جاسوسی کیوں
امریکا کے جاسوس ادارے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی المعروف این ایس اے کی جانب سے پاکستان
امریکا کے جاسوس ادارے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی المعروف این ایس اے کی جانب سے پاکستان کی سب سے بڑی مقبول سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی جاسوسی کرنے کی حیران کن خبروں کے بعد ملک کے سیاسی صحافتی اور عوامی حلقوں میں شدید غصے کا اظہار اور احتجاج کیا جارہا ہے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی کی جاسوسی کرنے کے امریکی رویے پر سخت ناراضی، افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ امریکا کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی بھی فرد، ادارے یا پارٹی کی جاسوسی کرے یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، حکومتی سطح پر امریکی سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے پیپلزپارٹی کی جاسوسی کرنے پر دفتر خارجہ نے سخت احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفیر کو دفتر میں طلب کیا اور انھیں یہ باور کرایا کہ پیپلزپارٹی کی جاسوسی عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور مروجہ سفارتی اصولوں کے برخلاف ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ دوستانہ مراسم کو قائم رکھنے کے لیے اس قسم کی غیر ضروری کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ معاملہ امریکا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ادھر پی پی پی کے سیکریٹری جنرل اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے نام باقاعدہ ایک احتجاجی خط ارسال کیا ہے جس میں انھوں نے امریکی جاسوسی ادارے این ایس اے کی جانب سے پیپلزپارٹی کی جاسوسی کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ایوان بالا میں اکثریت رکھتی ہے۔ وہ تین بار اقتدار میں آچکی ہے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ملک گیر سطح کی پارٹی کی جاسوسی کرے۔ لہٰذا پیپلزپارٹی اس اقدام کی شدید مذمت اور امریکا سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے قوانین میں تبدیلی کرے۔
صدر آصف علی زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اﷲ بابر کے مطابق امریکی سفیر کو لکھے گئے مذکورہ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کا رویہ پاکستانی عوام کے امریکی حکومت سے متعلق عدم اعتماد اور شکوک و شبہات میں اضافے کا باعث بنے گا اور پیپلزپارٹی اس امریکی اقدام پر شدید ناراضی اور افسوس کا اظہار کرتی ہے ۔ فرحت اﷲ بابر کے بقول خط میں امریکا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سیکیورٹی ادارے این ایس اے کی جانب سے پارٹی کی جاسوسی کے معاملے کا ازالہ کرے اور مستقبل میں اسے نہ دہرانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
در حقیقت دنیا کی واحد سپر پاور کا ''اعزاز'' رکھنے والا امریکا اس خبط میں مبتلا ہے کہ دنیا کے سات ارب انسانوں میں صرف امریکیوں ہی کو بنیادی حقوق حاصل ہیں اور یہ امریکی ہی دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اور پر امن قوم ہے جب کہ باقی تمام ملکوں کے انسان غیر مہذب، مشکوک کردار کے حامل اور امریکا کے لیے سخت خطرے کا باعث ہیں۔ لہٰذا دوسرے تمام ملکوں کے عوام حکومتوں اور جماعتوں کے ایک ایک عمل کی نگرانی کرنا عالمی امن و امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے از بس ضروری ہے۔
اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے امریکا نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا ہے جس میں دنیا کے جدید ترین سیکیورٹی آلات نصب ہیں یہ ادارہ مکمل طور پر آزاد و با اختیار ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کی حرکات و سکنات اور موبائل پر ہونے والی گفتگو اور میسجز سے لے کر انٹرنیٹ پر کی جانے والی تمام سرگرمیوں تک کا سراغ لگاتا اور ان کا ڈیٹا جمع کرکے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس ملک کا کون سا شخص، جماعت اور حکومت امریکا کے خلاف خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
پھر اپنی معلومات کی بنیاد پر یہ ادارہ ایسے مشکوک افراد جماعت اور حکومت کے لیے امریکی مفادات کے لیے خطرناک اور نقصان دہ قرار دے کر اعلیٰ حکومتی حکام کو مطلع کردیتا ہے پھر امریکا ایسے مشکوک افراد کی تلاشی اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے گھیرا تنگ کرنا شروع کردیتا ہے اور اپنے ہدف کے حصول تک یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ امریکا ہر مالی مفادات میں نتیجہ اپنے حق میں دیکھنا چاہتا ہے۔
امریکا کا مذکورہ طرز عمل کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔ یہ نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی قوانین اور اصولوں کے برخلاف ہے کسی بھی ملک کے اشخاص، اداروں، جماعتوں اور حکومتوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی بیرونی ملک کو پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور جاسوسی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ بعینہ امریکا کو سپر پاور ہونے کے ناتے یہ حق حاصل نہیں کہ دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں ٹانگ اڑائے اور خفیہ طریقے سے ان کی جاسوسی کرے۔
یہ طرز عمل بین الاقوامی قانون کے خلاف اور سفارتی آداب کی توہین کے مترادف ہے ایک طرف تو امریکا پاکستان سے دوستی اور خوشگوار تعلقات کے قیام کا دم بھرتا ہے کبھی پاکستان کو دھمکیاں دے کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شرکت پر مجبور کرتا ہے پھر اس کے کردار کی بھی احسان فراموشی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کیا امریکا وہ وقت بھول گیا جب چین کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کو برف پگھلانے کے درمیان فاصلے و کشیدگی ختم اور خوشگوار رسم قائم ہوئے تھے۔
امریکا پیپلزپارٹی کی جاسوسی کیوں کرتا ہے اس کا پس منظر جاننے کے لیے اب ذرا ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ سانحہ بنگال کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان کی باگ ڈور پیپلزپارٹی نے سنبھالی تو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے شکست خوردہ اور حالات سے مایوس عوام کے اندر زندہ رہنے کا جوش، آگے بڑھنے کا ولولہ اور حب الوطنی جذبہ بیدار کردیا تھا اور ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے پیپلزپارٹی کے قافلے میں مزدور کسان، مزارعے، طالب علم ، وکلاء، اساتذہ اور کروڑوں غریب عوام سب شامل ہوکر بھٹو کی قیادت میں سب سے منظم و متحد ہوگئے تھے۔
بھٹو ایسا با وقار، مستحکم اور جمہوری اقدار کا امین پاکستان بنانا چاہتے تھے جو عالمی برادری میں اسلامی دنیا کی پہچان بن جائے، ایسا پاکستان جو بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا جذبہ و حوصلہ رکھتا ہو، اسی لیے بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل بنانے کا فیصلہ کیا یہی بات سامراجی و استعماری قوتوں کو گراں گزری، نہ صرف یہ بلکہ بھٹو اسلامی ممالک پر مشتمل ایسا ''مسلم بلاک'' تشکیل دینا چاہتے تھے جو مغرب ویورپ کے مقابلے میں عالم اسلام کی پہچان بن سکے۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اسی سلسلے کی کڑی تھا لیکن بھٹو کے عزائم اور تیز رفتار پیش قدمی امریکا اور اس کے حواریوں کو کسی صورت قبول نہ تھی وہ بھٹو کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اسی لیے انھیں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ امریکا نے پاکستان میں انتہا پسند قوتوں کو بھٹو کے مقابل کھڑا دیا نتیجتاً عالم اسلام اور پاکستان کے لیے وہ بد نصیب دن آگیا جب 5 جولائی 77 کو امریکا اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
امریکا نے یہاں بس نہیں کیا بلکہ پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں پر مسلسل نظر گاڑھے رکھی ، بے نظیر بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک امریکا پی پی پی کی جاسوسی کرتا رہا ہے چونکہ پیپلز پارٹی لبرل سوچ کی حامل اور شہید بھٹو کے فلسفے اور نظریات پر عمل پیرا ہے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اس لیے امریکا آج بھی پی پی پی کو اپنے ''مخصوص اہداف'' کے حصول میں رکاوٹ تصور کرتا ہے اسی باعث پی پی پی کو اپنی ''واچ لسٹ'' میں رکھا ہوا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ امریکا کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی بھی فرد، ادارے یا پارٹی کی جاسوسی کرے یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، حکومتی سطح پر امریکی سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے پیپلزپارٹی کی جاسوسی کرنے پر دفتر خارجہ نے سخت احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفیر کو دفتر میں طلب کیا اور انھیں یہ باور کرایا کہ پیپلزپارٹی کی جاسوسی عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور مروجہ سفارتی اصولوں کے برخلاف ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ دوستانہ مراسم کو قائم رکھنے کے لیے اس قسم کی غیر ضروری کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ معاملہ امریکا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ادھر پی پی پی کے سیکریٹری جنرل اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے نام باقاعدہ ایک احتجاجی خط ارسال کیا ہے جس میں انھوں نے امریکی جاسوسی ادارے این ایس اے کی جانب سے پیپلزپارٹی کی جاسوسی کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ایوان بالا میں اکثریت رکھتی ہے۔ وہ تین بار اقتدار میں آچکی ہے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ملک گیر سطح کی پارٹی کی جاسوسی کرے۔ لہٰذا پیپلزپارٹی اس اقدام کی شدید مذمت اور امریکا سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے قوانین میں تبدیلی کرے۔
صدر آصف علی زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اﷲ بابر کے مطابق امریکی سفیر کو لکھے گئے مذکورہ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کا رویہ پاکستانی عوام کے امریکی حکومت سے متعلق عدم اعتماد اور شکوک و شبہات میں اضافے کا باعث بنے گا اور پیپلزپارٹی اس امریکی اقدام پر شدید ناراضی اور افسوس کا اظہار کرتی ہے ۔ فرحت اﷲ بابر کے بقول خط میں امریکا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سیکیورٹی ادارے این ایس اے کی جانب سے پارٹی کی جاسوسی کے معاملے کا ازالہ کرے اور مستقبل میں اسے نہ دہرانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
در حقیقت دنیا کی واحد سپر پاور کا ''اعزاز'' رکھنے والا امریکا اس خبط میں مبتلا ہے کہ دنیا کے سات ارب انسانوں میں صرف امریکیوں ہی کو بنیادی حقوق حاصل ہیں اور یہ امریکی ہی دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اور پر امن قوم ہے جب کہ باقی تمام ملکوں کے انسان غیر مہذب، مشکوک کردار کے حامل اور امریکا کے لیے سخت خطرے کا باعث ہیں۔ لہٰذا دوسرے تمام ملکوں کے عوام حکومتوں اور جماعتوں کے ایک ایک عمل کی نگرانی کرنا عالمی امن و امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے از بس ضروری ہے۔
اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے امریکا نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا ہے جس میں دنیا کے جدید ترین سیکیورٹی آلات نصب ہیں یہ ادارہ مکمل طور پر آزاد و با اختیار ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کی حرکات و سکنات اور موبائل پر ہونے والی گفتگو اور میسجز سے لے کر انٹرنیٹ پر کی جانے والی تمام سرگرمیوں تک کا سراغ لگاتا اور ان کا ڈیٹا جمع کرکے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس ملک کا کون سا شخص، جماعت اور حکومت امریکا کے خلاف خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
پھر اپنی معلومات کی بنیاد پر یہ ادارہ ایسے مشکوک افراد جماعت اور حکومت کے لیے امریکی مفادات کے لیے خطرناک اور نقصان دہ قرار دے کر اعلیٰ حکومتی حکام کو مطلع کردیتا ہے پھر امریکا ایسے مشکوک افراد کی تلاشی اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے گھیرا تنگ کرنا شروع کردیتا ہے اور اپنے ہدف کے حصول تک یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ امریکا ہر مالی مفادات میں نتیجہ اپنے حق میں دیکھنا چاہتا ہے۔
امریکا کا مذکورہ طرز عمل کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔ یہ نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی قوانین اور اصولوں کے برخلاف ہے کسی بھی ملک کے اشخاص، اداروں، جماعتوں اور حکومتوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی بیرونی ملک کو پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور جاسوسی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ بعینہ امریکا کو سپر پاور ہونے کے ناتے یہ حق حاصل نہیں کہ دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں ٹانگ اڑائے اور خفیہ طریقے سے ان کی جاسوسی کرے۔
یہ طرز عمل بین الاقوامی قانون کے خلاف اور سفارتی آداب کی توہین کے مترادف ہے ایک طرف تو امریکا پاکستان سے دوستی اور خوشگوار تعلقات کے قیام کا دم بھرتا ہے کبھی پاکستان کو دھمکیاں دے کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شرکت پر مجبور کرتا ہے پھر اس کے کردار کی بھی احسان فراموشی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کیا امریکا وہ وقت بھول گیا جب چین کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کو برف پگھلانے کے درمیان فاصلے و کشیدگی ختم اور خوشگوار رسم قائم ہوئے تھے۔
امریکا پیپلزپارٹی کی جاسوسی کیوں کرتا ہے اس کا پس منظر جاننے کے لیے اب ذرا ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ سانحہ بنگال کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان کی باگ ڈور پیپلزپارٹی نے سنبھالی تو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے شکست خوردہ اور حالات سے مایوس عوام کے اندر زندہ رہنے کا جوش، آگے بڑھنے کا ولولہ اور حب الوطنی جذبہ بیدار کردیا تھا اور ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے پیپلزپارٹی کے قافلے میں مزدور کسان، مزارعے، طالب علم ، وکلاء، اساتذہ اور کروڑوں غریب عوام سب شامل ہوکر بھٹو کی قیادت میں سب سے منظم و متحد ہوگئے تھے۔
بھٹو ایسا با وقار، مستحکم اور جمہوری اقدار کا امین پاکستان بنانا چاہتے تھے جو عالمی برادری میں اسلامی دنیا کی پہچان بن جائے، ایسا پاکستان جو بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا جذبہ و حوصلہ رکھتا ہو، اسی لیے بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل بنانے کا فیصلہ کیا یہی بات سامراجی و استعماری قوتوں کو گراں گزری، نہ صرف یہ بلکہ بھٹو اسلامی ممالک پر مشتمل ایسا ''مسلم بلاک'' تشکیل دینا چاہتے تھے جو مغرب ویورپ کے مقابلے میں عالم اسلام کی پہچان بن سکے۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اسی سلسلے کی کڑی تھا لیکن بھٹو کے عزائم اور تیز رفتار پیش قدمی امریکا اور اس کے حواریوں کو کسی صورت قبول نہ تھی وہ بھٹو کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اسی لیے انھیں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ امریکا نے پاکستان میں انتہا پسند قوتوں کو بھٹو کے مقابل کھڑا دیا نتیجتاً عالم اسلام اور پاکستان کے لیے وہ بد نصیب دن آگیا جب 5 جولائی 77 کو امریکا اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
امریکا نے یہاں بس نہیں کیا بلکہ پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں پر مسلسل نظر گاڑھے رکھی ، بے نظیر بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک امریکا پی پی پی کی جاسوسی کرتا رہا ہے چونکہ پیپلز پارٹی لبرل سوچ کی حامل اور شہید بھٹو کے فلسفے اور نظریات پر عمل پیرا ہے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اس لیے امریکا آج بھی پی پی پی کو اپنے ''مخصوص اہداف'' کے حصول میں رکاوٹ تصور کرتا ہے اسی باعث پی پی پی کو اپنی ''واچ لسٹ'' میں رکھا ہوا ہے۔