امریکیوں نے انتخابا ت کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا 47 واں صدر منتخب کر لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جماعت ری پبلکن پارٹی کو کانگریس میں بھی بھاری اکثریت دی ہے۔
دنیا کی نظریں اس وقت امریکا پر جمی ہیں کہ نئی حکومت کے بعد کیا تبدیلیاں رونما ہونگی اور پاکستانی عوام یہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ پاکستان اور خطے پر اس کے کیا اثرات ہونگے۔اس حوالے سے جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)
امریکی صدر کو دنیا کا طاقتور شخص تصور کیا جاتا ہے جس کی رائے نہ صرف امریکا بلکہ دنیا کے معاملات میں اہمیت رکھتی ہے۔ امریکی صدر اس صورت میں مزید طاقتور ہوجاتا ہے جب کانگریس میں بھی اس کی جماعت کی اکثریت ہو لہٰذا حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی کی کامیابی بڑی ڈویلپمنٹ ہے۔نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ جیتے ہیں بلکہ انہیں کانگریس میں بھی واضح اکثریت ملی ہے اور اس طرح وہ ایک مضبوط صدر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
انتخابات سے یہ واضح پیغام ملا ہے کہ جوبائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹس کی حکومت بری طرح ناکام رہی ہے۔ وہ ریاستیں جہاں ڈیموکریٹس ہمیشہ جیتے ہیں وہاں بھی انہیں شکست ہوئی۔ خاص طور پر سوئنگ اسٹیٹس میں ری پبلکن کا جیتنایہ واضح کرتا ہے کہ جوبائیڈن کی پالیسیوں کو عوام نے بری طرح رد کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابق دور میں مختلف سوچ رکھی۔
ان کا نعرہ ’سب سے پہلے امریکا‘ تھا مگر انہوں نے نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تفریق رکھی، مسلمانوں اور تارکین وطن کے حوالے سے سخت باتیں کیں مگر اس مرتبہ انہوں نے بڑے محتاط انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ بھی ملے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کا منتخب ہونا عالمی امن کی کوششوں میں مثبت کہا جا سکتا ہے، اب عالمی امن کو تقویت ملے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں واضح طور پر کہا تھا کہ ایک بھی امریکی سپاہی، امریکا سے باہر نہیں ہوگا۔ بیرونی جنگوں نے امریکا کی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب تک یوکرین جنگ میں امریکا 175 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے مگر اسے مرضی کے نتائج نہیں ملے۔ اسی طرح غزہ جنگ میں امریکا نے اسرائیل کو سپورٹ کیا۔ امریکا اب یوکرین جنگ سے پیچھے ہٹے گا اور غزہ کے معاملے میں بھی تبدیلی نظر آئے گی۔
اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ امریکا میں صدر کوئی بھی ہو، امریکا کی اسرائیل کیلئے سپورٹ ختم نہیں ہوسکتی۔ میرے نزدیک اسرائیل کو اب اتنی سپورٹ حاصل نہیں ہوگی جتنی جوبائیڈن دور میں ملی۔ اب اس پالیسی کا تسلسل نہیں رہے گا بلکہ غزہ جنگ بندی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مقبول لیڈر ہیں وہ ایسے غیر متوقع فیصلے کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے فوجی انخلاء کے حوالے سے بھی انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ٹرمپ امریکا کو جنگوں سے نکال کر مضبوط معیشت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، ان کی ترجیحات میں امریکی عوام ہیں۔
ٹرمپ نے نیٹو کی امداد کم کرنے کا کہا بلکہ یہاں تک کہا کہ امریکا کو نیٹو سے باہر آجانا چاہیے، امریکا اسے اپنی معیشت پر بوجھ سمجھتا ہے۔ امریکا کی معیشت کا دارومدار جنگی ساز و سامان پر ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے انحصار کم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں جائزہ لیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ دور میں پاکستان کو افغانستان کے معاملے میں اہمیت ملی۔ امریکا وہاں سے نکلنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے ہمیں فوجی امداد بھی دی تاکہ پاکستان اسے طالبان کے ساتھ بات چیت اور پرامن امریکی فوجی انخلاء میں مدد کرے۔ اب ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو ویسی اہمیت نہیں ملے گی۔ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان امریکا پر کافی انحصار کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد پاکستان کی معاشی اورفوجی امداد میں کمی ہوگی لہٰذا پاکستان کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ ہمیں چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم میں اپنی حیثیت کو مزید مضبوط اور موثر بنانا ہوگا۔ چین کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی سخت ہوگی، وہ اسے امریکا کا مخالف سمجھتا ہے، خاص طور پر اقتصادی شعبے میں۔ امریکا کیلئے بھارت کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔
مودی، ٹرمپ کے قریب ہیں۔ پاکستان کو اپنے دوست ممالک سے تعلقات کو مزید فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے چین کے خدشات کو دور کیا جائے، سکیورٹی بہتر بنائی جائے، سی پیک منصوبے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ چین کے اقتصادی مفادات، تجارتی راہداری عملی شکل اختیار کرسکے اور پاکستان اس کا اہم فریق بن جائے۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت جے پیچھے بنیادی طور وہ اندرونی پالیسیاں ہیں جو سابق صدر جوبائیڈن کے دور میں رہیں ، امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں دشواریوں اور ناہمواریاں جو بائیڈن حکومت کی وجہ سے آئی۔ مثال کے طور پر جوبائیڈن دور میں امریکا میں بے روزگاری تاریخ میں سب سے زیادہ ہوگئی،مہنگائی شدت اختیار کر گئی۔ صحت ، تعلیم و دیگر سہولیات کے حوالے سے عوام نے سوال کرنا شروع کر دیا۔ امریکی معاشرہ زیادہ پروگریسیو نہیں بلکہ وہاں معتدل افراد کی تعداد زیادہ ہے جومعاشرے کو ایک خاص سطح پر رکھنا چاہتے ہیں۔
وہاں کملا ہیرس نے مانع حمل کی بات کی اسے زیادہ لوگوں نے پسند نہیں کیا۔ آج بھی امریکی معاشرہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی خاتون کو ووٹ دے اور وہ بھی ’بلیک‘ کو۔ ہیلری کلنٹن وائٹ اور مضبوط امیدوار تھیں مگر امریکیوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا حالانکہ لوگ انہیں ذہین بھی سمجھتے تھے۔ ان کے برعکس کملا ہیرس کمزور امیدوار تھیں اور بلیک بھی۔ انہوں نے اپنے منشور میں کوئی قابل ذکر بات بھی نہیں کی۔ امریکا میں یہ تصور بھی ہے کہ کچھ سابق امریکی صدور خاص طور پر باراک اوباما نے جوبائیڈن کو پیچھے کیا اور کملا ہیرس کو آگے لے آئے حالانکہ وہ صدر کا انتخاب لڑنے کے قابل نہیں تھیں۔ دوسری طرف امریکا میں بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ٹرمپ کا آنا طے تھا اسی لیے ایک کمزور امیدوار کو مقابلے میں لایا گیا۔
بہر حال ایک اچھا مقابلہ ہوا اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ میرے نزدیک نئے امریکی صدر زیادہ تر توجہ اپنے اندرونی معاملات پر دیں گے۔ وہ کاروبار کو بڑھانے، ٹیکسوں میں رد و بدل کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں کہا ہے کہ امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افراد کا راستہ روکیں گے۔ جو غیر قانون طور پر موجود ہیں انہیں ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابق دور میں اس حوالے سے پیش رفت بھی کی تھی۔ میرے نزدیک امریکیوں کو یہ امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے حالات بہتر اور مسائل دور ہوں گے، اسی لیے انہیں منتخب کیا۔ امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں کسٹم ڈیوٹی وغیرہ نہیں ہے، پاکستان یا کوئی بھی ملک وہاں اپنی اشیاء درآمد کر سکتا ہے۔
چین سے بھی ایک بڑی تعداد میں امریکا سامان بھیجا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ چین پر ٹیرف لگانے کی بات کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا میں اشیاء بنا کر چین والی قیمت پر فراہمی ممکن ہے؟ میرے نزدیک یہ مشکل کام ہے۔ موجودہ حالات میں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے آسانیاں ہوں گی وہیں ان کی مشکلات میں اضافہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر چین کے ساتھ جنگ ہوئی تو وہ جیت جائیں گے۔ ایک طرف وہ جنگوں کے خلاف ہیں تو دوسری طرف جنگ کی بات کرتے ہیں۔ چین نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پہلے ہی تیاری کر رکھی ہے۔
چین نے 1400 ارب ڈالر اپنے معاشرے پر خرچ کیے ہیں۔ چین کے پاس بہت بڑی آبادی ہے لہٰذا اس رقم خرچ کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ یورپی یونین کی طرز پر آگے بڑھیں ، چین کے اندر تجارت ہو اور کاروبار کا سلسلہ آگے بڑھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلے بھی یہ پالیسی تھی کہ وہ نیٹو میں یورپی ممالک اور اپنے اتحادی رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں رہتے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے۔ ان کے نزدیک یورپی ممالک کی طرف سے مالی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں اس میں اضافہ بھی کیا گیا تھا۔
اب یوکرائن کی جنگ سوالیہ نشان ہے کہ امریکا اس پر پیسہ خرچ کرے گا یا اس سے نکلنے گا؟ میرے نزدیک ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد ولادمیر پیوٹن کے لیے معاملات بہتر ہوسکتے ہیں اوریوکرین کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جنگ کو ایسے مرحلے پر، اس انداز میں بند کیا جاسکتا ہے جس سے روس کو فائدہ ہو۔ غزہ اور فلسطین کے معاملے پر بھی سب کی نظر جمی ہے۔ میری رائے میں اسرائیل نے امریکا کے ساتھ جو اہداف طے کیے تھے وہ تقریباََ مکمل ہوچکے ہیں۔ اب اس جنگ کے ختم ہونے کا وقت ہے۔
جلد ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو غزہ اور فلسطین میں جنگ بندی کا کریڈٹ مل جائے گا اور ان کے ساتھ کچھ عرب اتحادی شامل ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دامادجو ان کے چیف ایڈوائزر ہیں اور ابراہیم ایکارڈ کے روح رواں بھی ہیں، وہ یہ کہہ رہے ہیں مغربی کنارہ دنیا کی بہترین جگہ ہے اور اگر وہاں اونچی عمارتیں بنائی جائیں تو فائدہ ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں فلسطینیوں کا مزید نقصان تو نہیں ہوگا۔ آئندہ چند دنوں میں ریاض، سعودی عرب میں ایک کانفرنس ہورہی ہے جس میں عرب و دیگر اسلامی ممالک اکٹھے ہو رہے ہیں، یہ فلسطین کے مسئلے کو آگے لیکر چلیں گے۔
میری حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے جن کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس، دونوں ہی ایران کے معاملے پر ایک جیسے ہیں، ہمارے شہداء ہماری کامیابی کی دلیل ہیں۔ اگر ایران کے ساتھ جنگ بڑھتی ہے تو پاکستان کیلئے مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایران کا ہمسایہ ہے ، مذہبی ، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے بہت ساے معاملات مشترک ہیں لہٰذا ہمارے چیلنجز میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات بھی امریکا کیلئے اہم ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں ایک مرتبہ پاکستان کا ذکر کیا اور وہ ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے تھا۔
2019ء جب عمران خان نے امریکا کا دورہ کیا اور ٹرمپ سے ملاقات کی تو اس کے بعد کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 اور 35(A) آئین سے ختم کر دیے گئے۔ ٹرمپ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروانا چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ا س طرح کا حل پاکستان کیلئے قابل قبول ہوگا؟ اس وقت عمران خان نے مان لیا مگر اس سے پاکستان یا کشمیر کو فائدہ نہیں ہوا۔ جہاں تک پاکستان کی اندرونی سیاست کا معاملہ ہے تو امریکا اور ایک اور ملک، عمران خان کو ریلیف دلوانا چاہتے ہیں، اس کیلئے کوشش بھی کی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کوشش میں اضافہ ہو لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ وہ اس کوشش کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ نہ ڈالیں۔ داعش کے کچھ لوگ امریکا میں پکڑے گئے ہیں جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔
یہ ایک اہم ایشو ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ہماری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالے کہ داعش کے کردار کو افغانستان سے باہر نہ نکلنے دیا جائے اور یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں تک بالکل بھی نہ پہنچے۔ اس میں امریکا، پاکستان کو انگیج کرنا چاہے گا۔
اس کے علاوہ امریکا کا یہ خیال ہے کہ پاکستان سے کچھ ایسے لوگ بیرون ملک جا رہے ہیں جو ایران کے ساتھ لنک ہیں۔ یہ افراد پہلے شام میں جنگ کا حصہ بنے اور اب لگتا ہے کہ لبنان میں بن رہے ہیں۔ امریکا اس مسئلے پر بھی پاکستان سے بات کرنا چاہے گا۔ پاکستان کی خواہش ہوگی کہ امریکا کی مارکیٹ میں اسے زیادہ جگہ ملے۔ وہاں پاکستان کے حق میں تجارتی معاملات ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ برس امریکا کو 11 ارب ڈالر سے زائد کی ایکسپورٹ کی ہے۔ پاکستان چاہے گا کہ امریکا سے ایسے تعلقات ہوں کہ اسے آئی ایم ایف و دیگر فورمز پر امریکا کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کوئی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔
ڈاکٹر زمرد اعوان
(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی)
امریکی انتخابات کا مکمل جائزہ لینے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ انتخاب محض امریکی صدر کے لیے نہیں تھا بلکہ کانگریس کے انتخابات بھی تھے۔ ان انتخابات میں ری پبلکن پارٹی نے برتری حاصل کی ہے جس کے بعد اب نہ صرف صدر ان کا ہے بلکہ کانگریس بھی ری پبلکن کی ہے۔ جس طرح کی کامیابی ری پبلکن پارٹی کو ملی ہے، ماضی میںا س کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے دور میں مہنگائی میں اضافہ ہونا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق 45 فیصد ووٹرز سمجھتے ہیں کہ معاشی لحاظ سے جوبائیڈن کا دور بدترین تھا۔ 2017ء سے 2021ء جو کہ ڈونلڈٹرمپ کا دور تھا، اس میں مہنگائی 1.9فیصد تھی جوجوبائیڈن کے دور 2021ء سے 2024ء میں بڑھ کر 19.1 فیصد ہوگئی۔ ووٹرز مہنگائی کی وجہ سے پریشان تھے، اس لیے انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ دوسرا بڑا مسئلہ تارکین وطن کا ہے جو غیر قانونی طور پر امریکا میں رہتے ہیں۔ جوبائیڈن کے دور میں مختلف اطراف سے امریکا میں ریکارڈ غیر قانونی تارکین وطن داخل ہوئے۔
صرف2022ء میں 2 لاکھ 50 ہزار افراد آئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017ء میں حکومت سنبھالی تو غیر قانونی تارکین وطن پر پابندی لگائی، اس وقت میکسیکو کی طرف سے انسانی المیہ بھی پیدا ہوا تھا لیکن سختی سے قانون پر عملدرآمد کیا گیا تھا۔ امریکی، تارکین وطن کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن، امریکیوں کی ملازمتیں، حق اور وسائل لے جاتے ہیں۔
اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ الگ بحث ہے مگر ٹرمپ کی جیت میں اس بات کا کردار ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ فلسطین اور غزہ کے معاملے پر جوبائیڈن حکومت نے کھل کر اسرائیل کو سپورٹ کیا۔ جو فلسطین اور غزہ کے ساتھ ہیں، انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا، یا پھر ووٹ ہی نہیں دیا۔ ٹرمپ نے اپنی وکٹری اسپیچ میں عرب مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ چوتھی وجہ جس پر بہت کم بات ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا کو جتنا بھی ماڈرن یا لبرل معاشرہ سمجھ لیں لیکن امریکی ایک خاتون کو اپنا صدر منتخب کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
خاص طور پر اگر وہ بلیک ہو۔کملا ہیرس کا تعلق جنوبی ایشیاء سے ہے لہٰذا یہ تعصب بھی ٹرمپ کی جیت کا سبب بنا ہے۔ امریکا کے مقابلے میں پاکستان میں خاتون وزیر اعظم رہی ہیں۔ ہم دنیا میں جدید معاشرہ تصور نہیں کیے جاتے لیکن بہت سارے معاملات میںپاکستانی معاشرہ اور جنوبی ایشیائی ممالک ترقی یافتہ ممالک آگے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امریکا دو مرتبہ آیا۔ پہلی مرتبہ 1979ء سے1989ء تک سرد جنگ کا دور تھا، سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے امریکا نے افغان مجاہدین کو سپورٹ کیا۔ دوسری مرتبہ 9/11 کے بعد طالبان اور القاعدہ کے خلاف آیا۔ اب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے، امریکا بری طرح ناکام ہوکر، شکست کے بعد یہاں سے نکلا ہے۔ میرا نہیں خیال کے امریکا کی اس خطے دوبارہ آنے میں کوئی دلچسپی ہے سوائے یہ کہ وہ چین کے کردار کو روکنا چاہتا ہے۔ اس کیلئے اس نے خطے میں بھارت کو اپنا پارٹنر بنا لیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے تعلقات اور ٹرمپ کا سابق دور سب کے سامنے ہے، وہ بھارت کے ذریعے چین کیلئے مشکلات پیدا کرے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو پاکستان کے ساتھ جوڑنا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔ ہماری ساکھ اندرونی معاملات میں بہتری سے ہی بحال ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی ملک کو مفت سکیورٹی نہیں دیں گے۔ سکیورٹی میں اسلحہ، امداد اور تربیت شامل ہیں۔ پاک امریکا ملٹری تعلقات مضبوط ہیں، ہم ٹریننگ بھی لیتے ہیں اور اسلحہ بھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاک، امریکا عسکری اداروں کا جو تعلق ہے، اس میں کیا شرائط رکھی جاتی ہیں۔ ٹرمپ نے سکیورٹی کے حوالے سے صرف پاکستان کی بات نہیں کی، یہ مجموعی طور پر کہی ہے۔
ٹرمپ کی جیت کو بانی تحریک انصاف سے بھی جوڑا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے بیان دیا ہے کہ وہ رہائی کیلئے کسی طرف نہیں دیکھ رہے۔ امریکی صدر کو اس میں دلچسپی نہیں ہوتی کہ کس ملک میں کیا ہو رہا ہے، اسے علاقائی معاملات میں دلچسپی ہوتی ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جوان کے پارٹنر ہوں۔ ٹرمپ جب اقتدار سنبھال رہے ہیں تو اس وقت امریکا پر مشرق وسطیٰ میں جارحیت اور اسرائیل کی پشت پناہی کا بوجھ ہے۔ یہ ٹرمپ کیلئے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ کس طرح ثالثی کردار ادا کریں گے۔ اسرائیل نے گزشتہ دنوں ایران پر حملہ کیا، دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کس طرح توازن پیدا کرتے ہیں۔ ایران کے خلاف ٹرمپ کی گزشتہ دور حکومت میں بھی جارحیت تھی۔ اس میں زیادہ تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔
ماضی میں ٹرمپ نے آفس سنبھالتے ہی نیوکلیئر ڈیل پھاڑ دی تھی جو امریکی، ایرانی اور مغربی ممالک کی برسوں کی محنت کے بعد تیارکی گئی تھی۔ اس سے خیال کیا گیا تھا کہ ایران پر مزید پابندیاں لگائی جائیں گی۔ اب ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ لگایا کہ اب اور جنگ نہیں، سب سے پہلے امریکا۔ اس مرتبہ ممکن ہے کہ ان کے رویے میں تھوڑی تبدیلی آئے ۔
اسرائیل کے ساتھ امریکا کے مضبوط تعلقات میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ جب تک امریکا اسرائیل کی پشت پناہی ختم نہیں کرے گا تب تک دو ریاستی حل نہیں نکل سکتا۔ جس طرح وہ مشرق وسطیٰ سے انخلاء کا کہہ رہے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ عراق اور شام سے امریکی فوجیں نکال لی جائیں۔ امریکی ٹیکس دہندگان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمارا پیسہ ان جنگوں میں کیوں ضائع کیا جا رہا ہے۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ سب سے پہلے امریکا کے نعرے پر چلتے ہیں تو انہیں فوجیں نکالنا ہونگی۔ ٹرمپ کی فارن پالیسی غیر متوقع ہے۔ وہ پرسنل ڈپلومیسی سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے ساتھ ان کے مضبوط تعلقات میں کمی نہیں آئے گی۔ ٹرمپ نے اپنی وکٹری اسپیچ میں بتایا کہ ہمارے پاس بیش بہا سونا اور تیل موجود ہے، اب ہم سعودی عرب و دیگر ممالک پر انحصار نہیں کریں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ اب فارن پالیسی اور تعلقات کو کوئی اور رنگ دیا جائے۔