روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین کے قارئین کے معیار مطالعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ تحریک پاکستان کی راہ میں علمی فکری روشنی کے چراغ جلانے والی شخصیت علامہ محمد اقبال ؒ کی زندگی کے وہ خوشبودار پہلو دیکھائیں جس سے فکر اقبال ؒ کی راہ پر چلتے ہوئے ہم اپنی حقیقی منزل کو دیکھ سکیں جس سے محبت اقبال اور بھی معتبر ہو جاتی ہے۔
نظریہ اقبال کے تناظر میں دیکھیں تو سمجھ آتا ہے کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی سے بچنے کے لیے قیام پاکستان تو ضروری تھا ہی مگر مقصد پاکستان تو عملی طور پر اسلامی نظام دنیا کو دکھانا تھا تاکہ اسلام کے چہرے پہ جو داغ دھبے ہیں اسے دھو کر شفاف چہرہ ابھارا جا سکے یہی وہ منظر تھا جو1930میں خواب اقبال ؒ میں آیا جسے پاکستان کا خواب کہا جاتا ہے، انہوں نے سمجھایاکہ زمینی سرحدی تقسیم کی بجائے مسلمان کے نقطہ نگاہ سے تصور آزادی کا مفہوم کچھ اور ہے۔
جہاں اسلام آزاد اور مسلمان مضبوط ہوں، مولانا مدنی نے جب اقبال ؒ سے کہا ہندوستان میں رہنے سے ہندو ہمیں اسلام کی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں تو آپ نے تبسم زیر لبی کے ساتھ فرمایا کہ مولانا جو فرق آزادی اور آزادی کے مفہوم میں بیان کیا ہے ناں اس سے کہیں زیادہ فرق اسلام اور اسلام کے مفہوم میں ہے، آپ حضرات کے نزدیک اسلام وہ ہے جو ہمارے دور ملوکیت میں واضح ہوا تراشا گیا اور اُس میں مسلمان غلام کا غلام ہی رہا مسلمان کے نزدیک آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک خدا کا اطاعت گزار ہو اور کسی انسان کی حکومت اس پر نہ ہو آپ جن چند شخصی قوانین کی آزادی کو آزادی سمجھتے ہیں وہ حقیقی آزادی نہیں ہو گی آپ کے اور ہمارے تصور آزادی میں فرق ہے۔
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
آپ کی تصانیف لفظوں کی صورت میں اُجالوں کے وہ چراغ ہیں جس سے ملت کو روشن و باوقارمنزل کا تعین ملتا ہے پاکستان قدرت کے معجزے کا نام ہے، ستائیس رمضان المبارک جو رات نزول قرآن کی ہے وہی قیام پاکستان کی ہے آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو تحریک پاکستان میں اُس وقت حوصلہ بخشا جب آپ ہندوستانی راہنماوں کی کانفرنس میں ہندوں کی سوچ اور عمل سے دلبرداشتہ ہوکر یہ کہہ کہ چلے گئے کہ ہندو ایک ناقابل اصلاح قوم ہے۔
یہ وہ اندورنی صورتحال تھی جس میں بانی پاکستان اپنے جذبوںکو زخمی ہوتا محسوس کر رہے تھے کیونکہ بانی پاکستان کی سیاست دوطرفہ خوشحالی پر مبنی تھی جس میں مخالفین کا بھی فائدہ شمار تھا اس خاموشی میں چھپا دُکھ علامہ اقبال ؒ نے محسوس کرتے ہوئے محمد علی جناح سے ملاقات کی جس میں آپ ؒ نے اسلام کے نام پر تحریک پاکستان میں نئی روح ڈالی اور جذبہ قیام پاکستان میں جوش تازہ دم کیا جس سے علامہ اقبال ؒ کا خواب تکمیل کے آثار دکھانے لگا۔ قائد اعظم محمد علی جناح علامہ اقبال ؒ کی اس قدر کرتے تھے کہ انہوں نے کہا کہ میرے سامنے ایک طرف ہندوستان، پاکستان رکھا جائے اور دوسری طرف علامہ اقبال ؒ ہوں اور مجھے کہا جائے کہ ایک کا انتخاب کریں تو میں بنا سوچے علامہ محمد اقبال ؒ کا انتخاب کروں گا۔
جب ہندوں نے سازش کی کہ علامہ اقبال ؒ اور محمد علی جناح میں دُوری پیدا کی جائے تو انہوں نے علامہ اقبال ؒ کو کہا کہ آپ محمد علی جناح سے بڑی روحانی علمی شخصیت ہیں،آپ مسلمانوں کی تحریک کو لیڈ کریں تو آپ ؒ نے فرمایا کہ اللہ نے محمد علی کو جس کام کے لیے چنا ہے ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے بلکہ اسے رضاالٰہی کے لیے مزید مضبوط کریں گے۔
علامہ محمد اقبال ؒ مولانا جلال الدین رومی ؒ کے روحانی مرید تھے۔ آپ کے مرشد آپ کی زندگی سے سینکڑوں سال پہلے دنیا سے رخصت ہو چکے تھے مگر روحانی دنیا میں ملاپ ہوتے تھے، مرشد مولانا جلال الدین رومی ؒ کے مزار میں علامہ محمد اقبال ؒ کی علامتی قبر بھی تیار کی گئی ہے اور علامہ اقبال ؒ کی قبر میں مرشد کی قبر کی مٹی بھی شامل کی گئی تھی۔
علامہ محمد اقبالؒ ایسی متاثر کن شخصیت کے مالک تھے کہ زمانہ طالب علمی میں ہندوپاک کے گورنر سے آپ ؒ کی گفتگو ہوئی تو وہ حیران کن کیفیت میں مبتلا ہو کر عرض کرنے لگا کہ ہم آپ کو سر کا خطاب دینا چاہتے ہیں اس وقت سر کا خطاب بہت کم اور نایاب شخصیات کو دیا جاتا تھا، علامہ اقبال ؒ نے فرمایا کہ میں یہ خطاب اس شرط پر لوں گا کہ پہلے میرے استاد مولوی میر حسن کو اس خطاب سے نوازا جائے۔گورنر نے احترام استادیت کا منظر دیکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کے استاد کی کوئی کتاب یا وجہ شہرت نہیں دیکھی تو ان کو کیسے سر کا خطاب دیا جائے؟ تو علامہ اقبال ؒ نے فرمایا کہ آپ کے سامنے اقبال کی صورت میں جو زندہ کتاب کھڑی ہے وہ اُن کے تعارف کے لیے کافی نہیں؟ اس فقرے سے لاجواب ہوتے ہوئے پہلے آپ نے اپنے استاد مولوی میر حسن کو سر کا خطاب دلوایا پھر خود حاصل کیا۔
علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت پر بات کرنے والوں نے کئی کتابیں تحریر کیں کیونکہ آپؒ بے شمار پہلوؤں سے عطا خداوندی کے حامل ہیںآپ نے اپنی شاعری میں نوجوانوں سے انقلابی امیدیں جگاتے ہوئے ان کو اپنے عقاب شاہین کا نام دیا، علامہ محمد اقبال ؒ نے شاہین کا ہی انتخاب کیوں کیا ، اس سے شاہین کی خصوصیت کے بارے میںوہ علم سامنے آیا جو پوشیدہ تھا، شاہین پرندوں کی دنیا کا درویش پرندہ ہے جو اپنا گھر نہیں بناتا بلند پرواز ہی اس کا مقصد حیات ہوتا ہے جو بلندیوں کا عاشق اور اس قدر باکمال نظر کا مالک کہ آسمانوں میں اڑتا ہوا بھی زمین پر شفاف دیکھتا ہے۔
ایک عقاب کی عمر ستر سال تک جاتی ہے لمبی عمر کو جینے کے لیے اسے سخت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، چالیس سال کی عمر میں اس کے پنجے کند ہو جاتے ہیں چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہو جاتی ہے اس کے پر جس سے وہ پرواز کرتا ہے بہت بھاری ہو کر سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے پروان بھرنے میں اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سب مشکلات کے ہوتے ہوئے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر سخت ترین مشقت کے لیے تیار ہو جائے چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے اورسب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پر مار کر توڑتا ہے پھر اپنے ناخنوں سے اپنے پروں کو اُکھاڑ تا ہے اس سارے عمل سے اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف و مشقت سے گزرنا ہوتا ہے اس مدت کے بعد جب نئے اعضا ء کے ساتھ پروان بھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو اس طرح وہ مزید تیس سال تک زندہ رہتا ہے۔
عقاب کی زندگی سے منسلک ان ساری باتوں سے اقبال ؒ نے ہمیں یہ سبق سکھایا کہ بعض دفعہ ہمارے لیے اپنی زندگی کو بدلنا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ ہم پہلے سے بہتر زندگی بسر کر سکیں اگرچہ اس زندگی کو بدلنے کے لیے ہمیں سخت محنت و تکلیف سے ہی کیوں ناگزرنا پڑے ۔
علامہ محمد اقبال ؒ کے کلام ایسے کئی جہانوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو جینے کے ڈھنگ سکھاتے ہیں، علامہ اقبال ؒ نے اشرف المخلوقات کو اپنی حقیقت کی اہمیت کے ساتھ منزل پانے میں جو راہنمائی فرمائی ہے اس میں مذہب و ملت کی پرواہ کئے بغیر لاتعداد انسانوں نے زہنی عروج حاصل کیے جس میں ایران وہ ملک ہے جہاں علامہ محمد اقبالؒکے کلام سے مومن کا انقلاب حقیقی روپ میں نمودار ہوا۔
کلام اقبال ؒ کی گہرائیوں میں اتریں تو زمینی آسمانی جہانوں کی سیر ہونے لگتی ہے آپ کی زندگی غلامی رسول اللہ ﷺ کے نور میں لپٹی دنیا کے ہر فرد کے لیے اندھیروں میں روشنی بکھیرنے کا کام کرتی رہی ہے، علامہ محمد اقبال ؒ وہ روحانی شخصیت پیدا ہوئی ہیں جن کی ظاہری موت نے ان کو طویل زمانوں کے لیے انسانیت کے دلوں میں زندہ رکھنے کا ذمہ لیا ہوا ہے ۔
اقبال ؒ اپنی تمام تر آسمانی عنایات کو وجہ محبت رسول اللہ ﷺ سے منسلک کرتے ہیں ایک لاکھ سے زائد ہدایہ درود پاک پیش کرنے پر توجہ رسول خداﷺ پانے والے علامہ محمد اقبال ؒ سے روضہ رسولﷺ پر نہ جانے کا پوچھا گیا تو مالی تنگی کا بہانہ بنا کر بات کو ٹالنے والے علامہ محمد اقبال ؒ سے پوچھا گیا آپ پیسوں سے یورپ گھو م سکتے ہیں مگر مدینہ پاک نہ جانے کی یہ وجہ عقل تسلیم نہیں کرتی سچ بتائیں؟ تو علامہ محمد اقبال ؒ خواہش روح بتاتے ہیں کہ میں ایسے مدینہ پاک نہیں جانا چاہتا ۔ پوچھا گیا تو کیسے جانا چاہتے ہیں ؟یاد محبوب خداﷺ میں ڈوب کر ادب کے لہجے میں تڑپ محبت کو آنسوؤں کا وضو کروا کر، کہتے ہیں کہ میرا جسم مر کر مٹی میں مل جائے پھر اس مٹی کو ہند کی ہوا روضہ رسول اللہﷺ کو جانے والی راہوں میں رکھ دے پھر حاضری کے لیے جانے والوں کے جوتے مجھے اپنے ساتھ لگا کر اندر لے جائیں میں ایسے اپنے محبوب خداﷺ کے پاس جانا چاہتا ہوں ۔
علامہ محمد اقبال ؒ کی تحریک پاکستان کے حوالے سے تمام تر کاوشیں زمانہ عام پھیلی ہوئی ہیں مگر ان کے کلام میں آسمانی کیفیات سے ان کے روحانی قد کا پتا چلتا ہے انہوں نے علم قرآن و حدیث کے سمندروں میں غوطے لگا کر ان کی گہرائیوں سے ہیرے موتی اکھٹے کر کے اپنے کلام کی شکل میں انسانیت کو سونپ کر خدا سے کہتے ہیں کہ اے اللہ اگر میں نے ایک لفظ بھی تیرے اور تیرے محبوب ؑ کے فرمان سے ہٹ کر بیان کیا ہو تو قیامت کے دن اپنے محبوب ؑ کی قدم بوسی سے محروم کر دینا۔
علامہ محمد اقبال ؒ کے نزدیک زمین کی تقسیم پر سرحدوں کے قیام کا نام آزادی و ملک کا حصول نہیں تھا بلکہ وہ اسلامیت و مسلمانیت کو انسانیت کے لیے عملی طور پر سب سے افضل زندگی کے روپ میں دیکھتے تھے جس میں اسلام اپنے حقیقی مسلمانوں کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو عدل وانصاف حقوق العباد حسن سلوک کے نظام سے اس طرح مستفید کرے کہ انسانیت دامن امن و سلامتی میں ترقی سے سرشار ہو کر اسلام و مسلمانیت کے معیارکو ناصرف سمجھے بلکہ روشن ہو جائے ۔
علامہ محمد اقبال ؒ کی تما م فکر عملی طور پر کردار میں پیش کرنے پر مرکوز رہی وہ مسلمانوں کی بکھری بہکی زندگی کو اسلام کی روشنی سے منور کرنے کی قلمی کوشش کو اپنے اشعار میں یوں بیان کرتے ہیں کہ۔
تیرے ہی حالات سے ہے تیرا پریشان ہونا
ورنہ مشکل نہیں مشکل آسان ہونا
دو عالم پہ ہو تیری ہی حکومت اے مسلم
تو سمجھ جائے ا گر اپنا مسلمان ہونا