا کے براعظموں میں بڑی اہم تبدیلیاں رو نما ہو چکی تھیںامریکہ نے بر طانیہ سے جنگ کے بعد 4 جولائی 1776ء کو آزادی حاصل کر لی پھر امریکی معاشرے میں بڑی تبدیلی اُس وقت آئی جب 12 اپریل 1861ء سے 9 اپریل 1865ء تک امریکہ میں خانہ جنگی رہی جو دراصل انقلاب ہی تھا پھر انقلاب ِفرانس جس کے پس منظر میں والٹیئراور روسوتھے اب روس اور چین میں کارل مارکس کے اشتراکی نظریات کے تحت چلنے والی تحرکیوں سے بھی اقبال گہرے مطالعہ کی بنیاد پر واقف تھے ،ضرب کلیم میں مارکس کے نظریات پر اُن کے اشعار یوں ہیں ۔
یہ علم و حکمت کی مُہرہ بازی ،یہ بحث و تکرار کی نما ئش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش
تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوطِ خم دار کی نمائش مریزو کج دار کی نمائش
جہانِ مغرب کے بت کدوں میں، کلیسیاؤں میں، مدرسوں میں
ہوس کی خون ریزیاں چھپاتی ہے عقل ِ ِعیار کی نمائش
اسی طرح چین میں اشتراکی نظریات کے تحت چلنے والی تحریک کے بارے میں اقبال کی طویل نظم ( ساقی نامہ ) کے اشعار یوں ہیں
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سمبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
یوں جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی توایک جانب ترکی کی سلطنت اور جرمنی تھے تو اِس کے مقابلے میں برطانیہ فرانس ، روس اور یورپ کی تمام قوتیں تھیں روس اکتو بر1917ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد پہلی عالمی جنگ سے باہر آگیا اور اس کی جگہ امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا، اس زمانے میں ہندوستان میں انگریز مرحلہ وار یہاں پارلیمانی جمہوری سیاست کو بہت محدود اختیارات کے ساتھ کنٹرول کرتے ہوئے متعارف کر رہا تھا۔
1885ء میں کانگریس اور 1906ء میں مسلم لیگ وجود میں آچکی تھی علامہ اقبال اور قائد اعظم اُس وقت ہندو ستان کی تقسیم کا کوئی تصور نہیں رکھتے تھے جب کہ قائد اعظم 1916ء میں مسلم لیگ اورکانگریس میں دونوں جماعتوں کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد کر وانے اور پھر اِن کے درمیان میثاق لکھنو جیسا متوازن اور مفید معاہدہ کروانے میں کامیاب ہو گئے، جس میں کانگریس نے جداگانہ طریقہ انتخاب کے مسلم حق کو بھی تسلیم کرلیا اور ہند وستان میں مسلمانوں کی شناخت کی ضمانت اور اقتصادی معاشی حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دی تھی یہ معاہدہ جنگ عظیم اوّل کے شروع ہونے کے دو سال بعد ہوا۔
میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ یہ معاہدہ کانگریس نے اُس وقت اِس لیے کیا تھا کہ کانگریس کے رہنما ؤں نے یہ سوچا کہ پہلی عالمی جنگ میں ایک جانب ترکی کی خلافت عثمانیہ اور جرمنی ہیں تو دوسری جانب بر طانیہ، فرانس روس، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک ہیں کانگریس نے یہ اُسی وقت سو چا ہو گا کہ میثاق لکھنو میں برصغیر میں مسلمانوں کے جن مطالبات کو تسلیم کیا ہے اگر جرمنی اور ترکی جنگ جیت جاتے ہیں تو اس عالمی تبدیلی سے ہندوستان آزاد ہو جائے گا یوں میثاق لکھنو کی بنیاد پر آل انڈیا کانگریس کو ہند وستان کی آزادی اور اس کے بعد اقتدار میں فائد ہ ہو گا اور اگر بر طانیہ اور اس کے اتحادی جنگ ِعظیم اوّل جیت گئے تو وہ بعد میں اس میثاق لکھنو سے منحرف ہو جائیں گے اور پھر 1928ء میں ایسا ہی ہوا جب کانگریس کے مو تی لال نہرو نے اپنی نہرو رپورٹ میںیک طرفہ طور پرمیثاق ِ لکھنو کو مسترد کر دیا یہ واقعہ علامہ محمد اقبال کی وفات سے دس سال قبل پیش آیا تھااُس وقت تک علامہ کے سامنے طرابلس اور بلقان کے جنگوں میں سلطنت عثمانیہ کی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ امراء اور صاحب اقتدار طبقے میں ملت ِاسلامی سے غداری بھی کی تھی تو عام مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ بھی تھا۔
جنگ عظیم اوّل میںجہاں سائنس و ٹیکنا لوجی کی بنیاد ہتھیاروں کی جدت اوراستعمال کے لحاظ سے ترکی بہت پیچھے تھا وہاں عربوں نے بھی اس جنگ میں ترکی سے غداری کی تھی اور پیٹھ میں خنجر مارا تھا اس جنگ میں مشہور بر طانیوی سیکریٹ ایجنٹ لارڈ لارنس جسے لارنس آف عریبہ کہا گیا اُس نے عربوں کو ترک فوج کے خلاف کئی من سونا اور ہتھیار فراہم کئے تھے اور اِن عربوں نے ہزاروں ترکوں کو شہید کیا تھا اور یوں جنگ میں ترکی کو شکست ہو ئی مگر اقبال اُس وقت بھی مسلمانوں کو مایوس نہیں ہو نے دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔
اگر عثمانیوں پہ کو ہِ غم ٹو ٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہو تی ہے سحر پیدا
یہ شعر علامہ اقبال کی ایک ایسی پیش گوئی تھی جو جنگ عظیم دو ئم کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد پوری ہو نے لگی۔ واضح رہے کہ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر جہاں صرف تین اسلامی ممالک افغانستان ، سعوی عرب ، اور ترکی آزاد کہلاتے تھے وہاں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد 1947ء میں پاکستان اور اس کے بعد دیگر اسلامی ممالک آزاد ہو نے لگے اور آج اسلامی ممالک کی تعداد تقریباً57 ہے۔
اقبال نے ہی قائد اعظم کو برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے مایوسی سے نکالا اور انھیں کو اُس وقت لندن سے واپس بلوایا جب ہندوستان کے مسلمانوں کو اُن کی اشد ضرورت تھی قائدا عظم نے 1928ء کی نہرو رپورٹ کے بعد ایک بار پھر ہندو مسلم اتحاد کو مشترکہ ہندوستان کی آزادی کے لیے بھر پور قوت جانتے ہو ئے 1929ء میں اپنے مشہور 14 نکات پیش کئے تھے لیکن جب قائدا عظم کی یہ کو شش ناکام ہو گئی تو 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد میں جس کی صدارت خود علامہ اقبال نے کی تھی اپنے صدارتی خطبہ میں ہند وستان کی تقسیم اور نئے ملک پا کستان کا تصور پیش کر دیا امت مسلمہ کے اتحاد کا تصور اور اس کا یقین اقبال کو طرابلس اوربلقان کی جنگو ں اور پھر جنگ عظیم اوّل میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد بھی تھا جب جنگ کے فوراً بعد ہند وستان میں مولانا محمد علی جو ہر نے تحریک خلا فت چلائی تھی اور اس تحریک کے دوران ہی گاندھی اور کانگریس نے دھوکہ دیا تھا اقبال اُس وقت ہی آج کے پاکستان کے ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان کی اہمیت سے واقف تھے اور یہ جانتے تھے کہ جب اُن کے تصور کے مطابق پاکستان وجود میں آئے گا تو بھارت کے خشکی کے راستے یعنی ایران اور افغانستان کی سرحدیں نہیں ملیں گی علامہ اقبال نے افغانستان کی تعلیمی پالیسی مر تب کرنے میں افغانستان کے بادشاہ کی دعوت پر افغا نستان کا دورہ کیا تھا ایران کی اہمیت سے بھی اقبال بخوبی واقف تھے اُن کی نظریں یہ دیکھ چکیں تھیں کہ سنٹرل ایشیا کے مسلم ممالک آزاد ہو ں گے اگرچہ اُس وقت مسلم لیگ کے بہت سے رہنما خیبرپختونخوا (سرحد) اور بلوچستان کواہمیت کو اس لیے اہمیت نہیں دیتے تھے کہ 1935ء تک ہندووستان میں سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے صوبہ نہیں بنا یا گیا تھا۔
اُس وقت تک خیبر پختونخوا بھی صوبہ نہیںبنا تھا اور بلوچستان تو 1935ء کے قانونِ ہند کے بعد بھی صوبہ نہیں بنا یا مگر اقبال اِن علاقوں کی تاریخ یہاں کی ثقافت اور روایات سے واقف تھے۔ وہ افغانستان کے دورے پر خیبر پختونخو، جلال آباد سے گئے تھے اور واپسی بلوچستان کے راستے پاک افغان سرحد چمن سے ہوئی تھی اُن کے مطالعہ اور علم میں پہلی اینگلو افغان جنگ 1839ء سے 1942ء اور دوسری اینگلوافغان جنگ1878ء تھی اور پھر تیسری اینگلو افغان جنگ 1919ء تو علامہ اقبال کے سامنے اور جنگ عظیم اوّل کے خاتمے کے صرف ایک سال بعد ہو ئی تھی جو امرتسرکے جلیانوالہ باغ کے چند دن بعد ہو ئی تھی اور افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ کا خیال تھا کہ جب وہ انگریز سے جنگ کر ئے گا تو ہندوستان میں خصوصاً کانگریس جو ایک مضبو ط سیاسی جماعت ہے وہ بھی اپنی جدو جہد تیز کر دے گی اور یوں ہندوستان بھی اس صورتحا ل میں آزاد ہو جائے گا۔
علامہ اقبال نے 1933ء میں افغانستان کے باد شاہ نادر شاہ کی دعوت پر علامہ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کیا تھا اور ظہیر الدین با بر محمود غزنوی احمد شاہ ابدالی مزار پر حاضری بھی دی تھی نادر شاہ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے والد تھے اور اسی سال وہ انتقال کر گئے تھے یوں تواقبال کے کئی اشعارافغانستان اور ایران پر ہیں لیکن یہاں پشتون تاریخ اور ثقافت کے مزاج کی عکاسی علامہ اقبال کے اُن اشعار سے کرتے ہیں جو اصل میں مشہور پشتون شاعر خوشحال خٹک کے ہیں 1862ء میں لندن میں خوشحال خان خٹک کی 100 نظموں کا ترجمہ انگریزی میں شائع کیا گیا تھا اور جب علامہ اقبال نے یہ نظمیں پڑھیں تو نہ صرف ان سے استفادہ کیا بلکہ اس نظم (خوشحال خان کی وصیت) کا ترجمہ کیا جو یوں ہے ۔
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیو ں کا بلند
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مغل سے کسی طرح کمتر نہیں
قہستان کا یہ بچہ ء ارجمند
کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات
کہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند
ا ڑا کر نہ لائے جہاں باد کو ہ
مغل شہسواروں کی گرد سمند!
اس طرح علامہ اقبال بلوچستان کی تاریخی اہمیت سے بھی واقف تھے کہ یہاں ہی سے ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران فرار ہو اتھا اور پھر واپسی بھی اسی علاقے سے ہو ئی تھی نادر شاہ افشار کے حملے کے بعد احمد شاہ ابدلی نے جب ہند وستان میںمر ہٹوں کا زور توڑنے کے لیے حملہ کیا تھا تو یہاں سے بلوچستان کے حکمران نصیر خان نوری نے اُس کا ساتھ دیا تھا ، پھر جب سکھوں کا پنجاب اور خیبر پختونخوا پر قبضہ ہو گیا تو سید احمد بریلوی شہید بھی بلوچستان کے راستے افغانستان گئے تھے اور وہاں سے خیبر پختونخوا کے علاقوںکو رنجیت سنگھ سے آزاد کرانے کے لیے مسلح جدو جہد شروع کی تھی اور بالاکوٹ مقام پر شہادت پائی تھی پھر 1839ء میں پہلی اینگلو افغان جنگ میں جب انگریز ی فوجیں بلوچستان سے گزریں تھیں تو یہاں سے بلوچوں نے مزاحمت کرتے ہوئے خصوصاً درہ بولان میں گوریلا طرز پر حملے کئے تھے اور پھر افغانستان پر قبضے کے بعد جب انگریزوں نے یہاں پر قبضے کے لیے جنگ کی تو یہاں کے حکمران عشاقِ نبیؐ، میر محراب خان شہید نے بہادری سے لڑتے ہو ئے جام شہادت نو ش کیا تھا علامہ اقبال نے بلوچستان کے اس تاریخی تہذیبی اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ ’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ‘ کے عنوان سے یہ نظم کہی۔
ہوتیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفتِ سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہان ِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سر دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشید ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کاستارا
محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبت ِ ساحل سے کنارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگرآزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کاخسارا
دنیا کوہے پھر معرکہء روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہوتو کافی ہے اشارا
اخلاص عمل مانگ نیاگان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال جذبہ ایمانی عشق رسولﷺ کی بنیاد پر علم و تحقیق کو مد نظر رکھ کر امتِ مسلم کو دعوتِ عمل دیتے ہیں وہ پاکستانی علاقے کی جغرافیائی ،سیاسی، مالی اقتصادی اہمیت جانتے ہو ئے ہی کہتے ہیں
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر