پاکستان کی معیشت مثبت روی کے رجحان کے ساتھ آگے بڑھنے کا عمل شروع کرچکی ہے۔دوسال پہلے معیشت سرنڈر کے خطرے سے دوچار تھی، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں تواتر سے کی جاتی تھیں حتیٰ کہ پاکستان کے سیاسی لیڈر، مخصوص رجحانات رکھنے والے والے معاشی و اقتصادی ماہرین پاکستان کو ٹیکنکل ناک آوٹ قرار دے چکے تھے لیکن اب صورتحال نہ صرف تبدیل ہوچکی ہے بلکہ خاصی مثبت نظر آرہی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے گزشتہ روز اسلام آباد میں لٹریچر فیسٹیول سے خطاب کیا اور پاکستان کی معیشت اور مالیاتی حالات کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے ۔
انھوں نے بتایا، پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام آچکا ہے، گزشتہ سال سوا سال میں بہت بہتری آئی ہے، انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے میں کوئی چیز خفیہ نہیں رکھی گئی ہے ، ملک کی کرنسی مستحکم ہے اور زرمبادلہ ذخائرمیں استحکام آیا ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کیا کہ تین چار ماہ تک زرمبادلہ کے ذخائر 3 ماہ کی درآمدات کے مساوی ہو جائیں گے، انھوں نے واضح کیا کہ ملک میں مہنگائی میں کمی آئی ہے اور اس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچنا چاہیے۔
پاکستان یقینا اپنا کٹھن وقت گزار چکا ہے۔ دو سال پہلے ملک کے سیاسی حالات غیریقینی کا شکار تھے، جلسے جلوس اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست عروج پر تھی، اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑ رہا تھا۔ بہرحال پاکستان اب مشکل حالات سے نکل آیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اپنے خطاب کے دوران یہ بھی بتایا کہ حکومت نے ایک ارب ڈالر قرضہ واپس کیا ہے، اس کے باوجود زرمبادلہ ذخائر بھی بہتر ہیں تاہم انھوں نے زور دیا کہ ملک میں ٹیکس اصلاحات لانا پڑیں گی جب کہ اسٹرکچرل اصلاحات بھی ضروری ہیں، وفاقی وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ ایف بی آرکی بطورادارہ ساکھ اور اعتماد بحال کرنی ہے، بطورتنخواہ دار میں بھی بغیر ایڈوائزرکے ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرسکتا، ڈیجیٹائزیشن میں آگے بڑھ رہے ہیں اور لیکج بند کریں گے، ری فنڈز میں رشوت اور کرپشن والا کام بند کرنا ہوگا، کاروباری طبقہ اسپیڈ منی سے اجتناب کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عطیات سے ملک نہیں چل سکتے، نجی شعبے کو اس ملک کو چلانے کے لیے آگے آنا چاہیے، اب کوئی بھی ملک ڈیپازٹ اور رول اوورکرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وزیر خزانہ کی یہ بات بالکل درست ہے، پاکستان کی معیشت اب چلنے کے قابل ہو چکی ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے پاؤں پر چلنا سیکھا جائے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ چین، سعودی عرب اور یو اے ای سمیت دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے کوشاں ہیں، چین کے ساتھ سی پیک فیز ون انفرااسٹرکچرکی تعمیرکے لیے تھا، سی پیک کا فیز ٹو بزنس ٹو بزنس ہے، وزیر خزانہ نے اپنے معاشی نظریے کا ایک بار پھر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کاکام کاروبارکرنا نہیں ہے، اس حوالے سے متبادل موجود ہیں، تاہم کارپوریٹ معیشت کا یہی اصول ہے جس کے بارے میں وزیر خزانہ نے اظہار خیال کیا ہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ان اصلاحات کا محور کامل ڈیجیٹلائزیشن ہے جس سے شفافیت میں اضافہ، نقصانات کی روک تھام اور خدمات کی بہتری ممکن ہوسکے گی۔
وفاقی وزیر خزانہ نے معیشت کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں۔ اسی دوران گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے جمعے کو کراچی میں کریڈٹ بڑھانے کے حل، گرین فنانسنگ اور گرین بانڈز کو فعال کرنے کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس کے موقع میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال 2.5 فیصد سے 3فیصد کی جی ڈی پی نمو کا تخمینہ ہے جب کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا حجم 34ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا، انھوں نے بتایا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مطلوبہ شرائط پوری کرلی گئی ہیں، جلد ہی اس سے 50کروڑ ڈالر کی فنانسنگ موصول ہوجائے گی۔
نومبر کے اختتام تک زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر بڑھ کر 12ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے، مہنگائی میں کمی اور معیشت کا آؤٹ لک بہتر ہوئی ہے، البتہ نجی شعبے کے قرض میں اضافہ ہوا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہمارے انفلوز کے4 ذرایع ہیں، جس میں ترسیلات زر سرفہرست ہیں، اکتوبر میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں انفلوز 20 کروڑ سے زائد رہے ہیں، کانفرنس سے خطاب کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ غیرمتوقع موسم معیشت اور زراعت کے لیے چیلنج ثابت ہوتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر توجہ دینا ہوگی، پاکستان ان 10ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرات ہیں۔
پاکستان کی زراعت کی پسماندگی کی جو وجوہات ہیں پالیسی سازوں کو اس کے بارے میں پورا علم ہے۔ پاکستان کی زراعت اور زرعی صنعت کی ترقی کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بہرحال گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک عالمی بینک کے ساتھ مل کر گرین ٹیکسانومی پر کام کر رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے ری فنانسنگ اسکیم متعارف کرائی ہے جس کے تحت اب تک 94ارب 70کروڑ روپے کے گھریلو اور صنعتی منصوبے لگائے جاچکے ہیں۔ پائیدار معاشی نمو کی راہ میں مزید رکاوٹیں حائل کرتی ہیں۔ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسی مرتب کریں، جس سے کاربن فٹ فرنٹ میں کمی واقع ہو۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک اس پائیدار معاشی ماڈل پر منتقلی کو تسلیم کررہے ہیں۔
ادھر اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں ترسیلات زر گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ 3.05 ارب ڈالر رہیں، جو گزشتہ سال اکتوبر میں 2.46 ارب ڈالر رہی تھیں، جب کہ گزشتہ ماہ ستمبر کے مقابلے میں 7 فیصد اضافے ریکارڈ کیا گیا ہے، ستمبر میں ترسیلات زر 2.86 ارب ڈالر رہی تھیں، اس طرح رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران مجموعی طور پر ترسیلات زر 35 فیصد اضافے کے ساتھ 11.85 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی ہیں، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 8.79 ارب ڈالر رہی تھی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر مجموعی طور پر 12 فیصد اضافے کے ساتھ 34 ارب ڈالر رہیں گی، جو گزشتہ مالی سال 30.25 ارب ڈالر رہی تھیں۔
یو اے ای سے ترسیلات زر میں 31 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ غیرقانونی حوالہ ہنڈی نیٹ ورک کے خلاف کیا گیا آپریشن ہے، جب کہ یو کے سے ترسیلات زر میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا بیرون ملک جانا بھی اس کی بڑی وجہ ہے، جس سے سمندر پار پاکستانیوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 13.8 ملین ہوگئی ہے، جس نے ترسیلات زر پر مثبت اثر ڈالا ہے،شرح سود میں کمی اور عالمی معاشی حالات بہتر ہونے کے نتیجے میں ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوگا، ترسیلات زر میں نمایاں اضافے کے نتیجے میں روپے کی قدر میں بہتری ہوئی ہے۔
ادھر میڈیا نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے بغیر ترقیاتی اہداف کاحصول مشکل ہے، یہ بات عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہی گئی، اعلامیہ کے مطابق تعلیم، صحت، سڑکوں، بجلی اور پانی کی فراہمی جیسے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈنگ کے ضمن میں ٹیکس اصلاحات ضروری ہے، عالمی سطح پر کورونا کے بعد ترقیاتی منصوبوں کی مالیاتی ضروریات میں خلا بڑھ کر 4 ٹریلین امریکی ڈالر سالانہ ہو چکا ہے۔
سب سے زیادہ مالیاتی ضرورت کم ترقی یافتہ اور کم آمدنی والے ممالک کو ہے، ان ممالک کو صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور سڑکوں جیسے منصوبوں کے لیے اپنے جی ڈی پی کا 16.1فیصد خرچ کرنا ہوگا جب کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کو 4.8 فیصد اور ترقی یافتہ ممالک کو 0.2 فیصد سے بھی کم خرچ کرنے کی ضرورت ہے، تخمینے کے مطابق اگر جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا حصہ 15 فیصد یا اس سے زیادہ ہو تو معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
میڈیا کی ایک خبر میں چین کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنا قرضہ دو سال کے لیے ری شیڈول کر دے۔ اس میں کتنی سچائی ہے، اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی بات سامنے نہیں آئی البتہ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کی معیشت استحکام حاصل کر چکی ہے، پاکستان کے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی اصلاحات اور ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتے ہیں، جس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آیندہ چند ماہ میں معاشی بہتری کے مزید اشارے ملیں گے۔