ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ تم کامیابی کے راستے کی اکثر رکاوٹوں کو بڑی آسانی کے ساتھ دور کرسکتے ہو، اگر تم نے یہ جان لیا کہ محض حرکت اور صحیح رخ پر حرکت میں کیا فرق ہے۔
ہر سرگرمی بہ ظاہر سرگرمی معلوم ہوتی ہے، مثلاً آپ اپنی گاڑی مطلوبہ منزل کی طرف چلا رہے ہوں یا منزل کے بالکل الٹ سمت میں گاڑی دوڑا رہے ہوں، دونوں حالتوں میں دیکھنے والوں کو گاڑی یکساں طور پر حرکت کرتی ہوئی نظر آئے گی مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک حرکت آپ کو ہر آن منزل کے قریب کر رہی ہے اور دوسری حرکت ہر لمحہ منزل سے دور کر رہی ہے۔
معاملہ انفرادی زندگی کا ہو یا اجتماعی زندگی کا ہمیشہ یہ ضرورت ہوتی ہے کہ حالات کا جائزہ لے کر زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر درست سمت میں قدم اٹھائے جائیں تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ اس کے برعکس اگر الل ٹپ طریقے سے بغیر سوچے سمجھے محض وقتی جذبات کے ابال سے جزوقتی فائدے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تو وہ دوررس نتائج کے حامل نہیں ہو سکتے ہیں۔
ایسے بودے اقدامات سے وقتی فائدہ تو مل جاتا ہے لیکن بعد کے معاملات الجھ جاتے ہیں پھر سرا نہیں ملتا۔ اکثر لوگ اپنی انا کی تسکین، ضد اور تعصب کی وجہ سے محض وقتی فائدے کو کل وقتی سمجھ لیتے ہیں، اگر گہرائی میں جا کر سوچیں تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انھوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کو کرنا سمجھ لیا۔ حالاں کہ درست صرف وہ ہے جو درست طریقے سے درست سمت میں درست وقت پر کیا جائے۔
دنیا میں ہمیشہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جن کا حال یہ ہو کہ وہ جو کچھ کریں اس کی قیمت مع اضافے اور من چاہے منافع کے وصول کرنا چاہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں کہ وہ جو کچھ کریں اسے بھول جائیں اور اگر انھیں اپنے کیے کا کوئی معاوضہ نہ بھی ملے تب بھی وہ کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لائیں۔ ان کی تسکین کا سامان صرف یہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو مقصد میں لگائے رکھیں، کسی صلے کی تمنا اور پروا کیے بغیر۔ آپ ذرا غور کیجیے کہ پہلی قسم کے لوگ بھی انسان ہیں اور دوسری قسم کے لوگ بھی انسان ہیں، لیکن دونوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ظاہری صورت کے سوا دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ پہلی قسم کے لوگ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بازار چلاتے ہیں جب کہ دوسری قسم کے لوگ جو اپنے ذاتی فائدے کے بجائے اجتماعی اور قومی مفادات کو ترجیح دیتے وہ تاریخ بناتے ہیں، یہی لوگ انسانیت اور قوم کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔
وطن عزیز کی 75 سالہ تاریخ میں عوام کی مسیحائی کے دعویداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے محض اپنے انفرادی، ذاتی، سیاسی اور جماعتی فائدے حاصل کرنے کے لیے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے مخالف سیاسی قوتوں کے تعصب، ضد اور اپنی انا کی تسکین کے لیے غلط رخ پر اقدامات اٹھائے، سیاست سے لے کر عدالت تک اور قیادت سے لے کر صحافت تک ہر شعبہ زندگی میں زوال کے سائے چھاتے رہے۔
جمہوریت مارشل لا کے ہاتھوں رسوا ہوتی رہی۔ عدالت طاقتوروں کی ڈکٹیشن پر فیصلے صادر کرتی رہی، سیاست دانوں کی کمزوریوں و نااہلیوں کے باعث پارلیمنٹ بے توقیر ہوتی رہی۔ 1973 کے آئین میں من مانی ترامیم پر ترامیم کر کے اس کا حلیہ اس قدر بگاڑ دیا کہ وہ اپنی شناخت اور اصل پہچان ہی کھو بیٹھا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 26 ویں ترمیم جس طریقے سے زور زبردستی کر کے منظور کروائی گئی وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور اب ستائیسویں ترمیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
حکومت ہمیشہ اپنے سیاسی فائدے اور حکومتی بقا کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بل کی صورت ایسے قوانین منظورکرواتی رہی ہے جس پر اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج رہی ہیں۔ تازہ قانون سازی کے ذریعے تینوں سروسز چیف کی مدت 5 سال اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 تک کرنے کا بل منظورکر لیا گیا ہے۔ قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کے دستخط کے بعد تمام 6 بلز اب قانون بن چکے ہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے ججز کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ نئے قوانین اور آئینی ترامیم پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے یہ اقدامات محض اپنی سیاسی بقا اور حکومت کی مدت پوری کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ محض وقتی فائدے کے لیے آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑکیا جا رہا ہے۔ اب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون سا لیڈر تاریخ بنا رہا ہے اور کون تاریخ کے ساتھ کھلواڑکر رہا ہے، کون درست سمت میں سفر کر رہا ہے اور کون غلط رخ پر۔کون شخصیات کو تحفظ دے رہا ہے اور کون آئین و قانون کو۔