سرکردہ عالمی تنظیم ’’ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)‘‘ کے مطابق اس وقت صحافیوں کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ علی الترتیب غزہ ، مغربی کنارے اور لبنان کی تکون ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے اس خونی تکون میں اب تک ایک سو سینتیس صحافی اور میڈیا کارکن جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک سو انتیس فلسطینی ، چھ لبنانی اور دو اسرائیلی صحافی ہیں۔جب کہ اکتالیس صحافی زخمی ، اکہتر گرفتار اور دو لاپتہ ہیں۔ سی پی جے انیس سو بانوے میں وجود میں آئی۔اس کے ریکارڈ کے مطابق تب سے اب تک کسی ایک سال میں اتنے چھوٹے علاقے میں اتنے صحافی کبھی ہلاک و زخمی نہیں ہوئے۔
ان میں سے بہت سے اسرائیلی فوجیوں کی براہ راست ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ، کئی جنگی کوریج کرتے ہوئے ہلاک و زخمی ہوئے اور متعدد بمباری اور گولہ باری میں دیگر شہریوں کے ہمراہ اپنے کنبے سمیت مارے گئے۔
اگر مقبوضہ فلسطین میں صحافت کی مجموعی حالت دیکھی جائے تو سات اکتوبر سے پہلے بھی مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں آزادانہ و غیر جانبدارانہ رپورٹنگ بہت مشکل تھی۔ صحافی اسرائیلی قابض فوج ، فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے تھے۔
فلسطین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ( پی بی سی ) فلسطینی اتھارٹی کی سرکاری ترجمان ہے۔جب کہ الاقصی میڈیا نیٹ ورک غزہ میں حماسی حکومت کا ترجمان رہا ہے۔مگر اسرائیلی بمباری نے اس نیٹ ورک کا انفرااسٹرکچر جنگ کے شروع میں ہی تباہ کردیا۔
یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ غزہ کے بائیس تئیس لاکھ خانماں برباد انسان نہ صرف پچھے تیرہ ماہ سے بھوک، پیاس اور موت جھیل رہے ہیں بلکہ اطلاعاتی فاقہ کشی کا بھی مسلسل شکار ہیں۔سات اکتوبر سے پہلے مقبوضہ فلسطین کی تین چوتھائی آبادی کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت تھی۔آج غزہ میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔
غزہ سے اب جو بھی خبریں آتی ہیں وہ زیادہ تر سٹیزن جرنلزم اور الجزیرہ سمیت چند بین الاقوامی اداروں کے لیے کام کرنے والے مقامی نامہ نگاروں کی مرہونِ منت ہیں۔یہ نڈر وقایع نگار مسلسل بمباری ، بے گھری اور کسی وقت بھی کہیں بھی مرنے کے خدشے کے سائے تلے دنیا کو باخبر کرنے سے باز نہیں آ رہے۔
یروشلم سے ستاون برس سے شایع ہونے والا روزنامہ القدس فلسطینی قارئین میں سب سے مقبول اخبار ہے۔ القدس سے بھی پہلے الدفاع اور الجہاد کے نام سے دو اخبارات انیس سو اکیاون سے شایع ہو رہے تھے مگر انیس سو سڑسٹھ میں مغربی کنارے پر اسرائیلی فوجی قبضے کے بعد دونوں اخبار القدس نیٹ ورک میں ضم ہو گئے۔گزشتہ برس سے القدس کا عبرانی اور انگریزی ایڈیشن بھی نکل رہا ہے۔
مغربی کنارے میں متحرک آزاد مقامی میڈیا اسرائیلی فوجی سنسر، فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے زباں بندی اور یہودی آباد کاروں کے غیض و غضب کا عرصے سے عادی ہے۔
اگرچہ بیشتر اسرائیلی میڈیا نسل پرستی اور سرکاری پروپیگنڈے کی دلدل میں آنکھوں تک ڈوبا ہوا ہے۔مگر یہاں بھی کچھ سرپھرے صحافی آزادی اطلاعات کے پھڑپھڑاتے چراغ کے گرد حلقہ زن ہو کر برے حالات میں بھی پیشہ ورانہ جانبداری نبھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
مثلاً دو ہزار دس سے آن لائن میگزین ’’ پلس نائن سیون ٹو‘‘ تمام تر ریاستی رکاوٹوں کے باوجود تحقیقی رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔اس میگزین نے اپنا نام اسرائیل اور فلسطین کے بین الاقوامی ڈائل کوڈ پر رکھا ہے۔اسے اسرائیل کے فلسطینی اور یہودی صحافی مشترکہ طور پر چلاتے ہیں۔موجودہ چیف ایڈیٹر ایک اسرائیلی عرب صحافی غوثون بشارت ہیں۔ پلس نائن سیون ٹو میگزین قارئین کے چندے سے چل رہا ہے۔اس کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ہم جبری قبضے اور اپارتھائیڈ کے خلاف ہیں۔ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈہ نہیں۔یہ آن لائن میگزین مقبوضہ علاقوں اور اسرائیل کی خبروں کے علاوہ عمیق تجزیاتی و تحقیقی رپورٹیں بھی شایع کرتا ہے۔
اس میگزین نے ہی جنوبی اسرائیل میں قائم اس فوجی کیمپ کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شایع کی تھی جس میں غزہ سے اغوا کیے گئے ہزاروں فلسطینیوں پر مسلسل تشدد ہوتا ہے اور انھیں غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ غزہ میں جان ہتھیلی پر رکھ کے کام کرنے والے امدادی کارکنوں کی حالت پر بھی میگزین نے ایک تفصیلی وائرل رپورٹ شایع کی۔پلس نائن سیون ٹو کی رپورٹنگ کے اعلیٰ معیار کے سبب بین الاقوامی میڈیا بھی اس سے استفادہ کرتا رہتا ہے۔
یہ میگزین جنگ بندی کے حق میں اور فلسطین اسرائیل مسئلے کے منصفانہ پائیدار سیاسی حل کا حامی ہے۔
یہ آن لائن میگزین ان موضوعات پر بھی رپورٹنگ کرتا ہے جن پر ہاتھ ڈالتے ہوئے مین اسٹریم اسرائیلی میڈیا کے پر جلتے ہیں۔مثلاً مغربی کنارے پر یہودی آباد کاروں کا تشدد ، جنگ مخالف اسرائیلی شہریوں پر پولیس تشدد اور اسرائیل کے عرب شہریوں سے امتیازی سلوک وغیرہ۔
ابتدا میں نائن سیون ٹو میگزین انگریزی میں شایع ہوتا تھا تاکہ بیرونی دنیا زمینی حقائق سے آگاہ ہو سکے۔دو ہزار چودہ سے اس کا عبرانی ایڈیشن بھی نکل رہا ہے۔مگر اس میگزین کی زیادہ تر پڑھت اسرائیل سے باہر کی ہے۔
اگرچہ حکومت پلس نائن سیون ٹو کی ’’ غیر محبِ وطن ‘‘ حرکتوں سے پریشان رہتی ہے مگر اب تک اسے بند کرنے کی سنجیدہ سرکاری کوشش نہیں ہوئی۔ایڈیٹر بشارت کا کہنا ہے کہ ویسے تو یہ میگزین چودہ برس سے نکل رہا ہے مگر اسے بین الاقوامی سطح پر سات اکتوبر کے بعد سے معیاری تحقیقی کوریج کے سبب زیادہ پہچانا گیا۔
اگلے مضمون میں ہم سب سے پرانے ایل اسرائیلی اخبار کا ذکر کریں گے۔جو بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ باعزت اسرائیلی جریدہ سمجھا جاتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)