مسلم لیگی حکومتوں کے خلاف سازشیں
مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت ہے ۔ اس کے قائدین کو اس بات کا مکمل ادراک ہے
مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت ہے ۔ اس کے قائدین کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اچھے منصوبے اور بہترین پالیسیاں بناکر عوام کی توقعات پر پورا اترنا چاہتے ہیں ۔پاکستان کو ایک خوشحال ملک بنانا چاہتے ہیں لیکن اس پارٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہردور میں اس کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی ہیں مسلم لیگی حکومت کو سکون سے کام نہیں کرنے دیا جاتا اور اسے اپنا عرصۂ حکومت مکمل کرنے بھی نہیں دیا جاتا۔
اوّل تو اس کے اقتدار میں آنے کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں دوسرے یہ کہ اگر یہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیا ب ہوجائے تو اس کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے فوراًسازشیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ہم 1988ء سے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
1988ء میں جو انتخابات ہوئے اس میںوفاق میں پیپلز پارٹی نے مختلف گروپوں کو ملاکر بینظیر بھٹو کی سر براہی میں حکومت بنائی جب کہ صوبہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد نے 96اور پیپلز پارٹی نے 86نشستیںحاصل کیں ۔ آئی جے آئی اتحاد میں آزاد ارکان وغیرہ کی شمولیت سے تعداد139تک پہنچ گئی ۔ پنجاب اسمبلی نے میاں نواز شریف کو اپنا قائد ایوان چُن لیا ۔اس بھاری مینڈیٹ کے باوجود سر توڑ کوششیں کی گئیں کہ نواز شریف وزیر اعلیٰ نہ بن جائیں ۔ مگر میاں صاحب نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھا کر اپنی حکومتی ذمے داریاں سنبھال لیں لیکن وفاقی حکومت نے ان کے ساتھ مخاصمانہ اور عدم تعاون کا رویہ جاری رکھا ۔
اکتوبر 1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد(بشمول مسلم لیگ )نے مخالف پیپلز پارٹی اتحاد (PDA) کی 44نشستوں کے مقابلے میں 106نشستیں حاصل کیں تو ایوان نے میاں نواز شریف کو اپنا قائد ایوان اور وزیر اعظم چُن لیا۔ ایوان میں وزیر اعظم کے انتخابات کے موقعے پر 192 میں سے153ممبران نے انھیں اپنے اعتماد سے نوازا ۔ اس طرح میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے ۔ ملک کے صدر غلام اسحاق خان کو یہ ناگوارگزرا ، بیورو کریٹ گروپ غلام مصطفی جتوئی کو وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا۔
میاں نواز شریف نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو صدر محترم نے ان کو بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کے خلاف استعمال کرنا چاہا لیکن میاں صاحب نے بینظیر بھٹو سے خوشگوارتعلقات قائم کرلیے اور صدرغلام اسحاق خان کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کیا ۔ میاں صاحب آئین کی آٹھویں ترمیم جس کے تحت صدر ِ مملکت قومی اسمبلی اور حکومت کو ختم کرسکتے تھے پر بھی اپنے تحفظات ظاہر کیے لیکن صدر اسحاق اس ترمیم کو سیفٹی والوکہتے تھے، اس لیے اس شق کو آئین سے ختم کرنے پر تیار نہیں تھے ،انھوں نے جگہ جگہ روڑے اٹکانا شروع کر دیے۔ حالات اتنے سنگین ہوگئے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے صبروبرداشت کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
تو انہوں نے 17اپریل کی شام ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا''میں استعفیٰ نہیں دوں گا ،قومی اسمبلی نہیں توڑوں گا اور ڈکٹیشن نہیں لوں گا''۔اس سے پہلے ایوان ِصدر کے اشارے پر ایک سازش کے تحت تین چار وزراء نے کابینہ سے استعفے دے دیے۔ اس تقریر پر صدر اسحاق اور ان کے بیوروکریٹ گروپ کے افراد بہت سٹپٹائے ۔ صدر نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل شدہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو توڑ دیا اور نواز حکومت کو برخواست کردیا ۔ اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان نے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔وہاں میاں نواز شریف نے بھی پٹیشن داخل کردی ۔26 مئی 1993ء کو سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحاق کے اس اقدام کو غیر آئینی اور آئین سے تجاوز قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی اور نواز حکومت کو بحال کردیا ۔
میاںصاحب نے فوراً قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور کہا کہ'' میں سب کو ساتھ لے کر چلوں گا ''۔لیکن ایوان ِصدر کے گروپ نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کرنا اس گروپ میں دیگر کے علاوہ چاروں صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ شامل تھے ۔ پنجاب اسمبلی کو توڑ کر عدم استحکام پیدا کردیا گیا ۔
چوہدری پرویز الٰہی نے اس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جہاں سے 9 جون کو پنجاب اسمبلی بحال کردی گئی۔ اسمبلی کی بحالی کا نوٹس ملنے پر پانچ منٹ کے اندراندر چیف منسٹر نے دوبارہ اسمبلی توڑ دی جس کی گورنر نے فوراًمنظوری دے دی۔ ان حضرات نے سیاسی بحران کو سنگین بنا دیا۔ حکومت صحیح طور پر کام نہ کرسکی اور نظام حکومت معطل ہوگیا ۔بالآخر صدر اور وزیر اعظم دونوں سے استعفے لے کر انھیں فارغ کردیا گیا اور نئے الیکشن کا اعلان کروا دیا گیا۔
فروری 1997ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی کی 18نشستوں کے مقابلے میں 136سیٹیں جیت لیں جس سے مسلم لیگ کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی ۔میاں صاحب نے وزیر اعظم کا حلف اُٹھاکر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تعمیر و ترقی کے لا تعداد منصوبے شروع کیے لیکن حکومت مخالف سیاست دانوں نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA)بنا لیا ۔
جمہوری حکومت کو ختم کردیا گیا اور اسمبلیاں توڑ دی گئیں ۔وزیر اعظم نوازشریف کو جیل میں ڈال دیا گیا بعد میں انھیں ملک بدرکردیا گیا اور ملک میں آمریت قائم ہو گئی۔
اب پھر مئی 2013 میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر نوازشریف کی سربراہی میں حکومت بنائی ہے۔ ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے منشور کے پیش نظر سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ ملک میں لوڈشیڈنگ، مہنگائی،بیروزگاری کو ختم کرنے کے لیے مختلف تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبے شروع کردیے گئے ہیں۔ جن میں چیدہ چیدہ یہ ہیں، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی اسلام آباد میں میٹروبس، لاہور کراچی میں میٹرو ٹرین۔ چین کے تعاون سے ملک کی تقدیربدلنے کے لیے خنجراب تا گوادر اکنامک کوریڈور، کراچی سے لاہور موٹروے ، بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے پانی ہوا، سورج کی روشنی اور بائیو گیس سے چولستان میں قائد اعظم سولر پارک، تھرکول، نیلم جہلم ہائیڈروپراجیکٹ ،نیز گڈانی میں6پاور یونٹس کی تنصیب نندی پور پراجیکٹ وغیرہ وغیرہ۔
ان بڑے بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وفاقی اور صوبہ پنجاب کی حکومتیں میاںنوازشریف اور میاںشہباز شریف کی سربراہی میں دن رات تیزی سے کام کر رہی ہیں اورتین چار سال میں ملک میں خوشحالی کا ایک انقلاب متوقع ہے۔ ان منصوبوں کے تکمیل کے مراحل طے ہوتے دیکھ کر حزب اختلاف کی جماعتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ جب یہ منصوبے مکمل ہوجائیں گے تو اس کا فائدہ صرف مسلم لیگ کوہوگا جوآئندہ الیکشن پھر جیت جائے گی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ذرا انصاف کیجیے کہ ابھی بمشکل ایک سال ہوا ہے کہ جنرل الیکشن کے ذریعے منتخب ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کام شروع کیا ہے۔ اب یہ شکست خورہ سیاست دان مختلف بہانوں سے ملک بھر میں عدم استحکام اور بحران پیدا کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں ،انشاء اللہ ان کو زبردست شکست ہوگی۔