(1)ایک سہانا خواب
28اگست 1963ء کی دوپہر تھی جب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر تقریر کرنے مائیک پر آئے۔ ان کے سامنے ڈھائی لاکھ انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ یہ لوگ نسلی تعصب کے خلاف احتجاج کرنے امریکی دارالحکومت، واشنگٹن میں جمع ہوئے تھے۔
مارٹن لوتھر سیاہ فام راہنما تھے، ان سیاہ رنگ انسانوں کے قائد جنھیں سفید فام امریکیوں نے اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ یہ متکبر سفید فام سیاہ رنگ انسانوں کو پاؤں کی جوتی سمجھتے اور ان پر ظلم و ستم ڈھاتے تھے۔ حالانکہ ٹھیک ایک سو برس پہلے 1863ء میں لیجنڈری امریکی صدر، ابرہام لنکن نے سیاہ فاموں کو غلامی سے آزاد کر دیا تھا۔ تاہم وہ کئی سفید فاموں کی متکبرانہ ذہنیت تبدیل نہ کر سکے۔
بیسویں صدی میں جب انسانی حقوق کا بول بالا ہوا، تو پابندیوں میں جکڑے امریکی سیاہ فاموں نے بھی تحریک آزادی کا آغاز کیا۔ مارٹن لوتھر اسی تحریک کے سرگرم راہنما تھے۔ انھوں نے سفید فام اکثریت کی آمریت کے خلاف زور دار مہم شروع کر دی۔ اس دوران سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے مابین فساد بھی ہوا جس کی بنا پر سفید فام امریکی حکومت نے مارٹن لوتھر کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیا۔
سیاہ فام لیڈر اور امریکی حکومت کے درمیان تعاون جاری تھا کہ ایک نوجوان سفید فام، جان کینیڈی برسراقتدار آ گیا۔ یہ نوجوان اکثر سفید فاموں کے برعکس نسلی تعصب کو ذہنی مرض سمجھتا تھا۔ اس لیے وہ سعی کرنے لگا کہ سیاہ فام امریکیوں کو ان کے حقوق مل جائیں۔
اس سلسلے میں صدر کینیڈی نے جون 1963ء میں شہری حقوق (سول رائٹس) کے قوانین کا ایک مجموعہ پیش کر دیا۔یہ سیاہ فاموں کو بنیادی شہری حقوق عطا کرتے تھے، اسی لیے انھوں نے سول رائٹس قوانین کا خیرمقدم کیا۔ تاہم بنیاد پرست سفید فام شہری سیاہ فاموں کی حمایت کرنے پر صدر کینیڈی کو نشانہ بنانے لگے۔ تب مارٹن لوتھرکنگ نے فیصلہ کیا کہ قوانین کی حمایت کرنے کے لیے ملک بھر میں جلسے منعقد کیے جائیں اور جلوس بھی نکلیں۔
اس ضمن میں 28اگست کو واشنگٹن میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جو ’’مارچ آن واشنگٹن‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں امریکا بھر سے ڈھائی لاکھ امریکی شریک ہوئے۔ شرکا میں اسی فی صد سیاہ فام تھے جنھیں سنہرے مستقبل کی آس جلوس میں کھینچ لائی۔ بعدازاں امریکا کی سول رائٹس تحریک میں اسے سب سے بڑا جلوس قرار دیا گیا۔
مارٹن لوتھر کنگ نے جلوس سے خطاب کے لیے خصوصی تقریر تیار کی تھی۔ اسی لیے جب وہ نوٹس سنبھالتے ڈائس پر آئے، تو لوگوں نے انھیں تعجب سے دیکھا۔ دراصل مارٹل لوتھر عموماً فی البدیہہ تقریر کرتے تھے۔
بہرحال امریکی سیاہ فاموں کے بڑے لیڈر کا خطاب شروع ہوا۔ انھوں نے تقریر میں امریکی اعلان آزادی، امریکی آئین اور اس اعلان کا ذکر کیا جس کے ذریعے صدر ابرہام لنکن نے سیاہ فام غلاموں کو آزادی دی تھی۔تقریر اختتامی مرحلے میں تھی کہ اچانک مشہور سیاہ فام گلوکارہ، ملیحہ جیکسن کھڑی ہوئی۔ اس نے چیخ کر مارٹن لوتھر سے کہا ’’مارٹن! ان لوگوں کو اپنے خواب کے بارے میں تو بتاؤ۔‘‘
مارٹن لوتھر اکثر اپنی تقریروں میں ’’اپنے خواب‘‘ کا ذکر کرتے تھے۔ خواب یہ تھا کہ مستقبل میں امریکا کو کیسا ہونا چاہیے۔ مارٹن لوتھر نے ملیحہ جیکسن کی بات سنی، تو کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر ہاتھ میں پکڑے نوٹس ایک طرف رکھے اور فی البدیہہ تقریر کرنے لگے۔ تب مارٹن نے اپنی خطیبانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اپنے نظریے کا نچوڑ تقریر میں بیان کر ڈالا۔
اس تقریر کا کمال تھا کہ اسے سن کر کئی سفید فام بھی سیاہ فاموں کی سول رائٹس موومنٹ کے حامی بن گئے۔ یوں صدر کینیڈی کے لیے نئے قوانین متعارف کرانا آسان ہو گیا۔ اسی تقریر کی بنیاد پر مشہور رسالے، ٹائم نے مارٹن لوتھر کو مسلسل دو سال (1963ء اور 1964ء) ’’سال کی بہترین شخصیت‘‘ قرار دیا۔
مزیدبرآں اسی تقریر نے انھیں امن کا نوبل انعام بھی دلوایا۔دلچسپ بات یہ کہ مارٹن لوتھر کی تقریر کا اصل نام ’’نارمیلسی، نیور اگین‘‘ (Normalcy, Never Again) تھا۔ مگر جب مارٹن لوتھر نے ’’اپنے خواب‘‘ کی تشریح کی، تو وہ ’’آئی ہیو اے ڈریم‘‘ (I Have a Dream) کہلائی۔ امریکی عوام اسے بیسویں صدی کی عظیم ترین قومی تقریر قرار دیتے ہیں۔ اس تقریر نے امریکا میں سفید فاموں کا ذہنی رویّہ مثبت طور پہ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
گو امریکا میں اب ایک سیاہ فام صدر بن چکے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی امریکی معاشرے میں نسلی تعصب موجود ہے۔ خاص طور پر گورے پولیس والے سیاہ فام نوجوانوں پر تشدد کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ امریکی سفید فام پولیس میں یہ خیال عام ہے کہ تمام سیاہ فام جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔مارٹن لوتھر کنگ کی انقلابی تقریر کے بعض جملے درج ذیل ہیں:
1۔ ’’میں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ میرے چاروں ننھے بچے ایک دن ایسی قوم کے باسی ہوں گے جہاں انھیں رنگ و نسل نہیں کردار کی پختگی کے اعتبار سے جانچا جائے گا۔ میں آج یہ خواب دیکھ رہا ہوں۔‘‘
2۔ ’’میں نے ایک اور خواب دیکھا ہے۔ یہ کہ ایک دن ساری امریکی قوم مل کر یہ سچائی بیان کرے گی کہ تمام انسانوں کو برابری کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے۔‘‘
3۔ بھائیو اور دوستو! ہم بے انتہا مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی دکھ اٹھائیں گے۔ مگر میں اب بھی ایک خواب دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔
(2)غلطی جو مہنگی ثابت ہوئی
آج کا سپرپاور، امریکا اپریل 1861ء تا مئی 1965ء زبردست خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ امریکا کی سات جنوبی ریاستیں سیاہ فام باشندوں کو حسب دستور غلام کے روپ میں دیکھنے کی خواہش مند تھیں جبکہ بقیہ ریاستوں نے غلامی ختم کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ جب ان ریاستوں کے نمائندے، ابرہام لنکن صدر بنے تو جنوبی ریاستوں نے بغاوت کر دی۔
ان ریاستوں کو کنفیڈریٹ (Conferderate) ریاستیں کہا گیا۔ان ریاستوں کی فوج میں تقریباً دس لاکھ سپاہی شامل تھے۔ جنرل رابرٹ لی اس فوج کا قابل ترین جرنیل تھا۔ اس نے مشرقی محاذ جنگ پر امریکی افواج کو کئی شکستیں دیں۔ 4 ستمبر 1962ء کو اس نے شمالی امریکا کی سمت حملہ کر دیا تاکہ دارالحکومت واشنگٹن پر قبضہ کر سکے۔ اگر یہ مہم کامیاب رہتی، تو امریکی افواج کا حوصلہ پست ہو جاتا۔ تب ممکن تھا کہ کنفیڈریٹ فوج جنگ جیتنے میں کامیاب رہتی۔
جنرل رابرٹ لی کی فوج میں انتہائی تجربے کار ساٹھ ہزار فوجی شامل تھے۔9 ستمبر کو جنرل رابرٹ نے اپنی فوج کے
اعلیٰ افسروں کے نام ایک خفیہ پیغام جاری کیا۔ اس میں عسکری مہم کی تمام تفصیلات درج تھیں۔ جنرل رابرٹ نے اپنی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ہر حصے نے تزویراتی لحاظ سے اہم مقام پر قبضہ کرنا تھا۔ آخر میں واشنگٹن کے نزدیک تمام حصے یکجا ہو جاتے۔ پیغام میں راستوں کی تفصیل بھی درج تھی۔
امریکی تاریخ میں یہ پیغام ’’اسپیشل آرڈر 191‘‘ کہلاتا ہے۔ جنرل رابرٹ نے پیغام کی پانچ نقول تیار کرائیں اور فوج کے پانچوں حصوں کے کمانڈر جرنیلوں کو بھجوا دیں۔ ایک نقل میجر جنرل ڈی ایچ ہل کو بھجوائی گئی۔
اس جرنیل کی فوج نے پیچھے رہ کر بقیہ حصوں کی پشت پناہی کے فرائض نبھانے تھے۔12 ستمبر کو منصوبے کے مطابق میجر جنرل ہل اپنی فوج کو لیے پیچھے کوچ کر گیا۔ مگر اس سے ایک فاش غلطی سرزد ہوئی۔ جنرل رابرٹ کا اسپیشل آرڈر 191 اس نے ایک لفافے میں رکھا تھا۔ اس لفافے میں میجر جنرل ہل کے تین سگار بھی موجود تھے۔ وہ یہ لفافہ اپنے سابقہ مستقر کے میدان ہی میں بھول گیا۔
13ستمبر کو امریکی فوج کے چند فوجی اسی مستقر کا جائزہ لینے آئے۔ ان میں کارپورل بارٹن مچل بھی شامل تھا۔ اس کو میدان میں پڑا وہ لفافہ مل گیا۔ جب اس نے اسپیشل آرڈر 191 کا مطالعہ کیا، تو اسے احساس ہو گیا کہ یہ نہایت قیمتی دستاویز ہے۔
بارٹن نے وہ پیغام اپنے افسر، سارجنٹ جان بلوس کے سپرد کیا۔ وہ پھر ’’چین آف کمانڈ‘‘ سے ہوتا ہوا شمالی امریکا میں موجود امریکی فوج کے کمانڈر، جنرل جارج میکلن تک پہنچ گیا۔ بتایا جاتا ہے، جب جنرل جارج نے اسپیشل آرڈر 191 پڑھا، تو خوشی کے مارے اچھل پڑا۔ تب اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’اب میں بولی لی (جنرل رابرٹ) کو ایسا مزہ چکھاؤں گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گا۔‘‘
یوں کنفیڈریٹ فوج کا جنگی پلان امریکی فوج کے ہاتھ لگ گیا۔ جنرل جارج نے پھر 14ستمبر کو ایک جغرافیائی مقام، جنوبی پہاڑی درے پر حملہ کر دیا۔ اس درے پر قبضے سے وہ جنرل رابرٹ کی منقسم فوج کو یکجا ہونے سے روک سکتا تھا اور یوں وہ منتشر رہتی جس سے اس کی طاقت کم ہو جاتی۔ زبردست لڑائی کے بعد امریکی فوج اس درے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی۔
تاہم جنرل رابرٹ لی انتہائی تجربے کار اور زیرک جرنیل تھا۔ اس نے جنگی چالیں اتنی کامیابی سے چلیں کہ اپنی بکھری فوج کو شارپس برگ نامی مقام پر جمع کر لیا۔ مگر جنرل جارج بھی اپنی فوج کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ چناںچہ 17ستمبر کو شارپس برگ کے نزدیک دونوں افواج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔ یہ جنگ انٹیٹم (Antietam) بھی کہلاتی ہے۔
اس جنگ میں امریکی فوج کی تعداد 75 ہزار تھی۔ جبکہ کنفیڈریٹ فوج میں38 ہزار فوجی شامل تھے۔ یہ امریکی خانہ جنگی کی سب سے خونی ایک روزہ جنگ ثابت ہوئی۔ اس مجادلے میں طرفین کے 22, 717 ہزار فوجی مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ یہ جنگ ہارجیت کا فیصلہ کیے بغیر ختم ہوئی تاہم امریکی فوج نے باغیوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ جنرل رابرٹ لی باقی ماندہ فوج کو لیے واپس ورجینیا چلا گیا۔ اسی لیے امریکا بھر میں یہی چرچا ہوا کہ یونین (وفاقی امریکی) فوج جنگ جیت گئی۔
جنرل رابرٹ لی کی پسپائی امریکی خانہ جنگی کا نقطہ تبدیلی ثابت ہوئی۔ امریکی صدر ابرہام لنکن نے دشمن کی ہار پر ازحد مسّرت کا اظہار کیا۔ انھیں اتنی زیادہ توانائی ملی کہ انھوں نے سیاہ فام غلاموں کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ اسی اعلان کے باعث برطانیہ اور فرانس نے کنفیڈریٹ ریاستوں کی مالی و عسکری امداد کا ارادہ ملتوی کر دیا کیونکہ وہ غلامی کی حمایت کر کے عالمی سطح پر اپنی بدنامی نہیں چاہتے تھے۔یوں جنرل ڈی ایچ ہل کی بے پروائی کے باعث جنرل رابرٹ لی کا خفیہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ منصوبہ طشت ازبام نہ ہوتا، تو ممکن ہے، جنرل رابرٹ لی واشنگٹن پہنچنے میں کامیاب رہتا۔ یوں اصج کے امریکا کی تاریخ مختلف ہوتی کیونکہ کنفیڈریٹ ریاستوں کی جیت سے دو امریکا وجود میں آ جاتے۔ گویا امریکا پھر شاید آج کی طاقتور اکلوتی سپرپاور نہ ہوتا۔
(3)جب امریکیوں کو خفت اٹھانا پڑی
1959ء میں کمیونسٹ راہنما، فیدل کاسترو نے کیوبا کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ سابقہ حکمران امریکا کا ہمدرد تھا، اسی لیے ملک میں امریکی کاروباری آ کر کاروبار کرنے لگے۔ مگر کاسترو نے امریکی کارپوریشنوں اور کمپنیوں کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور بہت سے امریکیوں کو کیوبا سے نکال دیا۔ مزیدبرآں وہ سوویت یونین سے تعلقات بڑھانے لگا جس سے امریکا کی سردجنگ زوروں پر تھی۔
کیوبا کی صورت حال دیکھ کر امریکی صدر، آئزن ہاور نے فیصلہ کیا کہ بزورکاسترو حکومت ختم کر دی جائے۔ یہ کام امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کے سپرد ہوا۔ سی آئی اے نے گوئٹے مالا میں کاسترو کے مخالفین کو جمع کیا، انھیں عسکری تربیت دی اور بریگیڈ 2506 کے نام سے ایک فوج کھڑی کر لی۔
اس فوج نے خلیج پگز میں واقع ایک کیوبن مقام، پلایا گیرون سے کیوبا پر حملہ کرنا تھا۔ یہ حملہ 17اپریل1961ء کو شروع ہوا۔ تب تک امریکا میں صدر جان کینیڈی برسراقتدار آچکے تھے۔ وہ کیوبا پر حملے کے مخالف تھے، مگر امریکی فوج نے انھیں یہ اقدام کرنے پر مجبور کر دیا۔
منصوبے کے مطابق امریکی طیاروں نے بریگیڈ 2506 سے مقابلہ کرنے والی کیوبن فوج پر بمباری کرنا تھی تاکہ حملہ آوروں کو دارالحکومت ہوانا تک پہنچنے میں دشواری نہ ہو۔ مگر جن امریکی طیاروں نے اڑان بھری، ان کے ہواباز اپنی گھڑیوں کو کیوبا کے وقت سے ہم آہنگ کرنا بھول گئے۔ یہ چھوٹی سی کوتاہی بہت بھاری ثابت ہوئی۔
وجہ یہ ہے کہ امریکی طیارے ایک گھنٹہ دیر سے بمباری کے مقام پر پہنچے۔ تب تک کیوبن فوج بریگیڈ 2506 کے بیشتر فوجیوں کو ہلاک، زخمی یا گرفتار کر چکی تھی۔ چناںچہ امریکیوں کا بنایا گیا منصوبہ ناکام ثابت ہوا اور امریکی حکومت کو بہت خفت اٹھانا پڑی۔ چند پائلٹوں کی کوتاہی پورے جنگی منصوبے کو لے ڈوبی۔ یہ ناکام حملہ امریکی تاریخ میں ’’بے آف پگز اٹیک ‘‘ کہلاتا ہے۔
(4)ٹائی ٹینک نہ ڈوبتا اگر
برطانیہ سے چلنے والا اپنے زمانے کا سب سے بڑا مسافر بردار بحری جہاز، ٹائی ٹینک امریکا کی جانب رواںدواں تھا۔ 14اپریل 1912ء کی رات وہ بحراوقیانوس میں برفانی تودے سے ٹکرا گیا۔ اسی تودے نے دیوہیکل جہاز کے پیندے کی فولادی چادر پھاڑ ڈالی۔ چناںچہ جہاز میں تیزی سے پانی بھرا اور چند گھنٹے میں ٹائی ٹینک ڈوب گیا۔ اس حادثے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد مسافر مارے گئے۔
خاص بات یہ ہے کہ اگر ٹائی ٹینک میں دوربین موجود ہوتی، تو یقیناً یہ بدقسمت بحری جہاز خوف ناک حادثے سے بچ جاتا۔ دراصل جب9 اپریل کو جہاز برطانیہ سے روانہ ہونے والا تھا، تو کچھ عرصہ قبل کمپنی نے ٹائی ٹینک کے سیکنڈ آفیسر، ڈیوڈ بلیئر کو تبدیل کر دیا۔ اس کی جگہ چارلس لائٹ رولر نیا سیکنڈ آفیسر مقرر ہوا۔
ڈیوڈ بلیئر نے جلدی جلدی چارلس لائٹ رولر کو چارج دیا اور کمپنی کے صدر دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس عجلت میں وہ چارلس کو اس لاکر کی چابی دینا بھول گیا جس میں دوربین موجود تھی۔ جب ٹائی ٹینک روانہ ہوا، تو کئی گھنٹے بعد عرشے پر متعین اہلکار کو دوربین کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ دور تک سمندر کا نظارہ کر سکے۔ تبھی انکشاف ہوا کہ دوربین تو فولادی لاکر میں بند ہے اور اس کی چابی موجود نہیں۔ اور اس لاکر کو توڑنا ممکن نہیں تھا۔ دوربین نہ ہونے کی وجہ سے اہل کار رات کے اندھیرے میں برفانی تودے کو نہیں دیکھ سکا اور بحری جہاز اس سے ٹکرا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات معمولی سمجھی جانے والی غلطی بھی زبردست نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر اس رات ٹائی ٹینک پر دوربین ہوتی، تو اہلکار یقیناً اس کی مدد سے برفانی تودے کو دیکھ لیتا اور جہاز اس سے نہ ٹکراتا ۔یوں وہ بخیروعافیت امریکا پہنچ جاتا۔
(5)کاغذات نے سابق صدر کی جان بچا لی
یہ 14 اکتوبر 1912ء کی شام ہے۔ تھیوڈور روز ویلیٹ اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں امریکی شہر ملواکی آئے ہوئے ہیں۔ تھیوڈور روز ویلیٹ 1901ء تا 1909ء امریکا کے صدر رہے۔ اس دوران انھوں نے عوام کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے اور ان کا معیار زندگی بلند کر دیا۔ اسی لیے امریکا کے عظیم ترین صدور میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
تھیوڈر روزویلیٹ الیکشن میں حصہ لیتے سبھی امیدواروں کی جنگجویانہ پالیسیوں سے خوش نہیں تھے۔ اسی لیے 1912ء کے انتخاب میں انھوں نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ امریکا کو جنگ بازی سے دور رکھا جا سکے۔اب وہ ملواکی شہر میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرنے آئے تھے۔ ہوٹل گل پیٹرک سے نکلتے ہوئے انھوں نے 50 صفحات پر مشتمل اپنی تقریر کو تہ کیا اور اسے اپنے فوجی کوٹ کی بالائی جیب میں اڑس لیا۔ تب ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ کاغذات ان کی جان بچا لیں گے۔
جب وہ جلسہ گاہ میں پہنچے، تو حاضرین انھیں دیکھ کر تالیاں بجانے لگے۔ ان میں ایک نیم دیوانہ شخص، جان شرینک بھی شامل تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ سابق صدر کو تیسرا انتخاب نہیں لڑنا چاہیے۔ یہ خیال اس کے دل و دماغ پر کچھ ایسا حاوی ہوا کہ اس نے تھیوڈور روزویلیٹ کی جان لینے کا فیصلہ کر لیا۔ چناںچہ وہ پستول لیے جلسے میں پہنچ گیا۔
(6)قاتلانہ حملہ
جب سابق صدر اس کے عین سامنے آئے، تو شرینک نے جیب میں چھپائی پستول نکالی اور ان کے سینے پر گولی چلا دی۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے فوراً اسے دبوچ لیا اور شرینک کو دوسری گولی چلانے کا موقع نہ ملا۔گولی سیدھی اس جیب سے ٹکرائی جس میں تقریر کے کاغذات موجود تھے۔ کاغذات کے موٹے پلندے نے گولی کی قوت ختم کر ڈالی۔ چناںچہ وہ سابق صدر کے سینے پر محض خراش ہی ڈال سکی، تاہم زخم سے خون رسنے لگا۔ تھیوڈور روز ویلیٹ نے اسی حالت میں ایک گھنٹا حاضرین سے خطاب کیا۔ جب جلسہ ختم ہوا، تو وہ اسپتال پہنچے جہاں ان کی مرہم پٹی کی گئی۔
یوں تھیوڈر روزویلیٹ زندہ بچ گئے تاہم وہ الیکشن نہیں جیت سکے۔ ڈیموکریٹک امیداور، ووڈرو ولسن نیا امریکی صدر بن گیا جس نے بہت جلد امریکا کو جنگوں کی طرف دھکیل دیا۔ یہی وہ صدر ہے جس نے امریکی یہود کی پشت پناہی کی اور وہ فلسطین میں اپنی ریاست بنانے کے لیے ہر طرح سے سرگرم ہو گئے۔