چند دن پہلے بے تکلف اور پرانے دوستوں کا ایک کھانا تھا جس پر ہر طرح کے موضوعات پر گفتگو جاری تھی ۔ تمام دوست بنیادی طور پر لائل پور سے تعلق رکھتے تھے اور اب روزگار اور دیگر وجوہات کی بنا پر لاہور منتقل ہو چکے ہیں۔قہقہوں اور مسکراہٹوں کے درمیان یہ ذکر ہو رہا تھا کہ ہم چالیس پچاس سال میں کس قدر تبدیل ہو گئے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب تو آئینے میں بھی اپنی صورت پہچانی نہیں جاتی ۔ پروفیسر ہمیشہ سے کم بولتا ہے ۔ اور بچپن سے لے کر آج تک اس کی سوچ کا محور دوسروں سے بہت مختلف ہے ۔ اشعر شاہ نے ماشاء اللہ اپنے بیٹے کی چند ہفتے پہلے ہی شادی کی تھی اور خاصا مطمئن نظر آ رہا تھا۔ خلیل جو بنیادی طور پر ایک بینکر تھا ‘ اب اپنی اولاد کے فرائض سے فارغ ہو چکا ہے۔ یعنی بچے جوان اور شادی شدہ ہیں۔
راجہ آصف ‘ سرگودھا کی ایک شوگر مل میں جی ایم ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس نے سنجیدگی کا ایک آہنی لبادہ اوڑھ لیا ہے جس میں جھانکنا ممنوع ہے۔ہاں ایک اور بات ‘ راجہ آصف کی شکل اب بالکل اپنے والد کی طرح ہو گئی ہے جو علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے ۔ آج سے چار دہائیاں پہلے روایت تھی کہ علی گڑھ سے پڑھے ہوئے مرد اور خواتین ‘ اپنے نام کے ساتھ علیگ ضرور لگاتے تھے ۔ راجہ آصف کے والد کے گھر کے باہر ایک لیٹر باکس تھا، جس میں علیگ بھی کنداں تھا ۔
بہر حال پتا نہیں کیوں‘ بلکہ کیسے موجودہ شادیوں کی تقریبات کا ذکر آ گیا ۔ ہر بندہ شاکی تھا کہ موجودہ شادیاں حددرجہ مہنگی اور غیر ضروری رسومات کے بوجھ سے حد درجہ کثافت کا شکار ہیں ۔ پروفیسر فون کرتے کرتے اچانک کہنے لگا کہ میں نے اپنی شادی پر حد درجہ سادگی کا مظاہرہ کیا تھا ۔اس سے پہلے کہ میں آگے بات کروں ‘ بتاتا چلوں کہ پروفیسر کے والد لائل پور کے رئیس ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے ۔
سول لائنز ‘ لائل پور کی بہترین رہائشی کالونی تھی اور پروفیسر وہیں رہتا تھا۔ والد کا وسیع کاروبار تھا جس میں سائیکل بنانے کی ایک نمایاں ترین فیکٹری بھی شامل تھی ۔ پروفیسر کے دو بھائی کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔ جب بھی پروفیسر کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو اس کے بھائیوں کے کمرے میں کرکٹ کا قیمتی ترین سامان موجود ہوتا تھا۔ لندن سے منگوائے ہوئے بلے ‘ وکٹیں اور کھیل کے دوران پہننے والی سفید یونیفارم قابل دید ہوتی تھی۔جب پروفیسر ایف ایس سی کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایف سی کالج آیا تو اس کے والد نے اسے ایک ایسی سائیکل تحفے میں دی جو صرف اس کے لیے بنائی گئی تھی ۔ اس کا رنگ نہ کالا تھا اور نہ سفید ۔ وہ چاندی کے رنگ کی تھی اور پروفیسر بتاتا ہے کہ یہ سائیکل ‘ اس کی فیکٹری میں خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔
پروفیسر کی بات کو سننا اور آپ تک پہنچانا حد درجہ ضروری سمجھتا ہوں ۔ بتانے لگا کہ اس کی شادی کی بارات آٹھ سے دس قریبی رشتے داروں پر مشتمل تھی ۔ یہ نہیں کہ شادی کسی سفید پوش گھرانے میں ہو رہی تھی ۔ بلکہ اس کے برعکس اس کا سسرال حد درجہ متمول تھا ۔ والد‘ ایک بھائی اور چند عزیز ‘ یہ اس ارب پتی باپ کے بیٹے کی بارات تھی ۔ نکاح ہوا اور اس کے بعد کھانا ہوا جو کہ سادہ سا تھا ۔
پروفیسر کے مطابق اس نے اپنے سسر محترم کو پہلے سے گزارش کر دی تھی کہ وہ ان کی دختر نیک اختر سے غیر روائتی طور پر شادی کرے گا اور صرف اور صرف دعاؤں کا طلب گار ہو گا۔جو شخص ‘ تمام وسائل رکھنے کے باوجود اتنی سادگی سے شادی کر سکتا ہے ۔ اس کے متعلق یہ پوچھنا یا سوچنا کہ اس نے سسرال سے کوئی جہیز وغیرہ لیا ہو گا ‘ بالکل عبث خیال ہے۔ پتا نہیں کیوں پروفیسر وہ بات کر رہا تھا جو اس نے ہم لوگوں سے کبھی بھی نہیں کی ۔ ولیمے کا بتانے لگا کہ شادی کے چند دن کے بعد‘ ایک ریسٹورنٹ میں دس پندرہ دوستوں کو لے گیا اور وہاں انھیں کھانا کھلایا ۔ یہ مکمل ولیمہ تھا ۔ جب اس کے کولیگز کو معلوم ہوا کہ اس نے حد درجہ سادگی سے شادی کر لی ہے ‘ تو وہ حیران رہ گئے۔
یہ آج سے تیس برس پہلے کی بات ہے یا شاید پچیس برس پہلے کی۔ پروفیسر اب ریٹائر ہو چکا ہے۔ اور قیمتی بات یہ ہے کہ اس کا غیر روائتی پن بچپن سے لے کر آج تک بالکل اسی طرح قائم ہے جو اس کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔
پروفیسر کی حد درجہ مہذب بات سننے کے بعد ایسے لگا کہ اس کا قد سو فٹ کے قریب ہو چکا ہے اور میں چند انچ کا بونا بن چکا ہوں۔اپنی ذات پر اتنا اعتماد میں نے بہت کم دیکھا ہے ۔ اور دوسری بات کہ تمام وسائل رکھتے ہوئے بھی ‘ اپنی ذاتی زندگی کو اتنا سادہ رکھنا بہت بڑے آدمیوں کا کام ہے۔ میری نظرمیں پروفیسر بہت بڑا آدمی ہے۔
شادیوں کی تقاریب کا موسم ہے۔ ان گنت دعوت نامے وصول ہوتے ہیں ۔ لیکن کم جگہ ہی جانا ہوتا ہے ۔ ہاں قریبی عزیزوں اور رشتے داروں کی شادیاں بہر حال ضروری ہیں کیونکہ ان کی خوشی میں شریک ہونا بھی فرائض میں شامل ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ موجودہ حالات میں ہمارے ملک میں شادی کی تقریب دراصل ہے کیا؟ گھر کے اندر اور نزدیکی رشتے داروں کے گھروں میں ڈھولکیوں کے نام پر متعدد تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد پرتکلف کھانا موجود ہوتا ہے۔ معلوم نہیں یہ عجیب و غریب رسم یعنی ڈھولکی ہمارے پلے کس طرح پڑ گئی ۔
شاید اس کا تعلق مقامی کلچر سے ہو ۔ بہر حال یہ تقاریب کہاں سے درآمد ہوئی ہیں اس کے متعلق وثوق سے کچھ بھی کہنا مشکل ہے ۔ ابھی شادی شروع نہیں ہوئی ۔رنگ برنگی تقریبات کے بعد مہندی کی تقریب برپا کی جاتی ہے۔ پنجاب میں لاہور کی حد تک شادیوں پر سنگل ڈش کا رواج ہے۔ مگراس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رسم حنا مختلف فارم ہاؤسز میں منعقد کی جاتی ہیں۔ جس میں بیس سے پچیس کھانے معمول کی بات ہے ۔
’’مشروبات صحت ‘‘ بھی باقاعدگی سے پیش کیے جاتے ہیں۔ اور ان تقاریب کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے ملک میں ’’مشروبات خاص‘‘ پر کسی قسم کی کوئی پابندی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ ہندوستان کے پنجابی گلوکاروں کو بلانا اب ایک اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے ۔ اور وہ باقاعدہ شادیوں کے سیزن میں بڑے شہروں میں لوگوں کی تقاریب میں گانے اور بھنگڑے کا امتزاج پیش کرتے نظر آتے ہیں۔عمومی طور پہ صرف مہندی کی ایک رسم پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ قوالی نائٹ اب مہندی کا ایک اہم جزو بنتا جا رہا ہے ۔
بارات کی طرف آئیں تو معمولات اور بھی بھرپور اخراجات کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دلہا دلہن کے اسٹیج کی آرائش پر لاکھوں سے کروڑوں روپے تک کے مقامی اور غیر ملکی پھول منگوائے جاتے ہیں ۔
مجھے یہ کہتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے کہ دلہن کا آرائشی جوڑا اب پچیس تیس لاکھ سے لے کے دو ڈھائی کروڑ تک پہنچ چکا ہے ۔ لاہور میں پھر بھی غنیمت ہے کہ سنگل ڈش کی ہوٹلوں اور بڑے شادی گھروں میں پابندی کی جاتی ہے اور یہ بات خوش آئند ہے ۔ مگر ہم اتنے عجیب سے لوگ ہیں کہ حکومت کی سنگل ڈش کی پابندی کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے توڑ لیتے ہیں۔ یہی حال ولیمے کا ہے ۔ شادی پہ مجموعی اخراجات کا اندازہ لگانا اب ممکن نہیں رہا کیونکہ یہ دکھاوئے اور نمائش کا وہ سلسلہ بن چکا ہے۔ جس میں جتنا بھی پیسا لگایا جائے ‘ وہ اتنا ہی کم ہے ۔
شادی بیاہ کی یہ تمام بے جا تقریبات ہم کیوں اپنی کمر دہری کرنے کے باوجود ‘ مسلسل برپا کر رہے ہیں ۔ مجھے اس پر دلیل سے کوئی نکتہ اٹھانا ناممکن نظر آتا ہے۔ قطعاً مذہبی حوالے سے بات نہیں کر رہا ۔سنجیدگی سے سوچئے کہ شادی ہے کیا؟ نکاح اور اس کے بعد صرف ولیمہ صائب معلوم ہوتا ہے۔ مغرب میں شادیوں کی تقاریب حد درجے بہترین مگر سادہ انداز سے منعقد کی جاتی ہیں۔ چرچ میں دلہا دلہن ایک دوسرے کو انگوٹھی پہناتے ہیں اور اس کے بعد صرف ایک تقریب ہوتی ہے جس میں کھانے اور رقص دونوں شامل ہوتے ہیں۔
کئی جگہ تو یہ تقریب بھی منعقد نہیں ہوتی ۔ چرچ میں انگوٹھی پہنانے کے بعد دلہا دلہن وہیں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ میں نے اٹلی ‘ آسٹریلیا اور لندن میں بے شمار جوڑوں کی شادیاں دیکھی ہیں۔ ان میں کسی قسم کا کوئی غیر معمولی خرچہ یا نمائش نظر نہیں آتی ۔
صرف یہ عرض کروں گا کہ اگر آپ ارب پتی بھی ہیں تو پھر بھی نکاح اور ولیمے پر محدود سے لوگوں کو بلائیے۔ اس لیے کہ نئے جوڑے کو آپ کی دعاؤں کی اصل ضرورت ہوتی ہے۔ پروفیسر نے حد درجے امیر ہونے کے باوجود جو مثال قائم کی ہے‘ اس پر غور کیجیے گا۔ کوشش کیجیے کہ شادی بیاہ کی تقریبات پر برائے نام خرچہ ہو۔ یہی نیکی ہے اور یہی بڑا پن ہے۔ مگر یہ کون کرے گا۔ اس کا جواب میرے پاس موجود نہیں ہے۔