امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ 277 الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے دوسری بار صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ جب کہ ان کی ری پبلیکن پارٹی نے ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں بھی واضح برتری حاصل کر لی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح دنیا بھر کے لیے حیران کن ہے کیونکہ الیکشن سے ایک روز پہلے تک ہونے والے تجزیوں پولز اور سرویز میں ان کی حریف کملا ہیرس کی برتری دکھائی جا رہی تھی مگر ان نتائج سے تمام تجزیے، تبصرے اور سروے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پاکستان میں تو صورتحال بڑی دلچسپ رہی۔ برسر اقتدار گروہ ڈیموکریٹ کا حامی اور اپوزیشن ٹرمپ کی حمایت میں رہی۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران دو بار قاتلانہ حملوں کی کوشش کے باوجود ری پبلیکن صدر کی واپسی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
ٹرمپ کی جیت میں جہاں دوسرے عوامل ہیں وہاں ان پر قاتلانہ حملوں کے بعد ان کا بے خوف رد عمل ان کی جیت میں اہم عنصر تھا۔ ان کا انتخابی مہم کے دوران نئی جنگ شروع نہ کرنا بلکہ موجودہ جنگوں بالخصوص روس یوکرین جنگ کو ختم کروانا ان کی اولین ترجیح قرار پایا۔ ٹرمپ نے دنیا اور بالخصوص امریکی عوام کو خبردار کیا کہ بائیڈن انتظامیہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جا رہی ہے بالخصوص اس پس منظر میں کہ روس اور چین اپنے دفاع کے لیے اتحاد کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ صدر بائیڈن روس کے خلاف یوکرین کو پونے دو سو ارب ڈالرز کی امداد دے چکے ہیں اور اتنی ہی امداد اپنے یورپی اتحادیوں سے دلوا چکے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرینی کامیڈین صدر اس امداد میں اربوں ڈالرز کی خرد برد کر چکے ہیں۔ صدر بائیڈن کی یہ یوکرین جنگ پر سوچی سمجھی سرمایہ کاری تھی کہ تباہ برباد یہ دونوں ملک ہوں اور یوکرین کے ذریعے روس کا خاتمہ کروایا جائے لیکن یوکرین جنگ کے خاتمے کی صورت میں بائیڈن کی یہ ساری سرمایہ کاری ضایع ہوجائے گی۔
جس طرح ماضی میں سوویت یونین کے خاتمے کے لیے افغان مجاہدین پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ ٹرمپ کے دنیا سے جنگوں کو ختم کرنے کے موقف نے امریکی وار انڈسٹری کو ان کا دشمن بنا دیا۔
خاص طور پر دوسرا حملہ، انتہائی ماہر نشانے باز کی چلائی گئی گولی جس نے ان کی کن پٹی اڑا دینی تھی خطا ہونا، ناقابل یقین ہے اور قاتل کا فوری مارا جانا جس طرح صدر کینیڈی کے قاتل کو بھی فوری طور پر مار دیا گیا کیونکہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ خود ٹرمپ کا ماضی کا ایک بیان اس کا ثبوت ہے کہ امریکی صدر تو نام نہاد ہوتا ہے۔ اصل طاقت امریکی ڈیپ اسٹیٹ ہوتی ہے جو اسے اپنے اشاروں اور فکس ایجنڈے پر چلاتی ہے۔ ذرا سوچیں !جب ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر یہ انکشاف کرتا ہے تو دنیا کے دوسرے حکمران کس گنتی میں ہیں۔ کسی بھی حکمران کا ڈیپ اسٹیٹ کے اشارے پر نہ چلنا اسے عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔
امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو پوری دنیا سے مبارک باد کے پیغامات آرہے ہیں۔ ایرانی حکومت کے ترجمان فاطمی مہاجرانی نے امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ایرانی عوام کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایران اپنی پالیسیوں کو شخصیات نہیں اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیتا ہے۔
اس انتخابات کی روشنی میں ہم نے مستقبل کی پیش بینی کر لی ہے۔ سب سے بڑا خوشی کا پیغام اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے بھیجا گیا جس میں انھوں نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو تاریخ کی سب سے بڑی واپسی قرار دیا ہے۔ نیتن یاہو کا خوشی کا اظہار بنتا بھی ہے کہ اپنے گذشتہ دور صدارت میں ٹرمپ ہی تھے جنھوں نے اسرائیلی دارالحکومت یروشلم کو تسلیم کیا نہ صرف یہ بلکہ ابراہم ایکارڈ(ابراہم) کے ذریعے دباؤ ڈال کر انھوں نے عرب ریاستوں سے اسرائیل کے تعلقات بنوائے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے عرب مسلمان ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو چند گھنٹوں کے اندر غزہ میں جنگ بند کرا دیں گے۔ اب اس بات کو بھی کئی دن ہو چکے ہیں۔
دیکھیں یہ وعدہ پورا ہوتا بھی ہے یا انتخابی وعدہ ہی رہتا ہے۔ ادھر امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے اعلیٰ جمہوری روایات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ کملاہیرس نے کہا کہ جمہوریت کا اصول ہے ہارو تو شکست تسلیم کرو۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدارتی انتخاب میں شکست پر ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے صدر جوبائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے انھیں شکست کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق 3ماہ قبل صدارتی انتخاب لڑنے والی کملاہیرس کو بائیڈن کی "پالیسیز جاری رکھنے کے اعلان پر شکست ہوئی "جب کہ امریکیوں کی بہت بڑی تعداد تبدیلی چاہتی تھی اس لیے ان کے پاس ایک ہی چوائس رہ گئی تھی کہ وہ ٹرمپ کو منتخب کریں۔
یہ ہے کملاہیرس کی شکست کی اصل وجہ۔ دوسری طرف بھارتی نژاد کملا دیوی یعنی کملا ہیرس کی شکست پر ان کے آبائی گاؤں میں سوگ کا سماں ہے۔ جب کہ بھارت ہی کے ایک گاؤں میں جشن منایا جا رہا ہے کہ نومنتخب امریکی نائب صدر کی بیوی اوشا کا تعلق دوسرے گاؤں سے ہے اور ان کے شوہر جن کی عمر40برس ہے امریکا کے کم عمر ترین نائب صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کی بیوی اوشا بھی انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قانون، تاریخ اور فلسفہ کی اعلیٰ ڈگریاں رکھتی ہیں۔