شہباز شریف پھر سعودی عرب میں: مقاصد کیا ہیں؟

ملک میں اِن بڑوں کی غیرحاضری کے باوصف کاروبارِ سلطنت پھر بھی چل رہا ہے۔


تنویر قیصر شاہد November 10, 2024
[email protected]

آج 11نومبر2024 کو وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف ایک بار پھر سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ وہ 2 روزہ دَورے پر سعودی دارالحکومت، الریاض ، میں موجود ہیں ۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران جناب شہباز شریف کا یہ دوسرا دَورئہ سعودیہ ہے ۔ و ہ29اکتوبر کو بھی سعودی عرب میں موجود تھے جب سعودیہ نے ’’الریاض‘‘ میںFuture Investment Initiatve نامی جدید کانفرنس کا انعقاد کیا تھا ۔

جناب شہباز شریف کو اِس اہم ترین اکنامک کانفرنس سے خطاب کرنے کا موقع بھی ملا۔ اِسی دَورے میں اُنہیں سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم، شہزادہ محمد بن سلمان، سے وَن آن وَن ملاقات کا شرف بھی حاصل ہُوا ۔ سعودی عرب سے (براستہ قطر)وطن واپسی پر ہمارے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو دَورے بارے جو تفصیلات بتائیں، وہ ملکی معیشت اور سرمایہ کاری کے لیے خاصی حوصلہ افزا دکھائی دیتی ہیں ۔ شہباز شریف صاحب کے اِس دَورے کے فوری بعد(6نومبر کو) پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف ، جنرل عاصم منیر، بھی سرکاری دَورے پر سعودی عرب گئے ۔ جنرل عاصم منیر صاحب نے اس دَورے میں جہاں سعودی ولی عہد سے بالتفصیل ملاقات کی ، وہیں آپ نے سعودی وزیر دفاع( شہزادہ خالد بن سلمان) سے بھی اہم معاملات پر ملاقات کی ۔

آج شہباز شریف صاحب اِس حال میں سعودیہ میں ہیں کہ وطن عزیز کی تین اہم ترین شخصیات بھی ملک میں نہیں ہیں ۔ صدرِ مملکت، جناب آصف علی زرداری، پاؤں میں فریکچر کے سبب دبئی میں مقیم ہیں ۔ جناب نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف یورپ میں ہیں ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن 10روزہ دَورے پر لندن میں ہیں۔

ملک میں اِن بڑوں کی غیرحاضری کے باوصف کاروبارِ سلطنت پھر بھی چل رہا ہے۔کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر مبینہ طور پر ایک خود کش دھماکے میں (9نومبر2024ء کو عین یومِ اقبال کے موقع پر) 24معصوم پاکستانی جاں بحق ہو گئے ہیں۔ ایسے منظر نامے میں وزیر اعظم شہباز شریف ایک بار پھر سعودی عرب میں موجود ہیں تو سوال اُٹھتا ہے کہ اِس شرکت کے مقاصد و اہداف کیا ہیں؟سعودی عرب دَورے سے فارغ ہو کر شہباز شریف فوراً باکو (آذربائیجان) جانا چاہتے ہیں جہاں اقوامِ متحدہ کے تحت ماحولیات کی ایک اہم کانفرنس(COP29) منعقد ہونے والی ہیں ۔آج ،بروز سوموار، شہباز شریف کی سعودیہ میں موجودگی دراصل اُن کا تیسرا دَورئہ سعودی عرب ہے۔ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد وہ اپریل 2024ء کے پہلے ہفتے بھی تین روزہ دَورے پر سعودی عرب پہنچے تھے ۔

اِس وزٹ میں بھی شہزادہ محمد بن سلمان سے اُن کی خاص ملاقات ہُوئی تھی ۔ سعودی عرب کے لیے ہمارے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے یہ متواتر دَورے اِس امر کے غماز ہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات ایک بار پھر مستحسن ہو چکے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں جو رخنہ آیا تھا، اُسے محنت اور محبت سے پُر کیا جا چکا ہے ۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو جن اقتصادی و معاشی حالات کا سامنا ہے، ایسے میں پاکستان کے حکمران امریکا، یو اے ای، چین اور سعودی عرب سے دُوری اور مہجوری افورڈ کر ہی نہیں سکتے۔ پاکستانی حکمرانوں کے لیے مگر چیلنج یہ ہے کہ وہ مذکورہ ممالک سے تعلقات کی پینگیں بڑھاتے ہُوئے توازن کیسے قائم رکھ سکتے ہیں۔

آج گیارہ نومبر کو وزیر اعظم، جناب شہباز شریف، خاص طور پر اس لیے سعودی دارالحکومت میں موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان ، نے عالمِ عرب کی اسلامی سربراہی کانفرنس(Arab Islamic Summit)بلا رکھی ہے ۔ اپنی نوعیت کی یہ دوسری کانفرنس ہے ۔ ٹھیک اِسی تاریخ کو، ٹھیک ایک سال قبل، ٹھیک اِسی سعودی شہر میں ، ٹھیک اِسی موضوع پر پہلی کانفرنس منعقد ہُوئی تھی ۔موضوع تھا(اورآج ہے) کہ ’’غزہ‘‘ میں صہیونی، غاصب اور جارح اسرائیل نے جو قیامتیں برپا کررکھی ہیں، اِنہیں کیسے روکا جائے ؟ پچھلے سال جب شہزادہ محمد بن سلمان نے اخلاص و کمٹمنٹ کے ساتھ ’’الریاض‘‘ میں ایسی ہی پہلی عرب سربراہی کانفرنس بلائی تھی، اُس وقت ’’غزہ‘‘ میں اسرائیل کو فلسطینیوں کا خون بہاتے33دن گزر چکے تھے ۔

اُس وقت اسرائیل نے ابھی12ہزار اہلِ غزہ کو شہید کیا تھا ۔ اُس پہلی کانفرنس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کوئی ایرانی حکمران(صدر ابراہیم رئیسی)11سال بعد پہلی بار سعودی عرب پہنچا تھا۔ اس اوّلین جوائنٹ اسلامی عرب سربراہی کانفرنس میں’’غزہ‘‘ کے خلاف اسرائیلی جارحیت ختم کرنے کے لیے مشترکہ اور متفقہ طور پر(Joint Communique) میں جو بڑے بڑے مطالبات کیے گئے تھے ، وہ یوں تھے: (1) اسرائیل فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کرے (2) غزہ میں عالمی امدادی خوراک کے ٹرک داخل ہونے کی فوری اجازت دی جائے (3) امریکا ، برطانیہ اور فرانس اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روک دیں (4) اقوامِ متحدہ فوری طور پر اسرائیلی جارحیت کو آگے بڑھنے سے روکے (5)عالمی برادری یک زبان ہو کر اسرائیل افواج کو پابند کرے کہ وہ غزہ کے اسپتالوں پر حملے نہیں کریں گی ۔

آج جب کہ ایک سال اور ایک ماہ گزرنے کے بعد اسرائیل ’’غزہ‘‘ میں 44ہزار فلسطینی شہید اور لاکھوں کو شدید زخمی و اپاہج کر چکا ہے، یہ حقیقت ہمارے سامنے برہنہ ہو کر ناچ رہی ہے کہ پچھلے سال عرب سربراہی کانفرنس میں اسرائیل اور عالمی برادری سے متفقہ و مشترکہ اعلامئے کی شکل میں جو مطالبات کیے گئے تھے ، ان میں سے ایک مطالبہ بھی مانا نہیں گیا ۔ غزہ میں نہتوں اور معصوموں کا خون تسلسل سے بہنے دیا گیا ۔ اسرائیل غزہ سے آگے بڑھ کر لبنان، ایران اور شام پر بھی حملہ آور ہو چکا ہے ۔

کوئی مگر اُس کے ہاتھ پاؤں روکنے والا نہیں ۔ اسرائیلی ڈھٹائی اور جارحیت کے سامنے OICاور عرب لیگ بھی ناکام ہو گئی ہیں ۔ ایسے میں بجا طور پر(عالمِ عرب کے دانشوروں میں بھی) سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ اگر پچھلے سال کی عرب سربراہی کانفرنس کے پُر شور مطالبات کو اسرائیل نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا تو اِس بار اسرائیل ایسی ہی ایک اور کانفرنس کو کیا اہمیت دے گا؟ جب سعودی عرب کے طاقتور فرمانروا ( جناب شاہ سلمان بن عبدالعزیز) اور عرب سربراہی کانفرنس کے مہتممِ اعلیٰ ( جناب شہزادہ محمد بن سلمان) کے زیر نگرانی ’’غزہ‘‘ بارے مشترکہ مطالبات کو اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نے ماننے سے انکار کر دیا تھا تو پاکستان کے وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی جانب سے ایسی ہی کانفرنس میں شرکت چہ معنی دارد؟

کہا جارہا ہے کہ اب جب کہ نیا امریکی صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) منتخب ہو چکا ہے ، حالات نئی کروٹ لے رہے ہیں ، شائد ایسے میں صہیونی و جارح اسرائیل کو امریکی اشیرواد کم ہو جائے تو اِن حالات میں نئی اسلامی عرب سربراہی کانفرنس بھی اپنا کوئی دباؤ ڈال سکے ۔کئی عرب حکمرانوں کی طرح وزیر اعظم شہباز شریف بھی اِسی نیت اور خیال سے’’الریاض‘‘ کی اِس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں ۔

اللہ کرے یہ کانفرنس ہی ’’غزہ‘‘ میں المناکیوں، خونریزیوں اور قیامتوں کے خاتمے کا سبب بن جائے ۔ خدا نخواستہ اگر یہ کانفرنس بھی ناکام ہو گئی تو خوں آشام صہیونی اسرائیل غزہ ، شام، لبنان اور ایران کے بعد ہمسایہ مصراور اُردن کی جانب بھی بڑھے گا۔ شائد یہی گریٹر اسرائیل کے اوّلین نقوش ہیں ۔قطر میں امریکی حکم پر ’’حماس‘‘ کے دفتر کا بند کیا جانا بھی اسرائیل کی کامیابی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں