چاند کے پار چلو
بچپن سے ہم ایک نغمہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ "چلو دلدار چلو، چاند کے پار چلو، ہم ہیں تیار چلو" تو صاحبو! ہم سوچتے ہیں کہ آخر پیارومحبت کے سلسلے بڑھانے کے لیے اسی کرہ اراض پر ہی کیوں نہیں، چاند کے پار جانے کی کیا ضرورت ہے لیکن دوسرے ہی لمحہ یہ خیال آتا ہے کہ پریمیوں کی بات ہے تو درست کیونکہ یہ کرہ ارض ہماری اپنی ہی غفلتوں اور لاپرواہیوں کے باعث اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ جس میں سانس لینا تک محال ہو گیا ہے ، ہم کس کس آلودگی کا ذکر کریں، مضر صحت گیسوں کی فضاء میں بے ہنگم موجودگی کا ، گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کا ، بے تحاشا شورمچانے کا ، یہاں تو آلودگی ہی آلودگی ہے ، سموگ اور دیگر آلودگیاں زہر قاتل کا روپ دھار چکی ہیں، عالمی سطح پر ہونے والی کانفرنسز کا اہم اور بنیادی نکتہ آلودگی سے نمٹنے اور ماحول کو صاف ستھرا بنانے کا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں یہاں شہر اقتدار اسلام آباد میں بھی منعقدہ SCOکانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آلودگیوں سے تنگ دنیا کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے ورنہ مسائل مزید گھمبیر ہو جائیں گے ، جنگلات کے کٹاؤ ، درخت نہ اگانے اور زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور بڑے بڑے پلازے اور پرشکوہ عمارتیں تعمیر کرنے سے زمین کا فطری حسن ماند پڑتا جارہا ہے ، جہاں ماحول صاف ستھرا اور خوشگوار نہیں رہا وہاں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے نے حضرت انسان کی مالی اور معاشی مشکلات میں بھی حد درجہ اضافہ کر دیا ہے۔
اس لیے لمحہ موجود کو خوشحال اور خوشگوار بنانے کے لیے موجودہ حکومت نے ایک ایسا تحفہ متعارف کرایا ہے کہ جس سے زندگی آسان تر ہو جائے گی ، ماحول خوشگوار ہوجائے گا اور پھر کوئی بھی بندہ بشر چاند کے اس پار جانے کی تمنا نہیں کرے گا ، بلکہ اپنی زمین پر رہنے اور بسنے کو فوقیت دے گا اور وہ یہ کہ موجودہ جمہوری حکومت نے چین اور دیگر ترقی یافتہ ریاستوں کے تعاون سے الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرائی ہیں، یہ وہیکلز پٹرول اور ڈیزل کے بجائے برقی طاقت سے چلیں گی ، جیسے سولر سسٹم سے بجلی بچانے کا عمل جاری ہے ویسے ہی بیٹری اور الیکٹرک سے چلنے والی گاڑیاں نہ صرف سستی پڑیں گی بلکہ دھوئیں اور شور شرابے سے جان چھوٹ جائے گی۔
انتہائی خاموش اور سبک رفتار یہ الیکٹرک گاڑیاں دیگرممالک میں اب بھی دستیاب ہیں اور کامیابی سے اپنا سفر طے کر رہی ہیں، یہی الیکٹرک سکوٹیاں پاکستان میں بھی اکا دکا نظر آنے لگی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جدید اور کم سے کم خرچ والی گاڑیوں سے متعلق ایک جامع آگاہی مہم چلائی جائے اور اس مہم میں پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو استعمال میں لایا جائے تاکہ یہ جامع منصوبہ کامیابی سے تشکیل پا سکے ، ان الیکٹرک گاڑیوں بارے وسیع پیمانے پر تشہیر کی ضرورت ہے ، اس مؤثر اور مفید اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
ڈیوٹی میں کمی ، پرکشش مراعات، ان گاڑیوں کے حصول میں سبسڈی کی فراہمی ، بینکوں سے آسان شرائط اور کم منافع پر قرضوں کی فراہمی ، مذکورہ گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات کو سستے داموں کھلی مارکیٹ میں مہیا کرنا جیسے اقدامات ماحول دوست گاڑیوں کی خریدو فروخت کے عمل کو تیز تر کر سکتے ہیں، پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں نے ماحول کو اس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر کو اس وقت سموگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس خطرہ کے باعث وہاں اسکول بند ہو کر رہ گئے ہیں۔
الیکٹرک گاڑیوں کے آجانے سے بڑھتے ہوئے ٹمپریچر، سموگ اور کاربن جیسی آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی، ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گی تو ہمیں سانس لینے میں آسانی ہو گی ، مہلک اور موذی امراض سے انسانیت نجات پائے گی ، اور ہم ایک صاف ستھرے ماحول اور پرسکون فضا میں سانس لے سکیں گے، معاشرہ صحت مند ہو گا، ماحول صاف ستھرا ہو گا، پودوں کی بہتر نشوونما ہو گی تو قومیں ہر میدان میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں گی ، ہماری آیندہ نسلیں صحت مند اور توانا ہوں گی ، پارک اور کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے ، بلاوجہ شورو غل اور گیسوں کے بے ہنگم اخراج سے نجات پاکر آدمیت انسانیت کی معراج پا سکے گی، اس وقت عالمی سطح پر ماحولیات کے سبجیکٹ کو محض اس لیے اجاگر کیا جا رہا ہے کہ یہ مسئلہ روز بروز سنگین سے سنگین تر ہو تا جارہا ہے ، موسمی تغیر و تبدل سے انسانی مزاج پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس لیے ہمیں ہر لحاظ سے اور ہر مقام پر اپنے ماحول کو تمام تر آلودگیوں سے بچانا ہو گا، اس ضمن میں ہمارا مضبوط اور قابل اعتماد دوست عوامی جمہوریہ چین ہمارے ساتھ کھڑا ہے جہاں دیگر اشیاء جدیدہ میں چین نے دنیا بھر کے ممالک کو مات دیدی ہے اور اپنی لائق ستائش ٹیکنالوجی کے باعث چین آج اقوام عالم میں سرفراز و سربلند نظرآرہا ہے ، الیکٹرک گاڑیوں کی برآمد میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں اس لیے پاکستان چین سے آسان اقساط اور مناسب نرخوں پر الیکٹرک وہیکلز درآمد کر سکتا ہے۔
ہمیں قومی سطح پر اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا اور ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چل کر خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا، موجودہ جمہوری حکومت اس حوالہ سے کئی انقلابی قدم اٹھا رہی ہے ، آنے والے وقتوں میں جہاں پاکستان دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اوج کمال پر نظر آئے گا وہاں توانائی کے شعبہ میں بھی ہم خود کفیل ہو جائیں گے ، زرعی، صنعتی، سیاحتی اور ثقافتی میدان میں بھی ہماری مثالیں دی جائیں گی اور ہم ترقی کا نیا باب رقم کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے ، فی الحال ہم من حیث القوم اپنے ماحول کو خوشگوار بنانے پر توجہ دیں، ماحول کو پاک اور صاف ستھرا کرنے کے لیے فی الفور الیکٹرک گاڑیوں کے رجحان کو بڑھائیں، پٹرول اور ڈیزل کے بے تحاشہ استعمال سے اجتناب کریں، تاکہ مضر صحت دھوئیں، کاربن اور دیگر گیسوں سے بچ سکیں۔
الیکٹرک گاڑیوں کی خریدو فروخت کے عمل کو بڑھانے کے لیے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار سامنے آئیں، ان گاڑیوں کی ڈیلر شپ لیں، عوام میں ان گاڑیوں کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار اور نمائشوں کا انعقاد کرایا جائے ، اس تمام عمل کے لیے حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ الیکٹرک گاڑیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال ممکن ہو سکے ، اس وقت پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں ناقابل برداشت حد تک لوگوں اور خصوصا بچوں کو متاثر کر رہا ہے ، سانس ، پھیپھڑوں اور گلے کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تڑپتی اور سسکتی انسانیت جھولی پھیلا کر التجا کر رہی ہے کہ خدارا اپنے ماحول کو اپنے ہاتھوں سے برباد نہ کیا جائے ، زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں ، صنعتیں شہری آبادی کے علاقوں سے کہیں دور لگائی جائیں تاکہ ان سے خارج ہونے والی مضر صحت گیسیں لوگوں کو متاثر نہ کر سکیں، ان ناگفتہ بہ حالات، آلودگی سے پر ماحول اور بیمار انسانیت کو پرفضا ماحول عطاکرنے کا واحد ذریعہ اپنی وہیکلز کو بدلنا ہو گا ، پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے بجائے صرف اور صرف الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دینا ہو گی کیونکہ ماحول صاف ہو گا تو ہم آیندہ نسلوں کو ایک پاکیزہ معاشرہ فراہم کر سکیں گے اور لوگ پھر چاند کے پار نہیں، اپنے کرہ ارض پر ہی رہنے کی تمنا اورجستجو میں ہونگے اور ہر زبان پر ہو گا کہ "چلو دلدار چلو۔چلو پاکستان چلو اور اس طرح سب کے سب جواب میں کہیں گے ، 'ہم ہیں تیار چلو "۔