مشرق وسطیٰ، نئی امریکی پالیسی کیا ہوگی؟
امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے از سر نو منتخب ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہ اہم ترین سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک متنازع قانون کی منظوری دی ہے، جس کے تحت مبینہ ’’دہشت گردوں‘‘ کے خاندان کے افراد کو، جن میں اسرائیل کے شہری بھی شامل ہیں، جبری طور پر غزہ یا دیگر مقامات پر جلا وطن کیا جاسکتا ہے۔
الیکشن سے پہلے ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نیتن یاہو غزہ کی جنگ کو ختم کریں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کیا وہ واقعی اسرائیل کی جنگ بندی پر مجبورکرسکیں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اب اس نئے دور میں بھی کئی مسائل اور معاملات موجود ہیں، انھیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پڑے گی، جیسے اسرائیل فلسطین جنگ، اسرائیل کے لبنان پر حملے اور ایران کو دھمکیاں، ایران امریکا تعلقات۔ خلیجی رہنما ٹرمپ کی دوبارہ واپسی کو دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں، جس طرح کے ٹرمپ کے پہلے دور میں اچھے تعلقات تھے۔
ٹرمپ کی سوچ جوبائیڈن سے بالکل مختلف ہوگی اور وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکو مجبورکرسکیں کہ وہ غزہ و لبنان میں جاری جنگوں کا خاتمہ کریں اور مسئلے کا حل نکالیں، یعنی ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کا دور زیادہ واضح ہوگا، جب کہ ان سے پہلے صدر جوبائیڈن کا دور مشرق وسطیٰ میں جھگڑوں اور تصادم سے بھرپور رہا۔ جس میں غزہ میں جاری جنگ اور لبنان کی صورتحال بھی شامل ہے، جب کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی بحیرہ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی کی ابتدائی کوششوں میں خلیجی ملکوں کو نشانے پر رکھا گیا۔
ان کے لیے اسلحے کی فراہمی کے معاملات کو منجمد کر دیا گیا، جب کہ اپنے ہی اتحادیوں کے ساتھ پہلے سے جاری معاہدات کو نئے سرے سے کرنے کی کوشش کی گئی، جس سے فوری طور پر تعلقات پر دھبے آئے۔ ان میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نمایاں طور پر ہدف رہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں سابقہ امریکی صدورکی روایت کو توڑتے ہوئے 2017 میں سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس سعودی دورے میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران سے علاقے کی سلامتی کے مسائل پر ایک مضبوط مؤقف اختیارکیا اور خلیجی رہنماؤں کے ساتھ ٹرمپ نے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ اب ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کو ریاض کے لیے ایک اچھی خبر قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کے ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں کے ساتھ تعلقات رہے ہیں، تاہم ٹرمپ کے اعلیٰ اسٹینڈرڈ اور کمٹمنٹ کو پورا کرنے کے حوالے سے ان کے کردار اور جنگوں کے خاتمے کی کوششیں ان سے توقعات کو بڑھا دیتی ہیں۔ ریاض کو پورا یقین ہے کہ امریکی معیشت کی ترقی اور عالمی معاشی خوشحالی کے لیے ٹرمپ اور ولی عہد محمد بن سلمان کا کاروبارکو سمجھنا بہت اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ کچھ حلقے پراعتماد ہیں کہ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات پھر سے بہت زبردست ہوجائیں گے۔
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید نے کہا وہ ٹرمپ کے ساتھ کام کو نئے سرے سے شروع کرنے کے منتظر ہیں کہ وہ ہمارے شراکت دار بھی ہیں اور مستقبل میں امریکی ترقی، استحکام اور امریکا کے لیے ترقی کے مواقع کے لیے ہم ان کے شراکت دار ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ہی پچھلے دور میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے متحدہ عرب امارات کا تاریخی معاہدہ ہوا تھا، مگر جوبائیڈن اس معاہدے کو دوسرے ملکوں تک کھینچ لے جانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاہدے میں متحدہ عرب امارات کے علاوہ مراکش اور سوڈان شامل ہوئے تھے۔
جوبائیڈن نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی مگر سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے نے اس میں رکاوٹ پیدا کردی۔ اب غزہ میں اسرائیل کی بمباری جاری ہے اور ہزاروں سویلینز جن کا حماس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان بھی اسرائیلی پالیسیز کی وجہ سے کچھ ٹھنڈک سی ہوگئی ہے۔
حتیٰ کہ مصر، اردن اور قطر بھی اسرائیل کے رویے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ امریکا غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کو ختم کرانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے کوئی تعلقات نہیں ہو سکتے۔ ادھر اسرائیل کے انتہا پسند جو اسرائیلی حکومت کا باقاعدہ حصہ ہیں، مسئلے کے دو ریاستی حل کی طرف آنے میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جسے سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات کے لیے ایک پیشگی شرط کے طور پر پیش کر رکھا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی آزمائش یہ ہے کہ کیا وہ اپنے پیش رو کے اور اپنے ہی پچھلے دور کے اقدامات اور پالیسیوں کے نتائج کو ریورس (Reverse) کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ ایک بہتر دنیا تشکیل دے سکیں گے؟ انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے کیے گئے اپنے وعدے پورے کرسکیں گے؟ اپنے دعوؤں کو متشکل کرسکیں گے؟ دنیا بھر میں جاری جنگیں بند کرا سکیں گے اور عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بارآور اقدامات کر سکیں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی وکٹری اسپیچ (Victory Speech) میں تو یہ کہا ہے کہ امریکی شہریوں نے انھیں غیر معمولی مینڈیٹ سے نوازا ہے اور اب ان کا اگلا دور امریکا کا سنہری دور ہوگا جس میں وہ اپنے ملک کو پھر سے عظیم بنائیں گے۔
کیا وہ اپنے الفاظ کی پاس داری کر سکیں گے؟ یہی آج کے دن کا سب سے بڑا سوال ہے،کیونکہ اپنے پچھلے دور حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اپنے ملک کو پیرس ماحولیاتی معاہدے اور ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدہ کر لیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ایک اور متنازع اقدام امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر کے کیا تھا۔ دوسری جانب حماس نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اسرائیل کی اندھی حمایت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی عوام کے بارے میں موقف نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کا تعین کرے گا۔مشرق وسطیٰ وہ خطہ ہے جس میں ٹرمپ اور ان کی خارجہ پالیسی ٹیم کی خاص دلچسپی ہے۔
ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، معاہدے کیے اور ایران پر سخت پابندیاں لگائیں۔ خطے میں اس کے فیصلوں نے متضاد آرا کو جنم دیا۔ اس بار فلسطینیوں کے معاملے پر ان کا موقف کیا ہوگا، لبنان کا استحکام اور ایران کا علاقائی اثر و رسوخ کیسے حل ہوگا، یہ سب معاملات دلچسپی کا مرکز ہیں۔ فلسطینی امید کر رہے ہیں کہ امریکا، اسرائیل کے ساتھ امن کے فروغ میں زیادہ متوازن کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ کے پہلے موقف میں اسرائیل کی حمایت واضح تھی، مگر ان کی میراث میں ابراہم معاہدے شامل ہیں جنھوں نے نئے مواقعے پیدا کیے۔
فلسطینی توقع رکھتے ہیں کہ ٹرمپ ایسے فیصلے کریں گے جو فلسطینی خود مختاری اور حقوق کو تسلیم کریں۔لبنان میں، امید ہے کہ امریکا ملک کی اقتصادی عدم استحکام، سیاسی بحران اور سماجی مشکلات میں زیادہ مثبت کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے حزب اللہ پر دباؤ ڈالا اور لبنان میں ایرانی اثرات کو محدود کرنے کا سخت موقف اپنایا۔ آگے بڑھتے ہوئے، توقع کی جاتی ہے کہ امریکا لبنان کو ایک جامع حمایت فراہم کرے گا تاکہ وہاں استحکام برقرار رہے اور فرقہ وارانہ تنازعات کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب سے ایران میں تشویش پیدا ہوئی ہے کیونکہ ان کی پہلی مدت میں امریکا نے مشترکہ جامع منصوبہ بندی (جے سی پی او اے) سے دستبرداری اختیار کی اور ایران پر ایسی پابندیاں عائد کیں جنھوں نے ایران کی معیشت کو متاثر کیا۔
یہ غیریقینی ہے کہ آیا ٹرمپ دوبارہ معاہدے کی طرف بڑھیں گے یا تہران پر مزید دباؤ برقرار رکھیں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ ٹکراؤ کے بجائے مکالمے کو ترجیح دیں گے اور خطے میں استحکام کو ترجیح ٹرمپ نعرہ لگا رہے ہیں کہ وہ دنیا میں جاری جنگوں کا خاتمہ کردیں گے اور دنیا کو امن کی طرف لائیں گے، لیکن ٹرمپ خود اسرائیلی ناجائز یہودی بستیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اسرائیلی دارالحکومت کو یروشلم میں تسلیم کرنے کے لیے امریکی سفارت خانہ ٹرمپ نے یروشلم منتقل کیا تھا۔
کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس نئے دور میں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھ سکیں گے اور کیا عالمی سطح پرکچھ امن اور سکون پیدا ہو سکے گا؟ ان سوالات کے جوابات ظاہر ہے آنے والا وقت ہی دے گا۔ بہرحال پوری دنیا کی نظریں اس وقت وائٹ ہاؤس پر لگی ہیں کہ وہاں سے کیا برآمد ہوتا ہے؟ مشرق وسطیٰ میں، فلسطینی مسئلے پر منصفانہ رویے، لبنان میں تعمیری کردار اور ایران کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کی توقعات ہیں، اگر ٹرمپ انتظامیہ حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کرتی ہے تو یہ نئے مواقع کے دروازے کھول سکتی ہے، جو امریکا اور اس کے عالمی شراکت داروں کے لیے استحکام اور باہمی احترام کی وراثت چھوڑے گی۔