اسٹریٹ کرائمز، انسانی جانیں کتنی سستی؟…تسلیما لودھی

اسٹریٹ کرائم کے بڑھنے کی وجوہات بہت ساری ہیں جس میں سرِ فہرست بیروزگاری میں اضافہ ہے


تسلیما لودھی November 10, 2024

ایک دور تھا جب کراچی کو ’’ روشنیوں کا شہر‘‘ کہا جاتا تھا، پوری پوری رات لوگ باہرگھومتے، روزی روٹی کماتے، نائٹ اور ڈے شفٹس لگاتے تھے، کہنے کو کراچی پاکستان کا ایسا شہر ہے کہ جو پاکستان کے لیے ریڑھ ہی ہڈی کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں سے لوگ کمانے کے لیے آتے ہیں، دیگر شہروں سے آئے لوگ اس شہر میں نہ صرف نوکریاں کر رہے ہیں بلکہ اپنے اپنے کاروبار بھی چلا رہے ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کراچی کی اس َبھیڑ میں کچھ ایسی کالی بھیڑَیں بھی موجود ہیں جو کہ کراچی کی جڑوں کوکاٹنے میں مسلسل لگی ہوئی ہیں،اور کراچی کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہیں ،شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اس بات کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔

کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوںکی وجہ سے لوگوں میں جہاں خوف و ہراس پھیلتا جا رہا ہے اور عوام مزید عدم تحفظ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔کراچی کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں وہاں موٹر سائیکل،کار اور دیگر چلتے پھرتے جرائم پیشہ افراد عوام کو چند کاغذ کے ٹکڑوں کے لیے اُن کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

کراچی میں صرف موٹر سائیکل سوار ہی ایسے لوگوں کا شکار نہیں ہوتے بلکہ راہ چلتے لوگ ہوں یا اسکول کالجز سے آنے والے اساتذہ یا طلبا، بڑے ہوں یا بچے، بزرگوں کا بھی خیال نہیں کیا جاتا اور اُن سے موبائل کے علاوہ نقد اور دیگر قیمتی اشیاء بھی چھین لی جاتی ہیں جب کہ بائیک والوں سے اُن کی بائیک یا گاڑی والوں سے اُن کی سواری بھی چھین لی جاتی ہے۔

ذرایع کے مطابق 2024کے جنوری سے جولائی تک 31 ہزار سے زائد موٹر سائیکلوں کے چوری اور ڈکیتی ہونے کے واقعات پیش آئے ہیں، یہ تو وہ موٹر سائیکلوں کی اعداد و شمار ہے جس کی رپورٹ لکھوائی گئی ہے جن موٹر سائیکلوں کی چھن جانے کی رپورٹ نہیں لکھوائی گئی اُن کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ جب کہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق صرف اگست میں 5960 اسٹریٹ کرائمز کے واقعات رپورٹ ہوئے، جس میں بائیکوں کے چھن جانے، گھروں کے باہر سے غائب ہوجانے، موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء کے چھیننے حتیٰ کہ اغواء برائے تاوان کے بھی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

 کراچی میں موٹر سائیکلوں کی تعداد عام طور پر زیادہ ہے۔ یہی چھینی اور چوری کی گئی موٹر سائیکلیں ہی اسٹریٹ کرائمز کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز میں ملوث جرائم پیشہ نامعلوم افراد پکڑے یا گرفتار بھی نہیں ہو پاتے اور دن بہ دن ایسے ہی اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ بھی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں تک کے جرائم پیشہ افراد سے مزاحمت کرنے والوں کو یہ افراد جان سے مار ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کا شکار ہونے والا کسی کا بھائی،کسی کا باپ، کسی کا بیٹا،کسی کا شوہر ہو سکتا ہے یا اکلوتا گھرکا کفیل بھی ہو سکتا ہے، یعنی انسانی جان کی قیمت موبائل اور موٹر سائیکل سے بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔

اسٹریٹ کرائم کے بڑھنے کی وجوہات بہت ساری ہیں جس میں سرِ فہرست بیروزگاری میں اضافہ ہے، نوکریوںکے نہ ملنے یا نوکری چلے جانے کے باعث بھی اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری اہم وجہ منشیات کا استعمال کرنے والے لوگ جنھیں جب منشیات کے لیے روپے پیسے نہیں ملتے وہ پھر اسٹریٹ کرائمز اور دیگر چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہونے لگتے ہیں۔ تیسرے وہ گروہ ہیں جو کہ چوری اور ڈکیتی کی موٹر سائیکلوں کے پارٹس یا ان مو ٹر سائیکلوں کو دوسرے شہر فروخت کرتے ہیں، دیگر وجوہات میں ایک بڑی اور اہم وجہ پولیس کی ان چوری ڈکیتی کرنے والوں کو پکڑنے میں ناکامی ہے۔ کراچی کے بعض علاقوں میں پولیس کی گردش کرنے کے باوجود بھی چوری ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں جس سے ان جرائم پیشہ افراد کو مزید شہ ملتی ہے۔

صوبائی انتظامیہ اب بھی پُر امید ہے کہ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ اور اس جیسے دیگر اقدامات پر عمل کر کے صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اربوں روپے لاگت کے اس منصوبے کا مقصد شہر میں سی سی ٹی وی اور دیگر نگرانی کے آلات لگا کر سڑکوں اور گلیوں کو محفوظ بنانا ہے، اگرچہ یہ ایک درست قدم ہے لیکن اصل تشویش کیمروں میں وارداتیں ہوتے دیکھنا نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جرائم کے خلاف فوری اور باصلاحیت انداز میں کارروائی کرنا ہے۔

اس ناکام اسکیم پر انحصار کرنے کے بجائے حکام کو پولیس اہلکاروں کی تربیت اور ان کی فٹنس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ محکمہ میں بھرتی کے لیے اعلیٰ معیارات مقرر کرنے چاہیے اور چند مخصوص حلقوں کو خوش کرنے کے لیے ’سیاسی سفارشوں‘ کے سلسلے کو ختم کرنا چاہیے۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ شہرِ کراچی میں 10 ہزار کلومیٹر سے زائد کی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ دیگر عوامی مقامات جیسے بس ٹرمینلز، پارکس، کھیل کے میدان، پیدل چلنے والوں کے لیے پُل، پارکنگ لاٹ، مارکیٹس وغیرہ پر بھی چوکس نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس عدد میں شہر کی گنجان شہری آبادیوں میں سروس روڈ اور بند گلیاں شامل نہیں۔

ان وسیع مقامات کی نگرانی کے لیے زیادہ جدید حکمتِ عملیوں کی ضرورت ہے جس کا آغاز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودہ حالت کا جائزہ لینے اور اسے جدید ضروریات کے مطابق بنانا چاہیے۔ مثال کے طور پر ٹریفک پولیس شاذ و نادر ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی بڑی اور مہنگی گاڑیوں کو پکڑتی ہے لیکن ٹریفک چالان کی فہرست کے لیے چھوٹی گاڑیوں پر فوری جھپٹ پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ کالے شیشوں والی گاڑیاں اور بڑی جیپیں جن کے پشت پر بندوق بردار پرائیویٹ گارڈز بیٹھے ہوتے ہیں، وہ ٹریفک سگنلز اور قانون کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔

اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے بہت سے اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے، جس میں CCTVکیمرے اور ان کی تنصیب ہے،جس سے اس جرم میں ملوث لوگوں کی پہچان ہو سکے گی اور ان کی گرفتاری بھی آسان ہو جائے گی، جب کہ عوام میں بھی آگہی مہم چلائی جائے کہ اپنی موٹر سائیکلوں یا سواریوں میںGPS ٹریکر نصب کروائیں تاکہ ڈکیتی یا چوری ہونے کی صورت میں با آسانی سواری کو ٹریک کیا جا سکے۔

 اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ایسی ہی کئی وجوہات ہیں جن کے لیے بہت سے اقدامات کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ کراچی میں شہری اپنے شہر میں خود کو محفوظ محسوس کر سکیں اور کراچی پھر سے روشنیوں کا شہر بن سکے، اگر ہم اپنے ہی ملک، اپنے شہر اور اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں رہ سکیں گے توکہیں بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں