ٹرمپ… ایک بار پھر
ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار آسانی سے امریکی صدارتی الیکشن جیت گئے۔ تمام عوامی سروے، تبصرے اور تجزیے کانٹے دار مقابلے کی توقع کر رہے تھے۔گزشتہ صدارتی الیکشن کے نتائج پر برپا ہونے والی صورتحال کی بنیاد پر یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سونگ اسٹیٹس کے نتائج اگر توقعات کے مطابق غیر واضح نکلے توحتمی نتیجے کے انتظار میں کئی دن یا ہفتے لگ جائیں۔
ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو نتائج اس قدر واضح تھے کہ نیم شب سے پہلے پہلے میدان اور گھوڑے کا فیصلہ ہو گیا۔ کانٹے دار مقابلے اور نتائج پر ممکنہ تنازعات کی پیشین گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ان کی انتخابی مہم کی کامیاب حکمت عملی ، امریکا کے اندر اور پوری دنیا پر نئے منتخب صدر کی ممکنہ پالیسیز کے اثرات پر گفتگو چل نکلی۔ زیادہ توجہ کیونکہ صدارتی مہم پر مرکوز رہی اس لیے عمومی بحث و تمحیص کا مرکز بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہی رہے ، جب کہ ان انتخابات میں تین مزید انتخابی میدان بھی ساتھ ساتھ سجے یعنی سینیٹ ، ایوان نمایندگان اور ریاستی گورنرز کے انتخابات۔ ان تمام میدانوں میں بھی ریپبلکن نے واضح طور پر برتری حاصل کی۔
یوں ریپبلکن پارٹی نے مقننہ اور انتظامیہ کے تمام مراکز پر مکمل گرفت کر لی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اب اپنی ٹیم تشکیل دینے اور حکومت سنبھالنے کے عمل میں مصروف ہو گئے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب ایک عالم امریکا کے اندر اور باہر ورلڈ آرڈر کی بساط پر چالوں میں ممکنہ تبدیلیوں کو بھانپنے کی کوشش میں ہے۔
پاکستانی مین اسٹریم اور سوشل میڈیا سے تو یہی اندازہ ہوا کہ ورلڈ آرڈر پر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا اولین ہدف پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم کا کمال کہیے یا پھر حکومت کے دل میں چھپے کسی ڈر کا لرزتا سایہ کہ امریکی الیکشن نائٹ کے بعد سے مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ اور بانی پی ٹی ائی کی رہائی کا ایک نکاتی پوائنٹ ہی زیر بحث ہے۔
ادھر سے شتابی ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتی جب کہ حکومتی رہنماؤں کی بے بسی ایسی کہ دیکھی نہ جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے کامیابی سے جڑے چند دلچسپ مشاہدات بھی قابل غور ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی تاریخ میں دوسرے صدر ہیں جو دوسری مدت کا انتخاب ہارنے کے بعد پھر سے میدان میں اترے اور جیتے۔ گزشتہ انتخاب میں شکست اور انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی بناء پر ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلسل تنقید اور قانونی محاذوں پر کئی مقدمات کا سامنا رہا۔ ان کا اکھڑ مزاج، نتائج تسلیم نہ کرنے اور "متبادل حقائق" کو دھڑلے سے اصل حقائق بنا کر پیش کرنے کی کا چلن ان کی شناخت بنا رہا۔
روایتی میڈیا کا بہت بڑا حصہ ان کے خلاف رہا لیکن گزشتہ چار سال ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پائے استقامت میں لغزش نہیں آنے دی، یوں اپنی قوت ارادی اور استقلال کے باعث انھوں نے پارٹی کے اندر اور باہر اپنے ناقدین کو حیران کر دیا۔دنیا بھر میں گزشتہ ایک دہائی سے انتخابات میں روایتی میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ زیادہ فوری اور فیصلہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ بالخصوص پروپیگنڈا اور بیانیے کی جنگ میں سوشل میڈیا اپنی تیز رفتاری اور وسیع رسائی کی وجہ سے فیصلہ کن پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے۔ حالیہ امریکی انتخابات میں سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بولا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت کے دوران امریکا کے اندر اور دنیا بھر میں کیا اثرات ہوں گے؟ یہ جاننے کے لیے دو پہلو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ریپبلیکن پارٹی کی دائیں بازو پر مبنی پختہ سیاسی سوچ ہے جس میں حکومت کا سائز کم کرنا ،کارپوریٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر ممکنہ حد تک جانا ، امراء اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی لانا، ہیلتھ کیئر اور انشورنس سمیت بہت سے اقدامات شامل ہیں۔
دوسرا پہلو یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مزاج اور سوچ کے اعتبار سے روایتی سیاست دان نہیں ہیں۔ ان کے خیالات ریپبلکن کی دائیں بازو سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن ان اقدامات پر عملدرآمد اور ورلڈ آرڈر کے حوالے سے وہ روایتی ریپبلکن نہیں ہیں۔ ذاتی وفاداری کو بنیادی اہمیت دینے والے وہ ایک سخت گیر ، بے لچک اور کاروباری انداز میں معاملت اپنانے کی وجہ کی سابق امریکی صدور سے مختلف ہیں۔
امیگریشن، انٹرنیشنل ٹریڈ اور ورلڈ آرڈر کے حوالے سے ان کی واضح طرز فکر ہے۔ ان کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اس طرز فکر اور کیے گئے وعدوں پر تیزی سے عمل کر گزریں۔ اس دوران ریپبلکن پارٹی کے روایتی سیاست دانوں اور اسٹرکچر کے ساتھ ان کے مزاج اور انداز کی وجہ سے جلد یا بدیر ٹکراؤ پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں۔ تاہم دو سال تک پارٹی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے میدان کھلا ہے۔ ان کی ٹیم کا انتخاب اور پہلے سو دن کے اقدامات ان کے دوسرے دور حکومت کے طور اطوار واضح کر دیں گے۔
عالمی منظر پر ان کے پہلے دور صدارت کے بعد بہت سی سیاسی ،معاشی اور عسکری تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ روس اور یوکرائن کے مابین جنگ، اسرائیل اور حماس کی جنگ، یورپ کے معاشی اور سیاسی مراکز میں امریکا کے ساتھ تجارتی معاملات میں تحفظات، چین کا بڑھتا ہوا فیصلہ کن معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ، روس کا تجارتی پابندیوں کے باوجود پائدار رہنا، بھارت اور ایشیاء کے ممالک کا بڑھتا ہوا معاشی اور سیاسی اثر رسوخ۔ ورلڈ آرڈر کی بساط پر امریکا کے تسلط کو چیلنج کا سامنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور مزاج کے باعث اس بساط کی بہت سے چالیں غیر روایتی اور حیران کن ہو سکتی ہیں ۔
امریکا اور پاکستان کے تعلقات باہمی علاقائی مفادات کے مرہون منت رہے ہیں۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکا کی دلچسپی پاکستان میں کم ہوئی ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات مزید مظبوط ہوئے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے ممکنہ سفارتی اثر و رسوخ اپنی جگہ لیکن آئی ایم ایف کی مجبوریوں میں جکڑے پاکستان کے پاس امریکا کی دلچسپی کا وہ سامان نہیں جو کبھی ماضی میں رہا۔ آنے والے دن بہت دلچسپ ہو سکتے ہیں۔ بقول شخصے keep tuned یعنی سنتے اور دیکھتے رہیے!!