ہماری حکومت جس نے ابھی کچھ ہی دن قبل IMF سے ایک نئے تین برس کے معاہدے کے تحت قرض کی پہلی قسط حاصل کی ہے، قرض ملتے ہی حکومت کے طور طریقے بدل گئے، وہ ایسے فیصلے کر رہی ہے جیسے اسے یہ پیسے قرض میں نہیں مفت میں ملے ہیں۔ قرض کی منظوری سے پہلے وہ IMF کی کڑی سے کڑی شرطیں ماننے کے لیے وعدے اور تڑلے منتیں بھی کر رہی تھی اور اپنے کچھ اخراجات کم بھی کر رہی تھی، لیکن قرض کے صرف ایک ملین ڈالر ملتے ہی اس کے رنگ ڈھنگ بدل گئے اور وہ شتر و بے مہار کی مانند قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہی ہے اور اپنے اخراجات غیر ضروری طور پر ایسے بڑھا رہی ہے جیسے اسے کہیں کا چھپا ہوا کوئی خزانہ مل گیا ہے۔
ہمارے وزیر خزانہ نے جب اس سال کا بجٹ پیش کیا تھا، تو قوم پر لاتعداد ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ اگلے ماہ سے حکومت اپنے اخراجات بھی کم کرتی نظر آئے گی‘‘ لیکن حقائق اس کے بالکل برخلاف تصویر دکھا رہے ہیں۔ ذرا سی راحت اور سکون کیا ملا حکومت اسی راہ پر چل کھڑی ہوئی جس کی وجہ سے یہ قوم اس حالت میں پہنچی ہے۔ یعنی بے تحاشہ اخراجات اور آمدنی کم۔ مالی مشکلات سے تھوڑی سے راحت ملتے ہی حکومت قوم کو قرضوں کی گہری کھائی سے باہر نکالنے کی بجائے اسے مزید اس میں دھکیلنے کے عمل کرنے لگی ہے۔
24 کروڑ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اس ملک کے قرضے ادا کر رہے ہیں اور حکمراں طبقہ اپنی کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں ہے۔ قرضوں کا سارا بوجھ عوام پرڈال کر اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ ججز حضرات کے ہاؤس رینٹ میں سو فیصد نہیں بلکہ چار سو فیصد اضافہ کردیا اور وہ بھی ماورائے بجٹ یعنی سالانہ بجٹ کے علاوہ۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے ججوں کے جوڈیشل الاؤنس میں بھی تقریباً چھ سے سات لاکھ روپے کا یکمشت اضافہ کردیا ہے۔ جس کے بعد ہمارے اِن منصفین کی ماہانہ آمدنی پچیس تیس لاکھ سے تجاوزکرگئی ہے۔
ایک لاکھ روپے دیہاڑی پر کام کرنے والے یہ جج حضرات اگر اپنا جائزہ خود لیں تو شاید انھیں معلوم ہوگا کہ جس کام کی انھیں یہ خطیر رقم دی جا رہی ہے،کیا وہ یہ کام کر بھی رہے ہیں یا نہیں۔ لوگوں کا انصاف فراہم کرنے کی خاطر قوم یہ سارا بوجھ اپنے سر لے رہی ہے لیکن کیا انھیں انصاف فراہم بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں زیر التواء کیس عدالتوں میں موجود ہیں۔ عوامی مسائل سے زیادہ سیاسی معاملات میں ہماری عدالتوں کا قیمتی وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ ایسے سیاسی معاملات جو عدالتوں میں جائے بغیر بھی اپنے طور پر حل کیے جاسکتے تھے اُن پر عدالتوں کا وقت اور قوم کا پیسہ بلاوجہ خرچ ہورہا ہے۔
ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ جسے بھی کچھ اختیار ملتا ہے وہ اُسے ناجائز طریقوں سے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ذاتی پسند اور ناپسند کے فیصلوں نے ہمیں آج اس ڈگر پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں سے واپسی کی کوئی اُمید باقی نہیں رہی۔ آج موجودہ حکومت اپنے اختیارات استعمال کر کے جو کرنا چاہتی ہے کر رہی ہے۔کل کوئی اور یہ کام کر رہا ہوگا۔ عوام بے چارے اپنے مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اِن کے معاملات میں بھی اپنی جان کھپا رہے ہیں، وہ اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے کسی ایک فریق کی جائز اور ناجائز حمایت میں اپنا خون جلا رہی ہے اور وقت بھی ضایع کررہی ہے۔
ان سیاستدانوں سے انھیںکچھ نہیں ملنے والا۔ بلکہ وہ قرض لیتے رہیں گے اور خرچ بھی کریں گے مگر اِن قرضوں کو ادا اس قوم کو ہی کرنا ہوگا۔ ڈیفالٹ ہوجانے کے انجانے خوف سے وہ مہنگائی کا سارا بوجھ اکیلے ہی اُٹھائیں گے اور اُن قرضوں سے فائدہ اُٹھانے والے سارے مراعات یافتہ لوگ موقعہ ملتے ہی اس ملک کو خیر باد کہہ کر کسی اور ملک میں جا بسیں گے۔
آج بھی ہم ایسے بہت سے لوگوں کی فہرست پیش کرسکتے ہیں جنھوں نے اس ملک کے اچھے دنوں میں خوب مال کمایا اور مشکلات پڑتے ہی امریکا یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں جا بسے۔ کوئی بھی مشکل حالات آئے تو ہم پھر دیکھیں گے کہ ایسے تمام لوگ جن کی دوسرے ملکوں میں بھی نیشنلٹی ہے لمحہ دیرکیے بنا منہ پھیرتے ہوئے یہاں سے نکل کھڑے ہونگے۔ یہاں پھر وہی رہے گا جن کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوگا۔ قوم اپنے سیاسی رہنماؤں کی محبت میں پاگل ہوئی جاتی ہے ۔ وہ ان کے لیے اپنی جانیں بھی دے رہی ہوتی ہے لیکن صلہ میں اسے کیا ملتا ہے۔
مہنگائی اور قرضے۔ یہ قرض کون ادا کرے گا۔ ہم اور ہماری نسلیں۔ سیاستدانوں کی نسلیں تو پہلے ہی مغربی ممالک میں رہ رہی ہیں۔ مارے جائیں گے تو ہمارے بچے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ اقتدار اور اختیار کی لت ایسی چیز ہے جو کسی کے منہ کو لگ جائے وہ اسے چھوڑتا نہیں۔ چاہے اسے کتنے برس بھی جیل اور قید وبند میں گزرنا پڑیں۔ ویسے بھی سیاستدانوں کی قید عام قیدیوں کی طرح نہیں ہوا کرتی ہے۔ وہ اُن تمام سہولتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں جن سے وہ پہلے ہوتے رہے ہیں۔ بس ایک مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ کھل کر عوام کے سامنے جلسے اور جلوس نہیں کر پاتے۔ یہی چیز انھیں بہت ستاتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں کوئی اور مسئلہ نہیں ہوتا۔ قید و بند تو اُن کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہوا کرتی ہے، جس کے بعد وہ اور بھی مشہور ہوجایا کرتے ہیں۔
ہم آج IMF کے معاہدے کے نتیجے میں ڈیفالٹ ہوجانے سے بچ گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں ساری رقم قرضوں یا دوست ممالک کی اعانت کی وجہ سے موجود ہے۔ اس میں ہمارا اپنا کمایا ہوا کوئی پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔
آج اگر دوست ممالک اپنی رقم ہم سے واپس مانگ لیں ہم پھر زمین پر آگریں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے یہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی حکمراں شاہانہ اخراجات سے باز نہیں آرہے۔ وہ دھڑا دھڑ اپنوں اور اپنے دوستوں کو خوش کرنے کے لیے پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ ملکی اثاثے فروخت بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عیاشی بھی بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت ملک اس قابل نہیں ہے کہ کوئی اضافی بوجھ برداشت کر پائے۔ عوام اس وقت انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ملک پر اربوں ڈالروں کا قرض ہے۔ حکومت دوچار ماہ بعد اپنے پارلیمنٹرین کی مراعات میں بھی یقیناً اضافہ کرے گی۔ عوام اس وقت سخت تکلیف میں ہیں۔ حکومت کو ذرا بھی احساس نہیں ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن