غزہ پر جارحیت اوریوم القدس

تقریباً16سے 17لاکھ فلسطینیوں کا علاقہ غزہ ایک اور مرتبہ صہیونی دہشتگرد افواج کے حملوں کا ہدف قرار پایا ہے۔

تقریباً16سے 17لاکھ فلسطینیوں کا علاقہ غزہ ایک اور مرتبہ صہیونی دہشتگرد افواج کے حملوں کا ہدف قرار پایا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ القدس کی آزادی کی جنگ میں غزہ کے فلسطینیوں کا کردار قائدانہ ہوچکا تھا۔ اس خطے کے غیرت مندوں نے تحریک انتفاضہ کا آغاز کیا تھا ۔اسی کے بطن سے مقاومت اسلامی نے جنم لیا۔ غزہ ، استقامت کی علامت ہے۔لیکن اس کالم کا عنوان یوم القدس ہے کیونکہ غزہ کے فلسطینی اسی ارض مقدس کو اپنے آزاد وطن فلسطین کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ 7 اگست 1979 وہ تاریخی دن تھا جب عالم اسلام کے ایک عظیم قائد نے ایک بیان جاری کیا جس کا آخری جملہ یہ تھا: خداوند سے اہل کفر پر مسلمانوں کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔

بظاہر یہ عالمی یوم القدس منانے کا اعلان تھا لیکن امام خمینی نے اس کی ابتداء ہی میں اسے اسلام و کفر کے درمیان معرکے کا ایک محاذ قرار دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ وہ کئی برس سے اسرائیلی خطرے کے بارے میں مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔اسرائیل نے ان دنوں فلسطینی بہنوں اور بھائیوں پر اپنے وحشیانہ حملوں میں اضافہ کردیا تھا خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کو مارنے کے لیے ان کے گھروں پر ہوائی حملے کر رہا تھا۔ان حالات میں امام خمینی نے دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کی کہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے آپس میں مل جائیں۔انھوں نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو دعوت دی کہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو جو شب قدر کے ایام میں یا ان سے قریب ہوتا ہے کو یوم القدس کے طور پر انتخاب کریں۔

یہ عالمی سطح پر یوم القدس کا پہلا باضابطہ اعلان تھا۔امام خمینی کی نظر میں شب قدر کی مبارک رات سے ملحق دن بھی بہت ہی بابرکت دن ہوتا ہے اسی لیے وہ سمجھتے تھے کہ جمعۃ الوداع فلسطینی عوام کی تقدیر بھی معین کرسکتا ہے۔امام خمینی نے جو اپیل کی اس میں عالم اسلام سے درخواست کی کہ پروگرام بنا کر مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں عالمی یکجہتی کا اعلان کریں یعنی عالمی یوم القدس کا مقصد فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے مسلمانوں کے قانونی حقوق کے حق میں آواز بلند کرنا ہے۔16اگست 1979 کو انھوں نے مزید وضاحت وصراحت سے کہا کہ یوم القدس ایک عالمی دن ہے امریکا اور اس کے علاوہ دوسروں کے ظلم میں دبی ہوئی قوموں کی بڑی طاقتوں سے مقابلے کا دن ہے۔ یہ ایسا دن ہے جس دن منافقوں اور فرض شناسوں کے درمیان فرق ظاہر ہوجائیگا۔

یوم القدس ایسا دن ہے کہ جس دن تمام قومیں قیام کریں اور فساد کے ان جرثوموں کو کوڑے کی ٹوکریوں میں پھینک دیں۔ یہ ایسا روز ہے جس میں ہم تمام کمزور انسانوں کو مستکبرین کے چنگل سے باہر نکالیں۔ یہ ایسا روز ہے کہ تمام مسلمان معاشروں کو قیام کرنا چاہیے اور بڑی طاقتوں کو الٹی میٹم دینا چاہیے کہ ضعیف لوگوں سے اپنا تسلط ختم کریں۔اسرائیل کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب دنیا میں اس کے آقائوں کا راج نہیں چلے گا، اب انھیں کنارہ کش ہونا پڑے گا۔ ان کا ہاتھ تمام اسلامی ممالک سے کٹ جانا چاہیے۔ تمام اسلامی ممالک میں اس کے آلہ کار حاکموں کو برطرف ہونا چاہیے۔یوم القدس ایسے ہی مطالب کے اعلان کا دن ہے۔ اس بات کے اعلان کا دن کہ اسلامی قوموں کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں اور بڑی طاقتوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں (لیکن) یوم القدس ایک ایسا دن ہے جو ان کی (ناپاک) آرزوئوں کو نابود کردیگا اور ان کو الٹی میٹم دیگا کہ اب وہ دن گذر گئے ہیں۔

یوم القدس یوم اسلام ہے۔یوم القدس ایسا دن ہے جس دن اسلام کو زندہ کرنا چاہیے۔ہمیں اس دن اسلام کا احیاء کرنا چاہیے۔اسلامی ممالک میں اسلام کے قوانین نافذ ہونے چاہئیں۔یوم القدس ایسا روز ہے جس میں تمام بڑی طاقتوں کو آگاہ کردینا چاہیے کہ اسلام اب تمہارے آلہ کاروں کی وجہ سے تمارے تسلط میں نہیں رہے گا۔یوم القدس اسلام کی حیات کا دن ہے۔


مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے پاس وسائل ہیں ، ان کی کثیر آبادی ، مادی طاقت، معنوی و روحانی طاقت ان کے پاس ہے۔خدائی حمایت ان کے شامل حال ہے۔اسلام ان کا پشت پناہ ہے ۔ انھیں ڈر کس چیز کا ہے؟دنیا کی حکومتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کو شکست نہیں ہوسکتی۔اسلام اور قرآن کی تعلیمات تمام ملکوں پر غالب آنی چاہئیں۔دین،الٰہی دین ہونا چاہیے۔خدا کا دین اسلام ہے۔ہر جگہ اسلام کو آگے بڑھنا چاہیے۔یوم القدس ایسی ہی باتوں کے اعلان کا دن ہے۔

یوم القدس فقط فلسطین کا دن نہیں بلکہ اسلام اور اسلامی حکومت و اقدار کا دن بھی ہے۔ہم یوم القدس کو یوم اللہ اور یوم رسول اللہ سمجھتے ہیں۔یوم القدس خائن حکومتوں کو الٹی میٹم دینے کا دن بھی ہے۔اسلام دشمنوں میں سرفہرست امریکا اور اسرائیل ہیں۔یوم القدس حق و باطل کے درمیان جدائی کا دن ہے۔ انقلاب اسلامی ایران فروری 1979 میں کامیاب ہوتے ہی ایران میں صہیونی سفارتخانہ ختم کردیا گیا اور کچھ ہی عرصے میں اسی عمارت میں یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کا فلسطینی سفارت خانہ کھل گیا۔

اس انقلاب کے بعد جو پہلا رمضان آیا ، اسی میں یوم القدس منانے کا اعلان کرکے امام خمینی نے عالمی سیاست میں ایک نئی آئیڈیالوجی کو متعارف کروایا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ امریکی و فرانسیسی فوجی لبنان سے ذلیل و خوار ہوکر نکلے۔یہ یوم القدس کی برکتوں میں سے ایک برکت تھی۔ دنیا پر امریکا کا خوف طاری کرنے والی سی آئی اے کا اسٹیشن چیف بھی اغوا کرلیا گیا۔یہ انہونیاں یوم القدس کے بعد سے شروع ہوئیں۔

یوم القدس منانے کے بعد آنے والے ہر سال میں صہیونی ریاست کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔جنوبی لبنان سے ذلت آمیز پسپائی سے لے کر غزہ کے غیر مشروط انخلاء تک صہیونی شکستوں کا طویل اور ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ 2006 کی لبنان جنگ اور 2009-09کی غزہ جنگ کے باوجود مقاومت اسلامی پہلے سے زیادہ موثر اور طاقتور ہے۔کیا 2009 میں غزہ کے غیرت مند جھکے تھے جو اب جھکیں گے، ہر گز نہیں۔عالمی یوم القدس نے فلسطینیوں کی عالمگیر حمایت کواتنی وسعت دے دی ہے کہ اب لندن، نیویارک، پیرس کے انصاف پسند انسانوں کو بھی اپنے وجود اور موقف کا عملی اظہار کرنا پڑتا ہے۔بی بی سی اور سی این این کی صہیونیت زدہ کوریج مسترد کی جارہی ہے۔ دنیا کے انصاف پسند عوام غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ایسے عالم میں ایک یاد گار یوم القدس کی آمد آمد ہے۔یوم القدس غزہ کی آزادی کی نوید لائے گا۔ انشاء اللہ غزہ کا محاصرہ ختم ہوگا۔ قدس کی آزادی تک مقاومت اسلامی کی جدوجہد جاری رہے گی تو ان کی عوامی حمایت کے لیے دنیا بھر میں یوم القدس بھی منایا جاتا رہے گا۔دنیا کے سارے مسلمان فلسطین سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کی عالمی استکبار اور ان کے آلہ کاروںکے ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے یوم القدس منا کر فلسطین سمیت پوری دنیا کے مستضعفین سے عہد وفا کی تجدید کریں۔خاص طور پر غزہ کے نہتے ، مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے یوم القدس کے اجتماعات میں شرکت ناگزیر ہوچکی ہے۔
Load Next Story