کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکے میں 27 افراد شہید اور 60 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ دھماکے کے وقت مسافروں کی بڑی تعداد پلیٹ فارم پر موجود تھی۔ دوسری جانب کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خود کُش حملہ کرنے والے بی ایل اے کے دہشت گرد کی تفصیلات اور تصویر بی ایل اے نے سوشل میڈیا پر شیئرکردی۔ دہشت گرد سر سے پاؤں تک غیر ملکی اسلحہ اور سامان سے لدا ہوا ہے۔
دہشت گردی کے واقعات کے اضافے کے پیچھے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی عدم تکمیل ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے نتیجے میں درجنوں معصوم جانوں کا ضیاع اور بے شمار خاندانوں کی تباہی ایک ایسی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تاحال حکومتی اقدامات میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی مستقبل میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بڑے اقدامات کا فیصلہ کیا جا سکا ہے۔
جہاں بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے وہاں ہی ایک اور اہم سوال ذہن کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ ایسا کرنے والے عناصر کون ہیں، یہ تمام منصوبے مقامی گروپس کی کارروائیوں کا شاخسانہ ہیں یا پھر کوئی عالمی عناصر بھی اس ساری مہم کا حصہ ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیکیورٹی فورسز، چینی باشندوں اور ترقیاتی منصوبوں پر حملوں کی طرح پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر حملے کر کے علیحدگی پسند تنظیمیں پیغام دینا چاہتی ہیں کہ صوبے میں باہر سے آنے والے محفوظ نہیں ہیں۔ بی ایل اے کے حملوں میں ایک منفرد بات یہ ہے کہ زیادہ تر حملے پنجاب کے قریب اضلاع میں ہوئے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں کی طرف سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پاکستانی شہریوں کو پرکشش معاوضے پر بھرتی کرنے میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گرفتار علیحدگی پسند رہنماؤں سے دورانِ تفتیش حاصل کی جانے والی معلومات سے سیکیورٹی اداروں کو بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے میں کافی مدد ملتی ہے۔
ویسے تو اب صورتحال اس قدر خراب دکھائی دے رہی ہے کہ کوئی عام شہری بلوچستان کا رخ کرتے ہوئے بھی کترائے گا ۔ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ حکومت آخر کہاں ہے؟ کیا یہ انھی لوگوں کے ووٹوں سے اقتدار میں نہیں آئی جو آج اپنے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں؟ لیکن اس کے باوجود، حکومت کی کارکردگی صرف زبانی مذمتوں تک محدود رہی ہے۔ بدقسمتی سے، وطن عزیز میں پے درپے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد بھی اول تو کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی اور نہ ہی اس پر قومی اتفاق رائے نظر آتا ہے، اگر کوئی حکمت عملی بن بھی جائے تو اندرونی اختلافات اور سیاسی عدم استحکام اسے مکمل طور پر کامیاب نہیں ہونے دیتا۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ان عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے جن کا سیاست اور سیکیورٹی معاملات سے کوئی لینا دینا تک نہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی افراد حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے پہلے ہی شہر چھوڑنے پر مجبور ہیں، اس طرح کے واقعات انھیں مزید خوف زدہ کر دیتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی کارروائیاں افغانستان کے اندر ابھی تک جہادی کیمپوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان غیر ملکی جنگجوؤں کی حفاظت کا داعی ہے بلکہ ان کی مہموں کی مدد کا بھی قائل ہے۔
طالبان کے افغانستان میں حکومت کے آنے کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات تو بڑھے ہیں اور مزید بڑھ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے سلیپنگ سیل موجود تھے اور انھوں نے دوبارہ کارروائیاں شروع کر دیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تو ہوئے لیکن ان کی جڑوں کا خاتمہ نہیں ہوئے اور ان کے تعلقات موجود رہے انھی کا وہ اب استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت دہشت گردوں کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، ان کے پاس جدید ہتھیار موجود ہیں اور ان کی کارروائیاں مستقبل میں خطرناک صورتحال میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں خفیہ اطلاعات پر ہزاروں چھوٹے بڑے آپریشنز کیے گئے جس کے باعث دہشت گرد سرحد پار دم دبا کر بھاگ نکلے مگر افغانستان کا ان دہشت گردوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ پشاور، مردان، بنوں، صوابی اور چارسدہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور یہ ان کے لیے آسان اہداف ہیں دہشت گرد یہاں کے مکینوں میں بے چینی اور بدگمانی پھیلانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، دہشت گرداب آسان ہدف چنتے ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان میں اکثر بسوں میں اسلحہ بردار نقاب پوش داخل ہوتے ہیں۔ بس میں سوار تمام افراد کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور ایسے مسافروں کو جن کے شناختی کارڈ پر پنجاب کے ایڈریس درج ہوتے ہیں انھیں گن پوائنٹ پر بس سے اتار لیا جاتا ہے اور باقی مسافروں کو بس سمیت آگے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے بعد ازاں ان افراد کی لاشیں ملتی ہیں۔میڈیا، سیاستدان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اگرچہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کے مسئلہ پر بہت بات کرتی ہیں۔
اس پر دھرنے، لانگ مارچ اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن بلوچستان میں بسوں سے اتار اتار کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بہیمانہ قتل و غارت پر کیوں ایسے ہی بات نہیں کی جاتی۔ یہ بھی ریاست کی ذمے داری ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی غیر قانونی عمل یا دہشتگردی میں شریک افراد سے نمٹا جائے لیکن سوال یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ حقوق کے نام پر کتنے بے قصور ڈاکٹروں، پروفیسروں، اساتذہ، کاروباری افراد، محنت کشوں کو محض اُن کی کسی مخصوص علاقہ سے شناخت کی بنیاد پر قتل کیا جاتا ہے۔
یہ ظلم رکنا چاہیے اور اس ظلم کو ظلم کہتے ہوئے کسی کو ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی بھی ایک تعداد موجودہے۔ افغانستان مسلسل پاکستان دشمنی پر آمادہ ہے اس کے باوجود تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی واپسی آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ افغانستان حکومت تمام احسانات بھلا کر دشمنی پر اتر آئی اور پھر پاکستان سے مہربانی کی توقع بھی رکھی جائے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا افغان سیاسی عمائدین بھی پاکستان کے حق میں ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے بھارت اور افغانستان دونوں برابر ہیں۔ بلا تفریق مسلک، ملت، سیاسی اور لسانی فرقہ بندی ہر دہشت گرد کو بنا کسی ابہام کے انجام تک پہنچانا ہوگا۔
پوری دنیا میں دہشت گردی کا انحصار فنڈنگ کے بہت سے ذرائع پر ہے۔ دہشت گردوں کی استعمال کی جانے والی فنڈنگ کے ذرائع میں جائز ذرائع سے جمع ہونے والے فنڈز شامل ہو سکتے ہیں، جیسے ذاتی عطیات، کاروبار اور خیراتی تنظیموں سے منافع شامل ہے۔
تنظیموں کی طرف سے عطیات اور خیرات کے طور پر جمع کی گئی رقم کا ایک فیصد ہتھیاروں، آلات کی خریداری اور تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، دہشت گردی کو ایک مناسب ڈھانچے میں تبدیل کردیا گیا ہے، وہ اس کاروبار میں ملوث ہیں، بشمول منشیات جو یہاں تیار نہیں کی جاتی ہیں وہ افغانستان سے آتی ہیں۔ ہنڈی/حوالہ کا نظام پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے قائم ہے۔
یہ اتنے لمبے عرصے سے دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت ہر طرح کے کالے دھن کو لانڈرنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ یہ بہت سے جائز کاروباروں میں کامیاب رہتا ہے اور ہمارے بینکرز، تاجروں اور مقامی تاجروں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔ جرائم کی زیادہ تر آمدنی غیر قانونی ذرائع سے ہوتی ہے، یعنی بدعنوانی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ (بنیادی طور پر اس کی افغان سرحد سے)، اسمگلنگ، غیر قانونی جوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں۔
طویل عرصے بعد لگا تار دہشت گردی کی کارروائیوں نے واضح کر دیا ہے کہ مبہم اور نیم دلانہ پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا، ساتھ ہی بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسے بہت سے سوال موجود ہیں جن کا جواب منافقت کا چولا اتار کر سیاسی اور تزویراتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر تلاش کرنا پڑے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جنگ صرف اور صرف ہماری ہے، ملک اور نسل کی بقا کی جنگ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ دانش مندانہ اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکل کر حقیقت سے آنکھیں چار کرنی ہوں گی۔
نظام میں اصلاحات کا کام سویلین حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے۔ قوانین اور ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ مصلحتوں کا بالائے طاق رکھ کر پورے ملک میں دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑی جائے۔