صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کا بین الاقوامی دن گزشتہ ہفتے پوری دنیا میں منایا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے صحافیوں کو تشدد سے بچانے کے حوالے سے ایک خصوصی بیان جاری کیا۔ صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور صوبائی وزرائے اعلیٰ نے بھی اس دن کی مناسبت سے ایک جیسے بیانات جاری کیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بیان میں صحافیو ں کو تشدد سے بچانے کے دن کے حوالے سے غزہ کے حوالے سے خاصی اہمیت دی گئی۔ اسرائیلی فوجوں نے غزہ، جنوبی لبنان اور دریائے اردن کے مغربی کنارہ پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو قتل کرنے کو معمولی مشغلہ سمجھا ہوا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم CPJ کے اس موقع پر جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال 134 صحافیوں کو اسرائیلی فوجوں نے پیشہ ورانہ فرائض کے دوران ہلاک کیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2006 سے 2024 تک دنیابھر میں 1700 صحافی قتل ہوئے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 1992 سے 2024تک 66 صحافی قتل کیے گئے، مگر گزشتہ سال غزہ، جنوبی لبنان اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر ہلاک ہونے والے صحافیوں کی شرح گزشتہ 24 برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہے۔
مغربی ذرایع ابلاغ میں 134 صحافیوں کی ہلاکت کی خبریں تو وقتاً فوقتاً شایع اور نشر ہوئیں مگر امریکا اور یورپ کا میڈیا اسرائیل کے خلاف صحافیوں کے قتل کی خبریں زیادہ کوریج نہیں کرتا پھر یہ میڈیا اسرائیلی فوجیوں کو براہِ راست ان صحافیوں کے قتل کا ذمے دار نہیں سمجھتا مگر یورپ اور امریکا کا متبادل میڈیا ان صحافیوں کی قربانیوں کا بڑے واضح انداز میں ذکر کرتا ہے۔
آزادئ صحافت کے لیے آگہی کی کوشش کرنے والے غیر ریاستی ادارہ فریڈم نیٹ ورک نے 2024 Impunity Report کے عنوان سے پاکستان میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں ایک جامع رپورٹ شایع کی ہے۔ فریڈم نیٹ ورک کے روحِ رواں اقبال خٹک ، آفتاب عالم اور عدنان رحمت نے انتہائی محنت کے ساتھ پورے ملک میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے بارے میں جامع رپورٹیں جاری کیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی صحافیوں کے لیے گزشتہ سال ایک بیہمانہ سال تھا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کی ہلاکتوں اور صحافیوں پر تشدد کے واقعات میں گزشتہ سال بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں صحافیوں پر تشدد کا کلچر خاصا قدیم ہے اور اس سال بھی صحافیوں کے لیے خطرناک صورتحال رہی۔ فریڈم نیٹ ورک نے پہلی دفعہ Media impunity indexبنایا۔ اس انڈیکس میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی روک تھام کی کوششوں کا تجزیہ کیا جائے گا۔ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال 6صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جب کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کی 57وارداتیں ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق ضلع عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے اہم اقدامات کیے۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں سب سے زیادہ صحافیوں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں۔ (57 کیسوں میں سے 21.37 فیصد) اس طرح اسلام آباد صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر بن گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والوں میں سے بہت سوں کو عدالتوں سے بہت کم سزائیں ملیں۔ بیشتر مقدمات میں تو اصلی مجرم ظاہر ہی نہیں ہوسکے۔ صوبہ پختون خوا میں صحافیوں کے لیے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں۔
سکھر ضلع میں گزشتہ ایک سال میں دو صحافی قتل ہوئے۔ حکومت کے مختلف اعلانات کے باوجود پاکستانی صحافی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والی 47فیصد کارروائیوں کی ذمے داری براہِ راست ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے جنگجو صحافیوں پر تشدد کی 12 فیصد وارداتوں میں ملوث تھے۔ اسی طرح 16 فیصد واقعات میں مختلف نوعیت کے پرتشدد گروپ ملوث تھے۔
نامعلوم قوقوں نے 12 فیصد صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف 16 فیصد کارروائیاں میں نامعلوم گروپوں نے انجام دیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں خاص طور پر یورپی یونین کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے۔
سندھ کی حکومت پہلی حکومت ہے جس نے صحافیوں کے تحفظ کا Journalist Media Protection Act نافذ کیا ۔ حکومت سندھ نے جرنلسٹس کمیشن کے قیام کے لیے صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی۔ حکومت سندھ نے جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی کو کمیشن کا چیئرمین نامزد کیا۔ جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی نے بغیر معاوضے کے چیئرپرسن شپ قبول کی۔ وہ 60ء کی دہائی سے این ایس ایف کے اہم رہنما تھے، یوں جسٹس رشیدرضوی نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے۔
جسٹس رشید رضوی کے انتقال کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس نذر اکبر کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا ، جسٹس نذر اکبر نے ابتدائی اقدامات کیے تھے مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر وہ چیئرپرسن کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ دو مہینے ہوگئے یہ کمیشن غیر فعال ہے۔ اس کمیشن نے مختصر مدت میں لاپتہ ہونے والے کئی صحافیوں کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے تھے اور سکھر کے علاقے میں قتل ہونے والے صحافیوں کے بارے میں مسلسل رپورٹیں تیار کیں۔ اس طرح گزشتہ دو ماہ سے چیئرپرسن کا تقرر نہ ہونے اور کمیشن کا دفتر فعال نہ ہونے کی بناء پر ریاستی تشدد کا شکار ہونے والے صحافیوں کی داد رسی کا سلسلہ رک گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے چند ماہ قبل گوجرانوالہ میں پی ایف یو جے کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اگلے 15 دن میں وفاق میں صحافیوں کے تحفظ کا کمیشن قائم ہوجائے گا مگر ابھی تک اس ضمن میں کچھ نہیں ہوا۔ اسی طرح تین صوبوں پنجاب، بلوچستان اورخیبر پختون خوا میں صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن کے قیام کے لیے قانون تیار نہیں ہوسکا۔ خیبر پختون خوا کے سابقہ قبائلی علاقے اور بلوچستان میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے لیے حالات اب بھی انتہائی مخدوش ہیں۔
یہ صحافی بھی طالبان جنگجوؤں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ کبھی ریاستی اداروں کی کارروائیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری کے حالات بہتر ہونے کے باوجود صحافیوں کے حالات کار انتہائی خراب ہیں مگر حکومتیں اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ مستحکم جمہوریت کے لیے آزاد صحافت ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔