اسرائیلی فورسزکے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ پر حملے میں 36 فلسطینی، لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے حملے میں 23 لبنانی جب کہ شام کے دارالحکومت کی رہائشی عمارت پر ہوئے حملے میں 7 شامی شہید ہوگئے۔ دوسری جانب امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں نے حوثیوں کے ٹھکانوں پر متعدد حملے کیے، پینٹا گون کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف یمن میں ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے کی جدید تنصیبات ہیں۔
اسرائیل نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے خلاف غزہ میں جنگ کا محاذ کھولا، جو ایک سال سے زائد عرصے سے ابھی تک جاری ہے اور اس کے دوران ظلم و بربریت کا کوئی ہتھکنڈہ نہیں ہوگا جو فلسطینیوں پر نہ توڑا گیا ہو۔ اسرائیل نے غزہ کے علاوہ لبنان، مصر، عراق اور ایران تک اس جنگ کا دائرہ پھیلا دیا ہے جس کے باعث تیسری عالمی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور عالمی امن تاراج ہوتا نظر آرہا ہے۔
غزہ کے وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی مظالم میں اب تک 43 ہزار 500 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد شہری زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر ( او ایچ سی ایچ آر) نے ایک تازہ رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے اکتوبر 2023 کے بعد سے بین الاقوامی قوانین کی متعدد خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کیں۔ صہیونی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غزہ کے شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، شہید ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اسرائیل جس طرح فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اس کی مثال جدید دنیا میں نہیں ملتی ہے، حالانکہ تمام امن پسند ممالک بشمول اقوام متحدہ اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ فی الفور جنگ بندی کرے اور حماس کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے تاکہ فلسطین میں امن قائم ہوسکے۔ نیز دو ریاستوں کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جاسکے، تاکہ اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں کے درمیان اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت سے جہاں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے، وہیں دو ریاستوں کے تصورکا اس بات چیت کے ذریعے باثمر نتیجہ نکل سکتا ہے۔
اب ٹرمپ ایک بار پھر امریکی صدر منتخب گئے ہیں، وہ جنوری میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ مشرق وسطیٰ کا ہے، خصوصیت کے ساتھ دراصل ٹرمپ خود بھی چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ سمیت جہاں جہاں بھی مقامی جنگیں جاری ہیں، ان کو رکنا چاہیے بلکہ دنیا کو معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے امن کی راہ اپنانی چاہیے۔ ٹرمپ کی کوشش ہوگی کہ مشرق وسطیٰ کے مسئلے کو دیرپا بنیادوں پر حل ہونا چاہیے، ورنہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ خطہ اگر جنگ کے شعلوں میں پھنس گیا تو دنیا ایک نئے خطرناک معاشی بحران کا شکار ہوسکتی ہے، گو ٹرمپ اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کی حمایت نہیں کریں گے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں متحارب گروپوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے اس علاقے میں امن کی کوئی راہ استوار ہوجائے۔
ٹرمپ اپنے دل میں سعودی عرب کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور امریکا کے ساتھ ان کے تعلقات کو وسعت دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ مضبوط ملک سعودی عرب ہی ہے جو سیاسی بنیاد پر پورے عربوں کی نمایندگی کرتا ہے۔ دوسری جانب امریکی جریدے فارن پالیسی میں سیاسی امور کے ماہرین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد خارجہ پالیسی پر انتہا پسندوں کے غلبے کا خدشہ ظاہرکیا ہے۔ امریکی جریدے میں شایع شدہ مضمون میں سیاسی امورکے ماہر نے لکھا کہ ٹرمپ کی پہلی مدت میں قومی سلامتی کے لیے کئی سیاسی تقرریاں تین حصوں پر مشتمل تھی۔ سب سے بڑا حصہ ماہرین، دوسرا تجربہ کار سینئر حکام جیسے مک ماسٹر اور جان بولٹن جب کہ تیسرا چھوٹا مگر اثر و رسوخ رکھنے والا گروپ تھا۔
یہ گروپ ٹرمپ کی خواہشات کو کسی نتائج کی پرواہ کیے بغیر پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا، یہ تیسرا گروپ ہی تھا جس نے افغانستان سے فوری طور پر نکلنے جیسے فیصلے جلدی میں لینے کی کوشش کی۔صہیونی ریاست نے پہلی بار لبنان میں پیجرز حملوں کی ذمے داری قبول کرلی، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ انھوں نے ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کے خلاف پیجرز حملوں کی منظوری دی تھی، جب کہ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) برائے فلسطینی مہاجرین کے سربراہ فلپ لازارینی نے خبردار کیا ہے کہ شمالی غزہ میں انسانی ساختہ قحط کا خطرہ ہے اور اسرائیل پر ایک بار پھر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں پر بمباری کے دوران بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
خلیجی ریاست کی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے عمل کو اس وقت تک معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک فریقین مذاکرات میں ’’آمادگی اور سنجیدگی‘‘ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ قطر 2012 سے امریکا کی مدد سے حماس کی سیاسی قیادت کی میزبانی کی ہے اور خلیجی ریاست نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے طویل سفارت کاری بھی کی۔اسرائیلی اخبار کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی انتظامیہ کو غزہ جنگ فوری نمٹانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ کی غزہ جنگ سے متعلق تجویز سے انکار نیتن یاہو کے لیے مشکل ہوگا۔ غزہ میں شروع کی جانے والی اسرائیلی جنگ نے پورے مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر عدم تحفظ کے گہرے احساس کو اجاگر کیا ہے۔
امریکا میں جوبائیڈن کی حکومت کو اسرائیلی جنگ جوئی کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پورے سال کے دوران میں امریکا، اسرائیل پر جنگ بند کرنے اور غزہ میں انسانی امداد بحال کرنے کی کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے امریکی حکومت کے مطالبے کو نظراندازکیا ہے اور جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ بائیڈن حکومت نے اسرائیلی جنگ جوئی کی مخالفت کرنے کے باوجود اس کی فوجی امداد میں اضافہ کیا اور اسے اسلحہ کی فراہمی بھی جاری رکھی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ امریکی معاشرہ میں اسرائیل کے وجود کی ضمانت دینے کے لیے شدید جذبات موجود ہیں۔ اس لیے واشنگٹن میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو اور وہائٹ ہاؤس میں کوئی بھی صدر براجمان ہو، اسرائیل کے لیے فوجی امداد اور اس کی حفاظت کے لیے مکمل سہولت کاری سے گریزکا امکان نہیں ہے۔ یہ صورت حال عوام کا سیاسی مزاج تبدیل ہونے اور اسرائیل نواز لابی کے مقابلے میں عرب آبادی و ممالک کی لابیوں کے مضبوط ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ البتہ یہ بھی واضح ہے کہ ایسا امکان پیدا ہونے تک تبدیل ہوتی عالمی سیاست میں شاید امریکا کو وہ اہمیت و قدر و قیمت ہی حاصل نہ رہے جس کی وجہ سے وہ اس وقت کسی بھی خطے میں اور کسی بھی تنازعے میں فیصلہ کن اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔