اسرائیلی بربریت کا جنگی جنون
اسرائیل نے بربریت کا جو مظاہرہ غزہ میں معصوم بچوں ، بچیوں ، عورتوں اور جوانوں کے ساتھ کیا
اسرائیل نے بربریت کا جو مظاہرہ غزہ میں معصوم بچوں ، بچیوں ، عورتوں اور جوانوں کے ساتھ کیا وہ آج کی دنیا میں طاقت کی حکمرانی کی ایک بدترین مثال ہے ۔ کیونکہ دنیا میں جہاں بھی اسلحہ اور جنگی جنون کی حکمت عملی کو طاقت کو بنیاد بنایا جائے گا ، وہاں پرتشدد سیاست اور جنگی ماحول کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔
جنگی حکمت عملی کو بنیاد بنا کر جو کچھ اسرائیل نے امریکا، برطانیہ اور روس سمیت دیگر ملکوں کی حمایت کے ساتھ کیا، اس پر عالمی دنیا کی بے حسی اور خاموشی سمیت جنگی جنونیت کی دلیل پیش کرنے کا رجحان سب سے بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے ۔پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو امن کی بات تو کرتے ہیں ، لیکن اسرائیل کی بربریت کے سیاسی جواز بھی بڑی ڈھٹائی سے پیش کرتے ہیں ۔ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امت مسلمہ مسلمانوں کے اپنے اندر ہونے والی قتل و غارت یا پرتشدد رجحانات پر تو خاموش رہتی ہے ، لیکن بڑی طاقتوں کی جانب سے جب مسلمانوں کے خلاف کچھ ہوتا ہے ، تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔
یقینا جنگی جنونیت کا جنون مسلمانوں کے اپنے اندر ہو یا باہر دونوں سطح پر یہ غلط حکمت عملی ہے ۔ لیکن اس پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے کہ جنگی جنونیت کے اس رجحان کی حکمت عملی کی سربراہی میں کون کون پیش ہے ۔دنیا میں اس وقت جو سیاست ہو رہی ہے ، اس کی بنیاد قانون، اصول اور اخلاقیات نہیں بلکہ طاقت کے حصول کی جنگ ہے ۔ اس لیے اس جنگ میں جو ممالک وسائل کی طاقت رکھتے ہیں ، ان کی بظاہر ایک بالادستی نظر آتی ہے ۔اس بالادستی میں اگر ان کے مزاج اور حکمت عملی میں جو جنونیت سامنے آئی ہے اس کا شکار کمزور ممالک یا طبقات آئے ہیں۔
ان طبقات کو محض مذہب یا اسلام کی بنیاد پر ہی نہیں دیکھنا چاہیے ، بلکہ اس جنگی جنونیت کا شکار وہ تمام قوتیں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں جو دنیا کی سیاست میں اس وقت بڑی طاقتوں کی محتاج ہیں ۔جو کچھ اسرائیل نے غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے ، اس پر عالمی دنیا سمیت بڑی طاقتوں کی خاموشی نے بھی مسلم دنیا میں ایک ردعمل کی سیاست کو جنم دیا ہے ۔اس لیے آج کی دنیا میں ایک طرف طاقت ور ممالک ہیں تو دوسری طرف اس کے ردعمل میں ان طاقت ور ملکوں کے خلاف نفرت کی سیاست ہے ۔ مقابلہ کی اس سیاست میں طاقت ور کے مقابلے میں کمزور نے بھی اسلحہ اٹھا لیا ہے ، جو درست حکمت عملی نہیں ۔
ہمارے بعض دوست اپنی دانش اور حکمت میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر الفتح، حماس جیسی تنظیمیں پر تشدد راستہ کو ترک کرکے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تو اس سے انھیں راستہ تلاش کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔ ایک سطح پر یہ حکمت عملی درست ہے ، لیکن کیا اس حکمت عملی کا اطلاق کسی ایک فریق پر ہوگا یا دونوں فریقین کو اسی حکمت اور اصول کے تحت آگے بڑھنا چاہیے۔ بعض دوست کمزور لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ان کی جنگی حکمت درست نہیں، لیکن طاقت ور ممالک کے بارے میں ان کی خاموشی مسائل کو پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر فلسطین میں مسلح گروہ اپنی جدوجہد ترک کردیں تو اسرائیل کے رویہ میں نرمی پیدا ہوسکتی ہے ، درست حکمت عملی نہیں ۔اس طرز فکر کے لوگوں کو میں اسرائیل کے بربریت پر مبنی مزاج پر معروف عالمی امریکی دانشور نوم چومسکی کے الفاظ پیش کرنا چاہتا ہوں جو اس بات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں کہ اسرائیل کی فکر کا بنیادی مسئلہ کیا ہے ۔ نوم چومسکی کے بقول ''اسرائیل کے پاس دنیا کے جدید ترین زہریلے ہتھیار ہیں ، وہ یہ ہتھیار جدید ترین جنگی طیاروں اور بحری جہازوں سے فلسطینیوں کے گنجان آباد کیمپوں، بازاروں، محلوں، اسکولوں اور مسجدوں پر گراتا ہے۔
وہ فلسطینی جن کے پاس اپنے دفاع کے لیے کسی قسم کے کوئی بڑے ہتھیارنہیں ، کوئی فوج ، کوئی توپ خانہ، کوئی ہوئی جہاز اور کوئی بحری بیڑے ، کچھ بھی نہیں ۔ یہ جنگ نہیں ہے ، یہ ایک منظم نسل کشی اور قتل عام ہے ۔''اسرائیل کی حالیہ بربریت پر یہ سوال تو ضرور اٹھنا چاہیے کہ اس نے جو معصوم بچوں اور بچیو ں سمیت عورتوں کو نشانہ بنایا ہے ، کیا وہ حماس یا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتے تھے یا جن علاقوں پر بمباری کی گئی کیا وہ علاقہ جنگجوئوں کے اڈے یا اسلحہ خانہ تھے ، تو یقینا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔
مسلمانوں پر جب بھی کہیں ظلم و ستم ہوتا ہے تو ایک امید ہم امت مسلمہ ، مسلم دنیا اور اسلامی ملکوں کے ادارے بشمول او آئی سی سے باندھتے ہیں ، حالانکہ یہ مشق بے معنی ہے ۔ کیونکہ اول اس وقت دنیا میں ایک واضح لائن کھنچی ہوئی ہے ۔ ایک طرف مسلم حکمران اور او آئی سی کا ادارہ ہے تو دوسری طرف مسلم دنیا کے لوگ۔ مسلم دنیا کے لوگوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ اس کے حکمران مسلم عوام سے زیادہ صیہونی طاقتوں کے دوست ہیں ۔
جنگی حکمت عملی کو بنیاد بنا کر جو کچھ اسرائیل نے امریکا، برطانیہ اور روس سمیت دیگر ملکوں کی حمایت کے ساتھ کیا، اس پر عالمی دنیا کی بے حسی اور خاموشی سمیت جنگی جنونیت کی دلیل پیش کرنے کا رجحان سب سے بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے ۔پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو امن کی بات تو کرتے ہیں ، لیکن اسرائیل کی بربریت کے سیاسی جواز بھی بڑی ڈھٹائی سے پیش کرتے ہیں ۔ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امت مسلمہ مسلمانوں کے اپنے اندر ہونے والی قتل و غارت یا پرتشدد رجحانات پر تو خاموش رہتی ہے ، لیکن بڑی طاقتوں کی جانب سے جب مسلمانوں کے خلاف کچھ ہوتا ہے ، تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔
یقینا جنگی جنونیت کا جنون مسلمانوں کے اپنے اندر ہو یا باہر دونوں سطح پر یہ غلط حکمت عملی ہے ۔ لیکن اس پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے کہ جنگی جنونیت کے اس رجحان کی حکمت عملی کی سربراہی میں کون کون پیش ہے ۔دنیا میں اس وقت جو سیاست ہو رہی ہے ، اس کی بنیاد قانون، اصول اور اخلاقیات نہیں بلکہ طاقت کے حصول کی جنگ ہے ۔ اس لیے اس جنگ میں جو ممالک وسائل کی طاقت رکھتے ہیں ، ان کی بظاہر ایک بالادستی نظر آتی ہے ۔اس بالادستی میں اگر ان کے مزاج اور حکمت عملی میں جو جنونیت سامنے آئی ہے اس کا شکار کمزور ممالک یا طبقات آئے ہیں۔
ان طبقات کو محض مذہب یا اسلام کی بنیاد پر ہی نہیں دیکھنا چاہیے ، بلکہ اس جنگی جنونیت کا شکار وہ تمام قوتیں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں جو دنیا کی سیاست میں اس وقت بڑی طاقتوں کی محتاج ہیں ۔جو کچھ اسرائیل نے غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے ، اس پر عالمی دنیا سمیت بڑی طاقتوں کی خاموشی نے بھی مسلم دنیا میں ایک ردعمل کی سیاست کو جنم دیا ہے ۔اس لیے آج کی دنیا میں ایک طرف طاقت ور ممالک ہیں تو دوسری طرف اس کے ردعمل میں ان طاقت ور ملکوں کے خلاف نفرت کی سیاست ہے ۔ مقابلہ کی اس سیاست میں طاقت ور کے مقابلے میں کمزور نے بھی اسلحہ اٹھا لیا ہے ، جو درست حکمت عملی نہیں ۔
ہمارے بعض دوست اپنی دانش اور حکمت میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر الفتح، حماس جیسی تنظیمیں پر تشدد راستہ کو ترک کرکے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تو اس سے انھیں راستہ تلاش کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔ ایک سطح پر یہ حکمت عملی درست ہے ، لیکن کیا اس حکمت عملی کا اطلاق کسی ایک فریق پر ہوگا یا دونوں فریقین کو اسی حکمت اور اصول کے تحت آگے بڑھنا چاہیے۔ بعض دوست کمزور لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ان کی جنگی حکمت درست نہیں، لیکن طاقت ور ممالک کے بارے میں ان کی خاموشی مسائل کو پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر فلسطین میں مسلح گروہ اپنی جدوجہد ترک کردیں تو اسرائیل کے رویہ میں نرمی پیدا ہوسکتی ہے ، درست حکمت عملی نہیں ۔اس طرز فکر کے لوگوں کو میں اسرائیل کے بربریت پر مبنی مزاج پر معروف عالمی امریکی دانشور نوم چومسکی کے الفاظ پیش کرنا چاہتا ہوں جو اس بات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں کہ اسرائیل کی فکر کا بنیادی مسئلہ کیا ہے ۔ نوم چومسکی کے بقول ''اسرائیل کے پاس دنیا کے جدید ترین زہریلے ہتھیار ہیں ، وہ یہ ہتھیار جدید ترین جنگی طیاروں اور بحری جہازوں سے فلسطینیوں کے گنجان آباد کیمپوں، بازاروں، محلوں، اسکولوں اور مسجدوں پر گراتا ہے۔
وہ فلسطینی جن کے پاس اپنے دفاع کے لیے کسی قسم کے کوئی بڑے ہتھیارنہیں ، کوئی فوج ، کوئی توپ خانہ، کوئی ہوئی جہاز اور کوئی بحری بیڑے ، کچھ بھی نہیں ۔ یہ جنگ نہیں ہے ، یہ ایک منظم نسل کشی اور قتل عام ہے ۔''اسرائیل کی حالیہ بربریت پر یہ سوال تو ضرور اٹھنا چاہیے کہ اس نے جو معصوم بچوں اور بچیو ں سمیت عورتوں کو نشانہ بنایا ہے ، کیا وہ حماس یا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتے تھے یا جن علاقوں پر بمباری کی گئی کیا وہ علاقہ جنگجوئوں کے اڈے یا اسلحہ خانہ تھے ، تو یقینا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔
مسلمانوں پر جب بھی کہیں ظلم و ستم ہوتا ہے تو ایک امید ہم امت مسلمہ ، مسلم دنیا اور اسلامی ملکوں کے ادارے بشمول او آئی سی سے باندھتے ہیں ، حالانکہ یہ مشق بے معنی ہے ۔ کیونکہ اول اس وقت دنیا میں ایک واضح لائن کھنچی ہوئی ہے ۔ ایک طرف مسلم حکمران اور او آئی سی کا ادارہ ہے تو دوسری طرف مسلم دنیا کے لوگ۔ مسلم دنیا کے لوگوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ اس کے حکمران مسلم عوام سے زیادہ صیہونی طاقتوں کے دوست ہیں ۔