کارپارکنگ فیس برطانوی اسپتالوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ
برطانیہ میں کار پارکنگ سے سالانہ لاکھوں پاؤنڈ حاصل ہوتے ہیں
برطانیہ میں سرکاری اسپتال ''نیشنل ہیلتھ سروس'' ( این ایچ ایس ) کے زیرانتظام ہوتے ہیں۔ پاکستانی اسپتالوں کی انتظامیہ کی طرح برطانیہ میں بھی سرکاری اسپتال فنڈز کی قلت کا رونا روتے رہتے ہیں۔
مگر اپنی آمدنی کے ایک اہم ذریعے کے بارے میں ان کی انتظامیہ ہمیشہ خاموش رہتی ہے۔ یہ ذریعے ہے کارپارکنگ! جی ہاں آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بعض اسپتالوں کو گاڑیوں کی پارکنگ فیس کی مد میں ہونے والی آمدنی لاکھوں پاؤنڈز سالانہ ہوتی ہے۔ کئی اسپتال ایسی جگہوں پر واقع ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا روٹ نہیں ہے، اور ان اسپتالوں میں کارپارکنگ کا انتظام چلانے کے ذمہ دار مریضوں اور ان کی عیادت کے لیے آنے والوں سے گاڑیاں کھڑی کرنے کی مد میں گھنٹوں کے حساب سے فیس وصول کرتے ہیں۔
اسپتالوں کو کارپارکنگ فیس کی مد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں جاننے کے لیے ایک برطانوی روزنامے کی جانب سے'' فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ '' کے تحت دی گئی درخواستوں کے جواب میں چشم کشا اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروس کے زیرانتظام 186 ٹرسٹ اسپتالوں میں سے 74 کو کارپارکنگ فیس کی مد میں ، گذشتہ مالی سال کے دوران پانچ لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ وصول ہوئے۔ 46 اسپتالوں کو اس مد میں دس لاکھ پاؤنڈ سے بھی زیادہ آمدنی ہوئی۔
برمنگھم میں واقع ہارٹ آف انگلینڈ این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ کارپارکنگ کی مد میں سب سے زیادہ کمانے والا ٹرسٹ تھا جس نے ایک سال کے دوران تقریباً چالیس لاکھ پاؤنڈ کمائے ( پاکستانی روپوں میں یہ رقم 68کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے) ۔ دوسرے نمبر پر لیشسٹر این ایچ ایس ٹرسٹ کا یونی ورسٹی ہاسپٹل رہا جس کی آمدنی 3670907 پاؤنڈ تھی۔
اسپتالوں کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ اس آمدنی کا زیادہ حصہ کار پارکنگ کے لیے مختص جگہوں کی انتظام کاری ہی پر خرچ ہوجاتا ہے، لیکن لیشسٹر این ایچ ایس ٹرسٹ نے تسلیم کیا کہ اخراجات سے زائد آمدنی بھی ہوئی جسے ٹرسٹ کے زیرانتظام تین اسپتالوں میں کارپارکنگ ایریا کو بہتر بنانے پر خرچ کردیا گیا۔ ساؤتھمپٹن یونی ورسٹی اسپتال کے منتظم این ایچ ایس ٹرسٹ کے مطابق اسے کارپارکنگ فیس کی مد میں 34 لاکھ پاؤنڈ وصول ہوئے۔ مذکورہ ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اس کے زیرانتطام اسپتالوں میں گھنٹے کے حساب سے پارکنگ فیس وصول نہیں کی جاتی اور اس کی شرح بھی دوسرے اسپتالوں کے مقابلے میں مناسب ہے۔
اسپتالوں کا رُخ کرنے والے مریضوں اور ان کے لواحقین اس وقت شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جب انھیں گھنٹوں اور منٹوں کے حساب پارکنگ کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سے لیا گیا اپائنمنٹ کسی وجہ سے گھنٹوں تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس میں مریض کا کوئی قصور نہیں ہوتا مگر کارپارکنگ ایریا کی انتظامیہ اس تاخیر کی بنیاد پر ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتی۔ نیوکیسل کی رہائشی مارگریٹ ڈونے اپنے ضعیف والد تھامس کننگھم کوہفتہ وار چیک اپ کے لیے دو ماہ تک اسپتال لے جاتی رہی تھی۔
دو ماہ کے دوران پارکنگ فیس کی مد میں اسے 2.20 پاؤنڈ فی گھنٹہ کے حساب سے دوسو پاؤ نڈ بھرنے پڑے۔ آخری بار تھامس کی حالت زیادہ بگڑنے پر اسے ایمبولینس میں رائل وکٹوریا اسپتال لے جایا گیا تھا۔ مارگریٹ اپنی کار میں ایمبولینس کے پیچھے پیچھے تھی۔ آٹھ گھنٹے کے بعد مارگریٹ اپنے والد کو دیکھ پائی اور اس دوران پارکنگ میٹر چلتا رہا تھا۔
لندن کے چیلسی اور ویسٹ منسٹر اسپتال میں گاڑی پارک کرنے والوں کی حالت اور بھی قابل رحم ہوتی ہے۔ وہاں پارکنگ فیس تین ڈالر فی گھنٹہ سے شروع ہوتی ہے اور اگر کہیں گاڑی رات بھر پارکنگ میں کھڑی کرنی پڑ جائے تو پھر صبح ہوتے ہی 40 پاؤنڈ کا بل پکڑا دیا جاتا ہے۔ صورت حال کینسر اور دیگر خطرناک امراض میں مبتلا مریضوں کے لواحقین کے لیے اور بھی اذیت ناک ہوجاتی ہے جنھیں ہر روز اپنے مریض کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال آنا پڑتا ہے۔ ہر ماہ ان کی آمدنی کا اہم حصہ پارکنگ فیس کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ کئی اسپتالوں میں عام لوگوں کے علاوہ ان کے ملازمین کو بھی پارکنگ فیس ادا کرنی پڑتی ہے، اور یہ فیس عام شرح سے زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وہٹنگٹن ہاسپٹل این ایچ ایس ٹرسٹ میں مریضوں اور عام لوگوں سے گاڑیاں پارک کرنے کے عوض تین پاؤنڈ فی گھنٹہ لیے جاتے ہیں مگر اپنے ہی ملازمین کے لیے یہ فیس چار پاؤنڈ فی گھنٹہ ہے۔
برطانوی باشندے اس صورت حال سے نالاں ہیں۔ اس کے پیش نظر ویلز اور اسکاٹ لینڈ کے کچھ اسپتالوں میں کارپارکنگ مفت ہے مگر دیگر اسپتالوں کے لیے کارپارکنگ فیس آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔
مگر اپنی آمدنی کے ایک اہم ذریعے کے بارے میں ان کی انتظامیہ ہمیشہ خاموش رہتی ہے۔ یہ ذریعے ہے کارپارکنگ! جی ہاں آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بعض اسپتالوں کو گاڑیوں کی پارکنگ فیس کی مد میں ہونے والی آمدنی لاکھوں پاؤنڈز سالانہ ہوتی ہے۔ کئی اسپتال ایسی جگہوں پر واقع ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا روٹ نہیں ہے، اور ان اسپتالوں میں کارپارکنگ کا انتظام چلانے کے ذمہ دار مریضوں اور ان کی عیادت کے لیے آنے والوں سے گاڑیاں کھڑی کرنے کی مد میں گھنٹوں کے حساب سے فیس وصول کرتے ہیں۔
اسپتالوں کو کارپارکنگ فیس کی مد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں جاننے کے لیے ایک برطانوی روزنامے کی جانب سے'' فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ '' کے تحت دی گئی درخواستوں کے جواب میں چشم کشا اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروس کے زیرانتظام 186 ٹرسٹ اسپتالوں میں سے 74 کو کارپارکنگ فیس کی مد میں ، گذشتہ مالی سال کے دوران پانچ لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ وصول ہوئے۔ 46 اسپتالوں کو اس مد میں دس لاکھ پاؤنڈ سے بھی زیادہ آمدنی ہوئی۔
برمنگھم میں واقع ہارٹ آف انگلینڈ این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ کارپارکنگ کی مد میں سب سے زیادہ کمانے والا ٹرسٹ تھا جس نے ایک سال کے دوران تقریباً چالیس لاکھ پاؤنڈ کمائے ( پاکستانی روپوں میں یہ رقم 68کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے) ۔ دوسرے نمبر پر لیشسٹر این ایچ ایس ٹرسٹ کا یونی ورسٹی ہاسپٹل رہا جس کی آمدنی 3670907 پاؤنڈ تھی۔
اسپتالوں کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ اس آمدنی کا زیادہ حصہ کار پارکنگ کے لیے مختص جگہوں کی انتظام کاری ہی پر خرچ ہوجاتا ہے، لیکن لیشسٹر این ایچ ایس ٹرسٹ نے تسلیم کیا کہ اخراجات سے زائد آمدنی بھی ہوئی جسے ٹرسٹ کے زیرانتظام تین اسپتالوں میں کارپارکنگ ایریا کو بہتر بنانے پر خرچ کردیا گیا۔ ساؤتھمپٹن یونی ورسٹی اسپتال کے منتظم این ایچ ایس ٹرسٹ کے مطابق اسے کارپارکنگ فیس کی مد میں 34 لاکھ پاؤنڈ وصول ہوئے۔ مذکورہ ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اس کے زیرانتطام اسپتالوں میں گھنٹے کے حساب سے پارکنگ فیس وصول نہیں کی جاتی اور اس کی شرح بھی دوسرے اسپتالوں کے مقابلے میں مناسب ہے۔
اسپتالوں کا رُخ کرنے والے مریضوں اور ان کے لواحقین اس وقت شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جب انھیں گھنٹوں اور منٹوں کے حساب پارکنگ کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سے لیا گیا اپائنمنٹ کسی وجہ سے گھنٹوں تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس میں مریض کا کوئی قصور نہیں ہوتا مگر کارپارکنگ ایریا کی انتظامیہ اس تاخیر کی بنیاد پر ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتی۔ نیوکیسل کی رہائشی مارگریٹ ڈونے اپنے ضعیف والد تھامس کننگھم کوہفتہ وار چیک اپ کے لیے دو ماہ تک اسپتال لے جاتی رہی تھی۔
دو ماہ کے دوران پارکنگ فیس کی مد میں اسے 2.20 پاؤنڈ فی گھنٹہ کے حساب سے دوسو پاؤ نڈ بھرنے پڑے۔ آخری بار تھامس کی حالت زیادہ بگڑنے پر اسے ایمبولینس میں رائل وکٹوریا اسپتال لے جایا گیا تھا۔ مارگریٹ اپنی کار میں ایمبولینس کے پیچھے پیچھے تھی۔ آٹھ گھنٹے کے بعد مارگریٹ اپنے والد کو دیکھ پائی اور اس دوران پارکنگ میٹر چلتا رہا تھا۔
لندن کے چیلسی اور ویسٹ منسٹر اسپتال میں گاڑی پارک کرنے والوں کی حالت اور بھی قابل رحم ہوتی ہے۔ وہاں پارکنگ فیس تین ڈالر فی گھنٹہ سے شروع ہوتی ہے اور اگر کہیں گاڑی رات بھر پارکنگ میں کھڑی کرنی پڑ جائے تو پھر صبح ہوتے ہی 40 پاؤنڈ کا بل پکڑا دیا جاتا ہے۔ صورت حال کینسر اور دیگر خطرناک امراض میں مبتلا مریضوں کے لواحقین کے لیے اور بھی اذیت ناک ہوجاتی ہے جنھیں ہر روز اپنے مریض کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال آنا پڑتا ہے۔ ہر ماہ ان کی آمدنی کا اہم حصہ پارکنگ فیس کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ کئی اسپتالوں میں عام لوگوں کے علاوہ ان کے ملازمین کو بھی پارکنگ فیس ادا کرنی پڑتی ہے، اور یہ فیس عام شرح سے زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وہٹنگٹن ہاسپٹل این ایچ ایس ٹرسٹ میں مریضوں اور عام لوگوں سے گاڑیاں پارک کرنے کے عوض تین پاؤنڈ فی گھنٹہ لیے جاتے ہیں مگر اپنے ہی ملازمین کے لیے یہ فیس چار پاؤنڈ فی گھنٹہ ہے۔
برطانوی باشندے اس صورت حال سے نالاں ہیں۔ اس کے پیش نظر ویلز اور اسکاٹ لینڈ کے کچھ اسپتالوں میں کارپارکنگ مفت ہے مگر دیگر اسپتالوں کے لیے کارپارکنگ فیس آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔