خیبر پختون خوا اور پنجاب کی حکومتوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ بھی اپنی ایئر لائن چلانے میں دلچسپی لیں گے۔ یہاں پوچھنے کے لیے ایک اچھا سوال یہ ہے کہ کیوں؟ صوبوں کے اپنے بینک کیوں ہوں یا ایئر لائنزکیوں چلائی جائیں؟
وفاقی حکومت پہلے ہی سرکاری اداروں کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ اس میں کچھ ایسے ہیں جو نقصان کر رہے ہیں،کچھ ایسی صنعتوں میں بھی ہیں جہاں منافع بہت ممکن ہے۔ پرائیویٹ سیکٹرکی فرمیں اس شعبے میں منافع کماتی ہیں۔وفاقی حکومت تمام چھوٹے بڑے مالیاتی اداروں کی نجکاری کرنے کی بات کر رہی ہے، خاص طور پر خسارے میں چلنے والے اداروں کی اور مالیاتی خسارے کو سنبھالنے کے لیے اسے جلد کرنے کے لیے دباؤ میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دہندگان اور عطیہ دہندگان کی طرف سے بھی ایسا کرنے کا دباؤ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو ترجیح دی گئی ہے۔
اس سب کو دیکھتے ہوئے صوبے کیوں ایئر لائنز خریدنا یا قائم کرنا اور چلانا چاہیں گے؟ صوبوں کو بینک اور ایئر لائنز چلانے کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟ یہاں نجی شعبے کے بہت سے متبادل دستیاب ہیں۔ کسی زمانے میں ایسا ہوا ہو گا کہ پاکستانی معیشت بہت چھوٹی تھی یا تاجروں کے پاس بینک یا ایئر لائنز قائم کرنے کے لیے سرمایہ نہیں تھا یا ان کے پاس ایسے کاروبار کے انتظام کے بارے میں مطلوبہ معلومات نہیں تھیں، ہم اب ایک مختلف وقت میں رہتے ہیں۔ اس کاروباری ماحول میں بہت سے مقامی اور ملٹی نیشنل کھلاڑی ہیں۔ صوبے اس خلا میں کیوں آنا چاہیں گے؟ بینکوں کا معاملہ ہی لے لیں۔ صوبائی بینک بینکنگ کے سیکٹر کے ذریعے کیا اضافہ کر سکتے ہیں؟ تمام صوبائی بینک کسی نہ کسی موقع پر مشکلات کا شکار رہے ہیں۔
ان سب پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت کی سیاسی قیادت کے کہنے پر مالی بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے پاس علم یا مارکیٹ کی سمجھ کے لحاظ سے کوئی جانکاری نہیں ہے جو وہ بینکنگ سیکٹر میں لا سکیں۔ پھر ان کے پاس بینک کیوں ہوں؟ اور بلاشبہ، صوبائی بینکوں کو ماضی میں فالتو منصوبوں یا سیاسی رہنماؤں کے دوستوں کو فنڈ دینے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ صوبوں کو بینک رکھنا کیا واقعی صحیح ہے۔اگرکوئی صوبہ ایئر لائن کا مالک ہو توکیا صورتحال مختلف ہوگی؟ اگر صوبائی حکومتیں ایئرلائن چلاتی ہیں تو وہ کیا پیش رفت مواقعے لا سکتی ہیں؟ بہتر علم، کاروبارکی بہتر تفہیم، یہاں کیا فائدہ ہے؟ وہ یہ شرط رکھ سکتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے صوبائی مالیات اور بینکوں کے معاملے میں کیا ہے کہ صوبائی کاروبار کو اس ایئر لائن کے ذریعے جانا چاہیے، لیکن اس سے کیسے مدد ملتی ہے؟ یہ صرف ایک اور ذمے داری پیدا کرتا ہے۔
حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے، بعض صورتوں میں قانونی طور پر بھی، ایسی اشیاء اور خدمات فراہم کرنا جن میں ان کے لیے عوامی بھلائی کا عنصر موجود ہو یا جسے افراد کا حق سمجھا جاتا ہو۔ مثال کے طور پر، آئین کا آرٹیکل 25A کہتا ہے کہ ریاست ملک میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ یہ آئین کے بنیادی حقوق کے حصے میں ہے۔ یہ مفت تعلیم حاصل کرنا شہریوں کا حق ہے اور یہ ایک فرض بھی ہے کیونکہ یہ تعلیم فراہم کرنا لازمی ہے۔ ریاست اسے فراہم کرے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں تقریباً 26 ملین پانچ سے 16 سال کے بچے اسکولوں میں نہیں ہیں۔
کیا ریاست کو اپنی توجہ بینکوں اور ایئر لائنز کے مالک ہونے اور چلانے کے بارے میں سوچنے کے بجائے بچوں کو اسکول کی تعلیم فراہم کرنے پر مرکوز نہیں کرنی چاہیے؟ صحت عامہ سمیت صحت کا بھی کم و بیش یہی حال ہے، اگرچہ ہمارے آئین میں صحت کی خدمات تک رسائی کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے، لیکن ہم پاکستان میں اچھی صحت کی دیکھ بھال اور فلاح و بہبود کی بنیادی باتیں بھی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ ہم تمام شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کرتے، ہم خواتین کے لیے گیس کھانا پکانے بچوں کو ناشتہ دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، اپنے تمام بچوں کو ٹیکہ بھی نہیں لگا سکتے (پاکستان اور افغانستان اس وقت دنیا کے واحد ممالک ہیں جو پولیو وائرس کو ختم نہیں کر سکے۔) ہمارے 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور زیادہ تر غریبوں کو ملک میں انتہائی کم معیار کی احتیاطی صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
لیکن کسی بھی صوبے میں، اس سال وزیر اعظم کی طرف سے تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود،کیا ایسی کوئی کوششیں جاری ہیں جو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دور دراز سے ممکن ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اور پھر بھی، صوبے ایئر لائنز چلانا چاہتے ہیں اور بینکوں کو چلانے میں اپنی کوششیں لگا رہے ہیں۔ صوبے تعلیم، صحت، پانی اور صفائی اور دیگر شعبوں میں خدمات کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پرکئی سالوں سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔ پچھلے 10 سے 15 برسوں سے صوبے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے خدمات کو بڑھا رہے ہیں اور خدمات کے معیار کو بھی بہتر کر رہے ہیں اور تعلیم (بڑے پیمانے پر پنجاب میں) اور صحت (بڑے پیمانے پر سندھ میں) میں کامیابی کے ساتھ، پی پی پی کافی تیزی سے پھیلا رہی ہے۔حال ہی میں پنجاب میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے تقریباً 35,000 پرائمری اسکولوں میں سے کل 12,000 یا 13,000 کو رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اساتذہ، تعلیمی بیوروکریسی کے کچھ حصے اور دیگر اسٹیک ہولڈرز تعلیم کی ’’ نجکاری‘‘ پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، لیکن، ہم اسے نجکاری کے طور پر دیکھیں یا نہ دیکھیں، حقیقت یہ ہے کہ حکومت اسکولوں کا انتظام کرنے میں ناکام رہی ہے اور اپنے اسکولوں کو چلانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر سے مدد مانگ رہی ہے اور وہی حکومت بینک اور ایئر لائنز چلانا چاہتی ہے۔ کیا صوبوں کو بینک اور ایئر لائنز چلانے چاہئیں؟ جواب واضح معلوم ہوتا ہے کی کیا واقعی بینک اور ایئر لائنز صوبوں کے چلانے سے بہتر ہوسکتی ہیں؟