ٹرمپ کی جیت نے دنیا کو ہلا دیا۔ پوری دنیا کی نظریں امریکا کے انتخابات کے نتائج پر تھیں، بالکل ایسے جیسے وہ اپنے حلقے کے نتائج کے منتظر ہوں اور دوسری طرف ہیں امریکا کے عوام جن کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ ان کے جیتنے سے دنیا کی اکثریت ان کو کس طرح سے دیکھ رہی ہے۔
یہ الیکشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کا الیکشن ہے اور اس ٹیکنالوجی میں برتر ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی جس کی ایجاد ہے سوشل میڈیا اور ٹرمپ کا جیتنا اسی حقیقت کا رد ِعمل ہے۔
برازیل کا بولسنارو، ہندوستان کے نریندر مودی ہوں یا پھر یورپ کا دائیں بازوکا پاپولر ازم سوشل میڈیا ہی ذریعہ ہے جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے کا، نفرت آمیز بیانیہ تیزی سے پھیلانے کا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ سچ ہمیشہ سچ ہوتا ہے اور جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہی ہوتا ہے مگر ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں ایسا کچھ نہیں رہا،کیونکہ جب تک سچ کو ثابت کیا جائے، تب تک جھوٹ اپنا کام کرچکا ہوتا ہے پھرکیا کرنا جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔ ایک طرف نفرت کا بیانیہ اور پھر سوشل میڈیا کے پہیے۔ جھوٹ ایسا دوڑا نگر نگر اور گلی گلی کہ اگر آج زندہ ہوتے، ہٹلرکے وزیرِ اطلاعات گوئبلز تو حیران و پریشان ہوجاتے، اگر ان زمانوں میں یہ سوشل میڈیا ہوتا تو ہٹلر دنیا کو فتح کرچکا ہوتا۔
امریکا کے اندر خود اپنی تباہی کا سامان تیار ہے۔ یہ میں نہیں بلکہ امریکا کے نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات پال کروگمین کہہ رہے ہیں بلکہ لندن سے شایع ہونے والا جریدہ دی اکانومسٹ بھی یہی کہہ رہا ہے ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جوکارنامے اپنے سابق دور میں انجام نہ دے سکے، وہ اب کریں گے،کیونکہ اب نہ ان کے سامنے سینیٹ ہے اور نہ کانگریس۔ ان دونوں ایوانوں میں بھی ٹرمپ کی پارٹی اکثریت میں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ امریکا پر نیم آمریت مسلط ہونے جا رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ٹرمپ امریکا میں اپنے مخالفین کے ساتھ کچھ بہت برا کرنے جا رہے ہیں، اس بات کے شواہد اس وقت ملے جب وہ اپنی الیکشن مہم چلا رہے تھے۔ دوران مہم انھوں نے اپنے مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی، وہ فاشسٹ طرز کی تھی اور پھر 6 جنوری 2020 کو واشنگٹن ڈی سی کے کیپیٹل ہل پر جو کچھ ہوا، آج سے پہلے ایسی کوئی روایت بھی نہیں ملتی۔
ڈونلڈ ٹرمپ، یوکرین کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرسکتے ہیں اور کریں گے، اسرائیل کے معاملے میں وہ بائیڈن حکومت سے بھی بہت آگے جائیں گے۔ دنیا کے اندر آزاد تجارت نے دنیا کی مجموعی پیداوار کو فروغ دیا ہے۔ ٹرمپ، اب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان اشیاء پر ٹیکس عائد کریں گے جو امپورٹ کی جاتی ہیں تاکہ ان اشیاء کی درآمدات کو روکا جاسکے اور مقامی صنعت کو فروغ دیا جاسکے۔
امریکا میں شہریت حاصل کرنے کے قوانین کو سخت کیا جائے۔ ٹرمپ، دراصل سفید فام قوم پرست ہیں اور مساوی انسانی حقوق کے حامی نہیں اور امریکا کا سفید فام شہریوں کا بڑا حصہ بھی ایسی ہی سوچ رکھتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو دونوں بار خواتین امیدواروں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ دونوں سے جیت گئے اور جب مقابلہ ایک مرد امیدوار کے ساتھ ہوا تو وہ ہار گئے۔ ان انتخابات میں ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا نام ایلون مسک ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ پورا سوشل میڈیا ٹرمپ کی طرف جھکا ہوا تھا اور تمام سوشل میڈیا فورمز ٹرمپ کے حق میں تھے۔ امریکا کے تمام بلینئرز کی اکثریت کھل کر ٹرمپ کے حق میں تھی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی تیاری ان انتخابات کے لیے مکمل نہ تھی۔ پہلے بائیڈن کو ہی چنا گیا لیکن وہ روبہ صحت نہ تھے لہٰذا انھیں دستبردار ہونا پڑا۔
جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جمہوریت تو ایک مکمل نظام ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام فطرتاً سفاک ہے۔ نہ ہی جمہوریت کا کوئی نعم البدل ہے نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کا۔ امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کا نظریہ ریپبلیکن پارٹی سے زیادہ انسانیت پسند ہے، ریپبلیکنز کے دورِ حکومت میں دنیا میں جنگیں زیادہ ہوئی ہیں۔
ان کے دورِ حکومت میں، عراق پر حملہ ہوا، افغانستان پر قبضہ کیا گیا ، ویتنام میں جنگ ہوئی۔ ڈیمو کریٹس کے زمانے میں اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت کی گئی اور یوکرین کی جنگ ہوئی جس کی پہل روس نے کی مگر بہت سے ایسے واقعات ہیں، جن سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اب ڈیموکریٹس کے اندر بھی دائیں بازو کی سوچ کا غلبہ ہے جو ان کی پارٹی میں سوشل ڈیموکریٹ برنی سینڈ کی سوچ کا حصہ تھا وہ کم ہو گیا، یہ بات انتہائی مایوس کن اثر چھوڑ رہی ہے، ان حلقوں کے ووٹرز پر۔ ایسا کہیے کہ ڈیمو کریٹس اس دفعہ مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں نہیں اترے۔ امریکا میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ایک عورت صدارتی امیدوار کے طور پر برتری حاصل نہیں کرسکتی اور پھر جوبائیڈن کی یہ ضد تھی کی وہ خود ان انتخابات میں حصہ لیں گے، لٰہذا ڈیموکریٹ پارٹی کو، ان کو سمجھانے میں بھی کافی وقت لگ گیا۔
اور اب، ایلون مسک پندرہ ارب ڈالر مزید امیر ہوگئے اور جو پہلے سے امیر ترین تھے وہ 54 ارب ڈالر مزید امیر ہوگئے، یہ ہے سرمایہ دارانہ سوچ۔ امریکا میں اس وقت جو فاشزم اور آمریت پسند سوچ کو تقویت ملی ہے وہ امریکی معاشرے میں پہلے کبھی نہ تھی۔ امریکا میں دائیں بازو پاپولر ازم کا زور جو حالیہ دور میں کم ہوا تھا، اب ٹرمپ کے آنے سے اور ڈیموکریٹ پارٹی کی بے احتیاطی کی بدولت دباؤ میں آگیا ہے۔
پاکستان میں پی ٹی آئی اور اس کے حامی ایسا سوچ رہے یں کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آنے سے بانی پی ٹی آئی رہا ہو جائیں گے اور ان کی پارٹی کی پوزیشن تبدیل ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی حمایت زلمے خلیل زاد جیسے لوگ کر رہے تھے اور اب بھی کررہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے وہ حامی جو امریکا اور برطانیہ میں ان کے مددگار ہیں، ان کے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔
ایسے لوگ جن کا سیاسی جال 2016 سے 2023 تک بچھا ہوا تھا۔ کیا وہ آج بھی ان اہم پوزیشن پر ہیں؟ اپنے فرائض ان جگہوں پر انجام دے رہے ہیں؟ کیا اقامہ جیسا فیصلہ اب بھی صادر ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی نو مئی جیسا واقعہ اب بھی رونما ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی جنرل فیض حمید یا جنرل قمر جاوید باجوہ یا ثاقب نثار جیسی شخصیات اب بھی موجود ہیں۔ NeoCons والی یہ سوچ جو اسرائیل و ہندوستان سے لے کر امریکا اور برطانیہ تک پھیلی ہے۔
کیا ان سے یہاں کی کسی اہم پوزیشن کا شخص رابطے میں ہے؟ جب ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانا مقصود تھا تو امریکا نے جنرل ضیاء الحق کو مہرے کے طور پر استعمال کیا۔ پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) نے تحریک چلائی۔ احتجاجی جلسے جلوسوں میں شرپسندوں کے گروہ داخل کراکے گھیراؤ جلاؤ کیا گیا، انتظامیہ کو گولیاں چلانے پر مجبور کیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو سے غلطیاں کرائی گئیں، آخر میں مارشل لاء لگایا گیا۔
بانی پی ٹی آئی سے بھی احتجاجی تحریک چلوائی گئی۔ علی امین گنڈا پور نے کئی ایسی غلطیاں کیں جو گھیراؤ جلاؤ کا سبب بن سکتی تھیں لیکن اداروں اور حکومت نے حکمت عملی سے اسے ناکام بنادیا۔ عدالتوں کے ذریعے انقلاب لانے کی کوشش کی گئی مگر ناکام ٹھہرے۔ پاکستان کی معیشت مضبوطی کی طرف رواں دواں ہے اور آنے والے دنوں میں مزید بہتری کی امید ہے، قریباً 5% کی شرح نمو کو چھونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان کو اس وقت نارتھ بارڈرز پر چیلینجزکا سامنا ہے۔ ریپبلیکن پارٹی نے اس بات کی مخالفت کی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء نہ کیا جائے۔ جب امریکا مین ریپبلیکنزکی حکومت تھی، تو ان زمانوں میں پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان کے مسئلے پر کام کیا تھا، لٰہذا اب قوی امکان ہے کہ ٹرمپ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ان چیلینجزکا مقابلہ کرے گی۔ ٹرمپ کا حکومت میں آنا پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے جیسا کہ سابقہ دور میں ٹرمپ کا رویہ تھا اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔